حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال
Referred back
fotos are not impressive
Do not put inverted commas to headline
Sadia Group: Hyderabad Sanitation: Hamza Hussain 98, Sadia Khawaja 79, Mehak 56, Hifza 42, Ahsan Ali 7, Kashan Sikandar 51.
fotos are not impressive
Do not put inverted commas to headline
Sadia Group: Hyderabad Sanitation: Hamza Hussain 98, Sadia Khawaja 79, Mehak 56, Hifza 42, Ahsan Ali 7, Kashan Sikandar 51.
تحقیقاتی رپورٹ:
حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال‘
سعدیہ خواجہ، حفضہ راجپوت، اور کاشان سکندر کا حصہ کہاں ہے؟
پیراگراف صحیح کریں۔
شہر میں گندگی ہے یہ ثابت کیسے کریں گے؟ اس رپورٹ سے نہیں ہوتا۔ پرائمری ڈیٹا میں لوگوں سے بات چیت ہونی چاہئے۔ شہر کی صفائی کی صورتحال پر کوئی سرکاری رپورٹس یا بریفنگ ہونگی، کسی اور غیر سرکاری ادارے وغیرہ کی رپورٹس، عدالت کے ریمارکس یہ سب ڈاکیومنٹری ثبوت ہوتے ہیں جو آپ کے نکات کو ثابت کرتے ہیں۔
شہریوں کی جانب سے تحریری شکایات، کوئی احتجاج،
کچھ ماضی کے واقعات، کچھ تاریخ کہ حیدرآباد صفائی کے حوالے کیسا تھا۔ اسکو پڑھنے کے قابل بنانے کے لئے کچھ مزیدار باتیں ہونی چاہئیں
گروپ اراکین:
1: سید حمزہ حسین (2k17/MC/98)
2: سادیہ خوا جہ (2k17/MC/79)
3: مہک علی (2k17/MC/56)
4: حفضہ راجپوت (2k17/MC/42)
5: احسن علی (2k17/MC/07)
6: کاشان سکندر (2k17/MC/51)
موضوع:
سید حمزہ حسین: بجٹ
سعدیہ خواجہ: مختلف جگہوں کا سروے
مہک علی: بیماریاں
حفضہ راجپوت: دستاویز
احسن علی: ذاتی مشاہدہ(سوک سینس)
کاشان سکندر: ملازمین
حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال‘
احسن علی: ذاتی مشاہدہ (سوک سینس)
انسانی زندگی میں صفائی و ستھرائی کی بڑی اہمیت ہے اس کے بغیر
کسی مہذب قوم اور مہذب سماج کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ صفائی ستھرائی انسان کی زندگی کا لازمی جز ہے۔ مگر حیدرآباد میں ہر طرف گندگی کے ڈھیر، کچرا اور گلی، محلوں، سڑکوں عام و خاص شاہراؤں پر غلاظت کے ڈھیر موجود ہونے کا سبب جہاں بلدیہ کے عہدیداروں کی نااہلی ہے اُدھر عوام اور شہریوں کا بھی ایک حد تک قصور نظر آتا ہے۔
میئر آف حیدرآباد کا اسی حوالے سے کہنا تھا کہ بیشتر علاقوں میں ہمارے ورکرز صبح 7 بجے سے لے کر 11بجے تک کچرا اُٹھالیتے ہیں اور سڑکوں پر جھاڑو لگانے کا کام بھی مکمل ہوجاتا ہے مگر لوگ زیادہ تر 11 بجے کے بعد اُٹھتے ہیں یا گھر کی صفائی کا کام 11 کے بعد کیا جاتا ہے اور وہ اپنے گھر کو صاف ستھرا کرنے کے بعد کوڑا کرکٹ باہر پھینک دیتے ہیں اور اس طرح گندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب بلکل خود مختار ہوگئے ہیں اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ فالتو چیزیں، کوڑاکرکٹ محلے کی گلیوں اور سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں، سرکاری عمارات، کمیونٹی عمارات، خالی اسکولز، پارک یہ وہ تمام مقامات ہیں جہاں حیدرآباد کی عوام کچرا ڈالنا اپنا حق سمجھتی ہے۔
اس حوالے سے گذشتہ سال سندھ حکومت نے ایک بل بھی پاس کیا تھا جس کے تحت کوئی بھی بندہ یا شخص سڑک، گلی، محلے یا کسی بھی ایسے مقام پر کچرا پھینکنے سے گریز کرے گا جس کا سختی سے منع کیا گیا ہو ورنہ اُسے اسی وقت فوراً گرفتار کرلیا جائے گا جس کے بعد پولیس تھوڑی بہت ایکشن میں بھی آئی اور 2 افراد کو گرفتار بھی کیا مگر تھوڑے ہی دنوں بعد تمام باتیں ختم ہوگئی اور حیدرآباد کا حال بد سے بدتر ہوتا گیا اور حال بے حال ہوگیا ہے اب بلکل لوگوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ہمیں کوئی ایسا پلاٹ یا مقام نہیں دیا جاتا ہے جہاں ہم کوڑا کرکٹ پھینک سکیں اور نہ ہی روز بلدیہ کے ورکرز کچرا اٹھانے آتے ہیں جس کے سبب ہمیں شاہراہوں پر کچرا ڈالنا پڑتا ہے۔
ایک ریسرچ رپورٹ کے تحت دیکھا جائے تو ہر علاقے کے عوام اپنے ارد گرد کے علاقے میں کچرا پھینکنے سے باز نہیں آتی ہے کبھی سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے یہ منظر بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ بس کی کھڑکی سے ایک سرنمودارہوا اور پان گٹکے کی پچکاری مارتے ہوئے گزر گیا۔ اس کے علاوہ پارک یا تفریحی مقامات پر ڈسٹ بن موجود ہونے کے باوجود بھی کچرا اس طرح ہی اُچھال دیا جاتا ہے جس کے سبب ماحول میں گندگی پھیلتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق کے بلدیہ کے حکام لاکھ صفائی کرلیں مگر جب تک عوام جگہ جگہ کچرے کی تھیلیاں، پلاسٹک کا سامان اور فضلہ گھر سے نکال کر باہر پھینکتی رہے گی، جب تک خود سے اپنے علاقے کو صاف رکھنے کا منظم فیصلہ نہیں کرے گی تب تک حیدرآباد کا یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
سینٹرل پالیوشن کنٹرول بورڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام جب کسی دوسرے ملک جاتی ہے تو یہ ہی لوگ ہر طرح کے قانون کی پاسداری کرتے ہیں اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں میں شہری شعور یاتمدنی شعور موجود ہے مگر قانون عمل درآمد نہ ہونے کے سبب ہی حیدرآباد روز بروز کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے لہٰذا یہ عمل صرف بلدیہ کے حکام کا ہی نہیں بلکہ قانون پر عمل درآمد کرواکے اور لوگوں میں ایک مہذب شہری ہونے کا احساس اُجاگر کرنے کے بعد ہی حیدرآباد صاف ستھرا اور بہتر ہوسکتا ہے۔
مہک علی: ” بیماریاں “
حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جہاں کثیر تعداد میں لوگ رہائش پذیر ہیں اور کافی علاقے بہت زیادہ گنجان آباد ہیں، لیکن گذشتہ کئی سالوں میں حیدرآباد کا سب سے بڑا مسئلہ جگہ جگہ پھیلا ہوا کچرا اور غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ حیدرآباد کی چاروں تحصیلیں گندگی اور کچرے کی لپیٹ میں ہیں سب سے زیادہ علاقے جہاں بہت زیادہ تعداد میں کچرا پڑا رہتا ہے ان میں لطیف آباد، پرانی سبزی منڈی، مارکیٹ ٹاور، جی ٹی سی گراؤنڈ، وادھواہ، قاسم چوک کے قریب جامشورو روڈ، لائنڈ چینل گھمن آباد، پھلیلی، لیاقت کالونی، ہیرآباد، اولڈ پاور ہاؤس، ریشم گلی، حسین آباد، کلاتھ مارکیٹ اور کوٹری کے بیشتر علاقے سر فہرست ہیں۔
کچرے سے بدبو اور تعفن کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا تو کرنا پڑتا ہی ہے مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ کچرے کی وجہ سے وبائی امراض کا پھوٹنا اور طرح طرح کی بیماریوں میں آئے دن اضافہ ہونا۔ جس میں پیٹ کے امراض، ڈائیریا، ملیریا، ٹائیفائیڈ، جلدی امراض، سانس کی بیماریاں، فوڈ پوائزننگ اور معدے کے امراض پائے جاتے ہیں۔ پرانی سبزی منڈی کے علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ سبزی منڈی میں کچرا کونڈی اور کچرے کے ڈھیر کے سامنے ہی سبزیوں اور پھلوں کے ٹھیلے لگائے جاتے ہیں جس کے باعث پیٹ کے امراض میں اضافہ ہوتا ہے بلکل اسی طرح سبزی منڈی کے ہی علاقے میں کچرے کے سامنے مختلف ہوٹلز ہیں جہاں تمام چیزیں کھلی رکھی ہوتی ہیں، مکھیوں کی وجہ سے گندگی پھیلتی اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ہوٹلز مالکان کا کہنا تھا کہ کافی دفعہ درخواست لکھی گئی ہے، شکایتیں درج کروائی گئی ہیں مگر کوئی مثبت عمل سامنے نہیں آتا ہے۔
اس حوالے سے بات کرتے ہوئے لطیف آباد کے ایک ہسپتال ہلال احمر کے مختلف ڈاکٹرز کی رائے معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ بدلتے ہوئے موسم اور حیدرآباد میں پڑے جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر کی وجہ سے اس سال، ملیریا، ڈالیئریا اور پیٹ کے امراض کے زیادہ کیسز اسپتال میں آئے ہیں، بچوں کے ڈاکٹر اسلم شیخ کا کہنا تھا کہ اکثر اوقات بچے صفائی کا زیادہ خیال نہیں رکھتے ہیں اور بغیر ہاتھ دھوئے کھانا کھالیتے ہیں اور ہر جگہ پڑے گندگی کے ڈھیر پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور وہ ہی مکھیاں اُن کھانے کی چیز پر بھی آتی ہیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ نئے سال میں ہر روز پوریلطیف آباد میں سے 40 سے 50 بچے پیٹ کے امراض میں مبتلا ہوتے ہیں اس طرح لیاقت کالونی کے گورنمنٹ ہسپتال کے ڈاکٹر کا اس حوالے سے بتانا تھا کہ تقریباً پورے حیدرآباد سے ہی یہاں لوگ علاج کی غرض سے آتے ہیں جن میں پچھلے 2 مہینوں سے ایسے کیسز بہت زیادہ تعداد میں سامنے آئے ہیں جو ہر طرف پھیلے ہوئے کچے کے سبب ہیں۔ جس کی وجہ سے مچھروں میں اضافہ ہوتا ہے اور پھر لوگ ملیریا، ٹائیفائیڈ جیسی خطرناک بیماریوں کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ حیدرآباد میں کم و بیش 12 ہسپتال ہیں جو مختلف مقامات میں قائم ہیں۔ حیدرآباد کا سب سے بڑا گورنمنٹ ہسپتال سول ہسپتال میں بھی روز کے حساب سے ایسے مریض لائے جاتے ہیں جو سانس کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ کچرے میں اضافہ ہونے کے سبب اسے جلایا جاتا ہے صفائی آلودگی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ سانس کی بیماری میں لائے گئے مریضوں کی تعداد روز کے حساب سے 30 سے 40 کے درمیان ہوتی ہے جبکہ ایسے مریضوں کی عمر تقریباً 50 سے 60 سال ہوتی ہے۔
حیدرآباد میں میونسپل کمیٹی اور بلدیہ کے اعلیٰ حکام کو اس حوالے سے کوئی نہ کوئی پیش رفت لینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ شہریوں کی صحت روز بہ روز متاثر ہی ہوتی جائیں گی۔
سید حمزہ حسین: ’’ بجٹ “
ہم جب بھی بات کرتے ہیں بجٹ کی توتمام سرکاری افسروں کا ایک ہی کہنا ہوتا ہے کہ ہمیں تو بجٹ ہی نہیں مل رہا اگر ہم بات کریں بلدیہ کی تو اُن کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ یہاں تو افسروں کو تنخواہ ہی نہیں ملتی تو ہم کام کیسے کریں؟دو دو مہینوں بعد تنخواہ ملتی ہے۔پھر ہم نے بات کی میئرحیدرآباد سہیل مرشدی سے کہ حیدرآباد کا اتنا لاوارث حال کیوں ہے؟ تواُن کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ یہاں افسر کام پر نہیں آتے تنخواہ کی وجہ سے تو ہم نے اُن سے پوچھا جب یہاں تنخواہ نہیں ملتی تو آپ لوگ گزارا کیسے کرتے ہیں اور نوکری کیوں نہیں چھوڑدیتے؟ تو پھر اُنہوں نے کہا ایسا نہیں کہ بلکل بھی تنخواہ نہیں ملتی۔تو دراصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی میئر کے پاس اتنے اختیارات ہیں کہ وہ کسی کو کچھ کہہ سکے یا کسی کو نکال دے۔اب اگر ہم بات کریں بجٹ کی تو گورنمنٹ ماہانہ بجٹ دے رہی لیکن وہ الگ بات ہے کہ اُس کو کوئی پوچھنے والا نہیں
جب ہم نے بات کی ایچ ایم سی کے اکاؤنٹ آفیسر شمس صاحب سے تو اُنہوں نے بتایا کہ ایچ ایم سی میں دو طرح کے بجٹ آتے ہیں ایک سندھ حکومت کی طرف سے ماہانہ بجٹ دیا جاتاہے جس کو اوکٹرائے ضلع ٹیکس (او ذی ٹی) کہا جاتا ہے اور یہ تقریباً 9,34,00,000 تک کا بجٹ ہوتا ہے۔اور دوسرے بجٹ کی دفتر والے خود وصولی کرتے ہیں جس کی مالیت تقریباً 3,00,00,000ہے۔ اگر دونوں کو جمع کیا جائے تو یہ تقریباً 12,34,00,000 رقم بنتی ہے۔اگر اس میں سے ایچ ایم سی کے ٹوٹل اسٹاف کی تنخواہ جو ٹوٹل 11,00,00,000 ہے اگر وہ نکال بھی دی جائے توتقریباً 1,34,00,000 رقم بچتی ہے۔ اِس میں سے صرف تقریباً 80,00,000 کچرے کی صفائی کے لیے مخسوس کیے گئے ہیں جس میں سے اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو اِس سے کافی بہتر کام ہوسکتا ہے اور قطرہ قطرہ دریا بن سکتا ہے۔ ا ور تو اور سندھ گورنمنٹ کی طرف سے تمام یوسی چیئرمین کو ۵ لاکھ (5,00,000)ماہانہ بجٹ دیا جاتا ہے جس میں سے اگر ذاتی اخراجات ۲لاکھ (2,00,000) نکال بھی دیئے جائیں تو ۳لاکھ (3,00,000)بچتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں ہر کوئی دو نمبر پیسے بنانے میں لگا ہوا ہے۔پھر ہم نے کچھ سال پرانے بجٹ کو دیکھا تو اُس میں صفائی کے لیے (133,914,000)مخسوس کیے گئے تھے لیکن اِس بجٹ کا کچھ فیصد بھی خرچ ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ حیدرآباد میں آج تک جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر لگا ہوا ہے جو آج سے پانچ سال پہلے بھی ایسے ہی تھے۔ میئر حیدرآباد سہیل مرشدی کا یہکہنا بھی تھا کہ پچھلی حکومت کے آخر میں صفائی کی مشینری وغیرہ کے لیے (1,00,00,00,000)کا بجٹ پاس ہوا تھا لیکن جب نئی حکومت آئی تو وہ بجٹ ایچ ایم سی کو نہیں مِل سکا۔جس کی وجہ سے بہت سے مسئلہ حل ہوسکتے تھے توحکومت وقت کو اِن مسائل کی طرف جلد از جلد نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ ہم سب کا یہ شہر صاف اور خوشگوار بن سکے۔
Keywords: Hyderabad, Sindh, HMC, Urbanisation, Sanitation, LocalBodies, Mass Communication, Sindh University,
جب ہم نے بات کی ایچ ایم سی کے اکاؤنٹ آفیسر شمس صاحب سے تو اُنہوں نے بتایا کہ ایچ ایم سی میں دو طرح کے بجٹ آتے ہیں ایک سندھ حکومت کی طرف سے ماہانہ بجٹ دیا جاتاہے جس کو اوکٹرائے ضلع ٹیکس (او ذی ٹی) کہا جاتا ہے اور یہ تقریباً 9,34,00,000 تک کا بجٹ ہوتا ہے۔اور دوسرے بجٹ کی دفتر والے خود وصولی کرتے ہیں جس کی مالیت تقریباً 3,00,00,000ہے۔ اگر دونوں کو جمع کیا جائے تو یہ تقریباً 12,34,00,000 رقم بنتی ہے۔اگر اس میں سے ایچ ایم سی کے ٹوٹل اسٹاف کی تنخواہ جو ٹوٹل 11,00,00,000 ہے اگر وہ نکال بھی دی جائے توتقریباً 1,34,00,000 رقم بچتی ہے۔ اِس میں سے صرف تقریباً 80,00,000 کچرے کی صفائی کے لیے مخسوس کیے گئے ہیں جس میں سے اگر ایمانداری سے کام کیا جائے تو اِس سے کافی بہتر کام ہوسکتا ہے اور قطرہ قطرہ دریا بن سکتا ہے۔ ا ور تو اور سندھ گورنمنٹ کی طرف سے تمام یوسی چیئرمین کو ۵ لاکھ (5,00,000)ماہانہ بجٹ دیا جاتا ہے جس میں سے اگر ذاتی اخراجات ۲لاکھ (2,00,000) نکال بھی دیئے جائیں تو ۳لاکھ (3,00,000)بچتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس ملک میں ہر کوئی دو نمبر پیسے بنانے میں لگا ہوا ہے۔پھر ہم نے کچھ سال پرانے بجٹ کو دیکھا تو اُس میں صفائی کے لیے (133,914,000)مخسوس کیے گئے تھے لیکن اِس بجٹ کا کچھ فیصد بھی خرچ ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ حیدرآباد میں آج تک جگہ جگہ کچرے کا ڈھیر لگا ہوا ہے جو آج سے پانچ سال پہلے بھی ایسے ہی تھے۔ میئر حیدرآباد سہیل مرشدی کا یہکہنا بھی تھا کہ پچھلی حکومت کے آخر میں صفائی کی مشینری وغیرہ کے لیے (1,00,00,00,000)کا بجٹ پاس ہوا تھا لیکن جب نئی حکومت آئی تو وہ بجٹ ایچ ایم سی کو نہیں مِل سکا۔جس کی وجہ سے بہت سے مسئلہ حل ہوسکتے تھے توحکومت وقت کو اِن مسائل کی طرف جلد از جلد نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ ہم سب کا یہ شہر صاف اور خوشگوار بن سکے۔
Keywords: Hyderabad, Sindh, HMC, Urbanisation, Sanitation, LocalBodies, Mass Communication, Sindh University,
Comments
Post a Comment