Arham Khan Feature Roll 18
Revised
--------------------------------------------------------------
’’صرافہ بازارسے لے کرمعاشی حالات اور پستی‘‘ تک کا مواد غیر ضروری ہے۔ ہم شاہی بازار کی تاریخ نہیں لکھ رہے ہیں۔ بازار آج کس حال میں ہے۔ اس کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہیں وہ بھی دلچسپ انداز میں۔
آپ کو پہلے جو ہدایات دی گئی تھی اس پر عمل نہیں کیا۔
اس میں منظر کشی چاہئے۔ کوئی ماضی کے قصے باتیں جو پرانے دکانداروں کو یاد ہوں۔ کچھ گاہکوں سے یا پرانے لوگوں سے۔ ایسا کچھ جو پہلے شایع نہ ہوا ہو۔
شاہی بازار پر انیس سو اسی کے عشرے کے بعد برے اثرات پڑے ہیں۔ لطیف آباد، صدر، قاسم آباد کی مارکیٹیں بنیں۔ اس بات کا کچھ عکس ملناچاہئے۔الفاظ زیادہ ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ سات آٹھ سو الفاظ چاہئیں اس وقت تیرہ سو سے زائد الفظ ہیں۔لیکن دلچسپ یا کچھ نیا ہو تو زیادہ بھی چل جائیں گے۔
رپورٹنگ بیسڈ بناؤ جس میں اپنا ذاتی مشاہدہ، متعلقہ لوگوں سے بات چیت، کچھ بازار سے متعلق قصے کہانیاں۔ ماضی میں کبھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا ہو، آگ لگ جانے کا، بڑا ڈاکہ، بڑی چوری، یا کوئی قتل۔ یا کوئی اور واقعہ۔
سندھی ثقافت کا معمار
فیچر ارحم خان
roll:No 18/mc/2k17
زمانہ قدیم کی کہاوت ہے کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب لوگ چیزوں کے عوض دام گٹھریو ں میں لائینگے ۔اور اشیاء ضرورت ہاتھوں میں خرید کر لے جایا کرینگے ۔آج کے دور میں بازار تو بہت ہیں فروخت کرنے والے دوکاندار وں کا بھی بہتات ہے مگر خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ زمانے بیت جاتے ہیں لوگ گزرجاتے ہیں لیکن باتیں اور جگہیں باقی رہتی ہیں ۔شاہی بازار ایسا ہی ایک تاریخی بازار ہے جو کہ زمانہ قدیم سے بروئے کار ہے اور اب تک قائم ہے
حیدرآباد وادی مہران کا دل ہے لیکن حیدرآباد شہر کا دل شاہی بازا ر کو کہنا غلط نہ ہوگا جسے کلھوڑوں اور تالپوروں نے آباد کیا تھا ۔ مگر تقریباً ڈھائی سو بر س گزر جانے کے بعد بھی قائم ہے جو کہ سندھی ثقافت کو جوں کا توں سنمبھالے ہوئے ہے ۔اس بازار میں آپ کو سندھی نقش و نگاری ،ہنرمندی اور کاریگری سے بنے زیورات،اجرک ،ٹوپی،اور دوسری اشیاء بھی ملینگی جو کہ سندھی میراث ہیں ۔
جب ہم نے شاہی بازار کا رخ کیا تو گدھے کو ہوا میں اوڑتا پایا اس کی وجہ کوئی نئی ٹیکنولوجی نہیں بلکہ وجہ رش اور گدھا گاڑی پر(اورلوڈنگ )تھی۔ شاہی بازار پکہ قلعے کے سامنے سے شروع ہوکر ٹاور مارکیٹ یا (نوال کلاک رائے ٹاور )تک سیدھی اور سائے دار سڑک پر واقع ہے جو کہ تقریباً ۲ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اس کے دونوں اطراف میں دوکانیں ہیں ۔ اس بازار میں ذندگی کی تمام اشیاء ضرورت با آسانی حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ یہاں پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل ہندوں کی دکانیں ہوا کرتی تھی ۔پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی یہ بازار اب بھی قائم ہے ۔فرق صرف اتنا ہے جہا ں ہندوں کی دکانیں تھی اب وہاں مسلمان ہیں اور جہاں ۲سے ۳ فٹ اُنچی دکانیں ہوا کرتی تھی اب زمین سے لگی نظر آتی ہیں ۔ بازار کے اطراف میں دوکانیں گلی کا منظر پیش کرتی ہیں ۔اس بازار میں تقریباً ۶ ہزار سے زائد دوکانیں ہیں جو کہ لائن سے ہیں اگر گھڑیوں کی دوکانیں ہیں تو لائن سے ہیں اگر کپڑوں کی ہیں تو یہ بھی لائن سے ہیں اور اگر سونار کی ہیں تو ایسکابھی یہی حال ہے۔ سڑک کی بات کریں تو لچکاتی بل کھاتی دیکھائی دیتی ہے۔اس سڑک پر آپ گاڑی میں سفر کریں تو یہ سفر کسی جھولے سے کم محسوس نہ ہوگا۔یہاں آپ کو جوتا،چپل ،شیشے ،سوئی ،دھاگہ،اجرک ،ٹوپی ،کنگن،ڈیکوریشن ،چوڑیاں،خشک میوہ جات اور ضرورت کی ہر اشیاء ملینگی ۔
اس بازار کے حُسن کی اصل وجہ پتلی پتلی گلیاں ہیں جو کہ کسی بھول بھلیاں کی مانند ایک نئے بازار میں جا ملتی ہیں ۔جن میں صرافہ بازار،مکتی گلی،رشم بازار،چھوٹکی گھٹی یا چھو ٹی گھٹی اور ایڈوانی گلی ہیں۔
صرافہ بازار:
یہ شاہی بازار کے اندر سونے اور زیورات کا بازار ہے اس طرح کابازار شہر میں کہی اور نہیں ہے یہ ہی وجہ ہے کہ یہ بڑی اہمیت کا ہامل ہے ۔ اس بازار میں زیورات کی خریدو فروخت کی جاتی ہے جس بنا پر ایسے صرافہ بازار کہاجاتا ہے۔
مکھ کی گھٹی یا مکتی گلی:
یہ گلی فقیر کے پیڑ اور سیرورقبی لین کے درمیان ہے یہاں کسی زمانہ میں مھکی گوبندرام کے آباو اجداد رہا کرتے تھے ۔اسلئیے اسکا نام مکھین کی گھٹی پڑا اور لوگ کا کہنا ہے کہ دیوان شوتی رام جوکہ ہندو پنچائیت کا مکھ تھا۔اس گلی میں رہتاتھا۔اسی وجہ سے اسکا نام مکھ کی گھٹی پڑا ۔اب اس گلی کا نام مکھتی گلی ہے اور اب اس گلی میں بچوں کے کھلونے ہول سیل میں فروخت کیے جا تے ہیں جن کو دوسرے دوکاندار خریدنے آتے ہیں۔
چھوڑ کی گھٹی یا چھوٹی گھٹی:
یہاں درخت کی چھال فروخت ہوا کرتی تھی ۔پیڑ کی چھال کو سندھی میں چھوڑ کہتے ہیں جس کے باعث اسے چھوڑکی گھٹی کہاجاتا تھا۔ چھوڑ کی گھٹی سے پہلے سمی چاڑی کہاجاتا تھا۔ اب یہاں پر الیکٹرونکس ایٹم اور کھیلو کی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں اور اب اسے چھو ٹی گھٹی کہاجاتاہے۔
ریشم بازار:
ریشم بازار حیدراباد کی سب سے زیادہ مصر و ف جگہ ہے اور کیونکہ خواتین کی خریدو فرخت کی جانے والی اشیاء کے لیے مخصوص ہے یہاں پر خواتین کے لیے کپڑے ،چوڑیاں کنگن،زیورات، سندھی کوٹی اور بھی دوسری چیزیں ملینگی جس کے باعث یہاں پر خواتین کا رش ہوا کرتا ہے ۔
ایڈوانی گھٹی:
ایڈوانی گھٹی یہ چھوٹی گھٹی سے شروع ہوکر شاہی بازار کے ا ندر ختم ہوتی ہے ۔ یہاں دواؤں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے یہ کہاجاتا ہے کہ یہاں پر انڈیا کے سابق وزیر اعظم (ایل کے ایڈوانی ) رہاکرتے تھے ۔
مارکیٹ ٹاور یا نوال رائے کلاک ٹاور :
جہاں مقصد مخصوص بازار بتانے کا ہے وہاں مارکیٹ ٹاور کی بات نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی۔کیونکہ شاہی بازار ٹاور مارکیٹ پر اختتام ہوتا ہے ۔اس ٹاور کی جب بنیاد رکھی گئی تھی ۔نوال رائے اُس وقت کمیٹی کے چیر مین ہوا کرتے تھے اسی وجہ سے اس کا نام نوال رائے کلاک ٹاور یا گھنٹہ گھر پڑا۔اس گھنٹہ گھر کے اطراف میں سبزی مارکیٹ اور گوشت ماکیٹ ہوا کرتی تھی۔اور کسی زمانے میں گھوڑوں کا اسطبل بھی ہوا کرتا تھا ۔ جہاں گھوڑوں کو پانی پیلایا جاتا تھا۔ اب یہا ں کتوں کا راج ہے ۔اور اب یہاں ٹھیلوں پر پھل خریدو فروخت کئے جاتے ہیں ۔
معاشی حالات اور پستی :
بازار جو کہ ہمار ے معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتیں ہیں۔لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشرے کے بُرے حا لات نے جہاں غریب کی روٹی پر ڈاکہ ڈالا ہے وہی اس بازار کی رونق پر بھی منفی اثرا ت ڈا لے ہیں ۔قریبی دوکانداروں کا کہنا ہے کہ شاہی بازار جو کہ صبح ۹ بجے کھولا کرتا تھا اور اندرونے سندھ لوگ صبح سویرے آیا کرتے تھے سامان خرید کر لے جایا کرتے تھے۔دوپہر میں شہر کے لوگ اس بازار کا رخ کرتے تھے۔لیکن معاشرے کے حالا ت کے مطابق دوکاندار جو بھی صبح دوکا ن کھولنے آتا ہے لوٹ لیاجاتاہے ۔ دوکاندار ایک دوسرے کو صبح سویرے دوکان نہ کھولنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں اور اپنے زاتی محافظ اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔اب یہ بازار ۱۱ بجے تک کھولنا شروع ہوتا ہے۔ عمومن دوسرے بازاروں یا مارکیٹ سے یہاں سامان سستاملتاہے ۔ لیکن شہر میں دوسری مارکیٹ اور مال (Mall)کھول جانے کی وجہ سے لوگ وہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ ہر دور کی اپنی روایات ہواکرتی ہے جس کے باعث لوگ اُن روایا ت کی مطابق چلاکرتے ہیں اس دور کی روایات یہ ہے کہ لوگ اپنی روز مرہ کی اشیاء خواہ وہ کھانے پینے کی ہوں یا زیب و زینت کی یہ اشیاء لوگ مال MALL)) سے لینا پسند کرتے ہیں ۔جس کی باعث دوکاندار وں کا دن گہاکو ں کا راستہ تکتے ہی گزر جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے دوکاندار دوکانیں بند کرنے میں مجبور ہیں ۔
بازارکے مسائل:
شاہی بازار کے بڑھتے ہوئے مسائل جو کہ حکومت کی عدم توجہ کے باعث ہیں۔ بازار کی کمیٹی کے چیرمین (مصطو فٰی عباسی )کا کہنا ہے کہ بنیے (ہندو)کے دور میں یہاں دوکانیں بڑی اور ۲سے۳ فٹ اونچی ہواکرتی تھی ۔آج کے تاجر نے ایک دوسرے کی حرص میں اپنی دوکانوں کی جگہ آگے بڑھاکر نہ صرف دوکانوں کو چھو ٹا کر دیاہے بلکہ بازار کی سڑک کو بھی تنگ کر دیا ہے اور رہی کثر بازار میں گدھا گاڑی اور کھڑی گاڑیوں نے پوری کردی ہے اس کے علاوہ بازار میں نکلتی گلیاں ہیں جن میں کئی مکانات ہیں ۔ ان مکانات میں لا کھوں لو گ رہتے ہیں جن کی گزر گاہ یہ ہی بازار ہے ۔جس کی وجہ سے رش بڑھتا ہے ۔
بازار کا دوسرا بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی گندگی ہے اسی کے باعث لوگ آنے سے کتراتیں ہیں۔ کمیٹی کے چیرمین (مصطفٰی عباسی ) کا کہنا ہے کہ ہم ضلعی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بازار کی صفائی ستھر ائی کے نظام کو بہتر بنایاجائے۔ تاکہ شاہی بازار کی کھوئی ہوئی رونق لوٹ آئے ۔
ارحم خان
roll:No 18/mc/2k17
آپ کو پہلے جو ہدایات دی گئی تھی اس پر عمل نہیں کیا۔
اس میں منظر کشی چاہئے۔ کوئی ماضی کے قصے باتیں جو پرانے دکانداروں کو یاد ہوں۔ کچھ گاہکوں سے یا پرانے لوگوں سے۔ ایسا کچھ جو پہلے شایع نہ ہوا ہو۔
شاہی بازار پر انیس سو اسی کے عشرے کے بعد برے اثرات پڑے ہیں۔ لطیف آباد، صدر، قاسم آباد کی مارکیٹیں بنیں۔ اس بات کا کچھ عکس ملناچاہئے۔الفاظ زیادہ ہیں۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ سات آٹھ سو الفاظ چاہئیں اس وقت تیرہ سو سے زائد الفظ ہیں۔لیکن دلچسپ یا کچھ نیا ہو تو زیادہ بھی چل جائیں گے۔
رپورٹنگ بیسڈ بناؤ جس میں اپنا ذاتی مشاہدہ، متعلقہ لوگوں سے بات چیت، کچھ بازار سے متعلق قصے کہانیاں۔ ماضی میں کبھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا ہو، آگ لگ جانے کا، بڑا ڈاکہ، بڑی چوری، یا کوئی قتل۔ یا کوئی اور واقعہ۔
سندھی ثقافت کا معمار
فیچر ارحم خان
roll:No 18/mc/2k17
زمانہ قدیم کی کہاوت ہے کہ ایک دور ایسا بھی آئے گا جب لوگ چیزوں کے عوض دام گٹھریو ں میں لائینگے ۔اور اشیاء ضرورت ہاتھوں میں خرید کر لے جایا کرینگے ۔آج کے دور میں بازار تو بہت ہیں فروخت کرنے والے دوکاندار وں کا بھی بہتات ہے مگر خریدار نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ زمانے بیت جاتے ہیں لوگ گزرجاتے ہیں لیکن باتیں اور جگہیں باقی رہتی ہیں ۔شاہی بازار ایسا ہی ایک تاریخی بازار ہے جو کہ زمانہ قدیم سے بروئے کار ہے اور اب تک قائم ہے
حیدرآباد وادی مہران کا دل ہے لیکن حیدرآباد شہر کا دل شاہی بازا ر کو کہنا غلط نہ ہوگا جسے کلھوڑوں اور تالپوروں نے آباد کیا تھا ۔ مگر تقریباً ڈھائی سو بر س گزر جانے کے بعد بھی قائم ہے جو کہ سندھی ثقافت کو جوں کا توں سنمبھالے ہوئے ہے ۔اس بازار میں آپ کو سندھی نقش و نگاری ،ہنرمندی اور کاریگری سے بنے زیورات،اجرک ،ٹوپی،اور دوسری اشیاء بھی ملینگی جو کہ سندھی میراث ہیں ۔
جب ہم نے شاہی بازار کا رخ کیا تو گدھے کو ہوا میں اوڑتا پایا اس کی وجہ کوئی نئی ٹیکنولوجی نہیں بلکہ وجہ رش اور گدھا گاڑی پر(اورلوڈنگ )تھی۔ شاہی بازار پکہ قلعے کے سامنے سے شروع ہوکر ٹاور مارکیٹ یا (نوال کلاک رائے ٹاور )تک سیدھی اور سائے دار سڑک پر واقع ہے جو کہ تقریباً ۲ کلو میٹر کا فاصلہ ہے اس کے دونوں اطراف میں دوکانیں ہیں ۔ اس بازار میں ذندگی کی تمام اشیاء ضرورت با آسانی حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ یہاں پاکستان کے وجود میں آنے سے قبل ہندوں کی دکانیں ہوا کرتی تھی ۔پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد بھی یہ بازار اب بھی قائم ہے ۔فرق صرف اتنا ہے جہا ں ہندوں کی دکانیں تھی اب وہاں مسلمان ہیں اور جہاں ۲سے ۳ فٹ اُنچی دکانیں ہوا کرتی تھی اب زمین سے لگی نظر آتی ہیں ۔ بازار کے اطراف میں دوکانیں گلی کا منظر پیش کرتی ہیں ۔اس بازار میں تقریباً ۶ ہزار سے زائد دوکانیں ہیں جو کہ لائن سے ہیں اگر گھڑیوں کی دوکانیں ہیں تو لائن سے ہیں اگر کپڑوں کی ہیں تو یہ بھی لائن سے ہیں اور اگر سونار کی ہیں تو ایسکابھی یہی حال ہے۔ سڑک کی بات کریں تو لچکاتی بل کھاتی دیکھائی دیتی ہے۔اس سڑک پر آپ گاڑی میں سفر کریں تو یہ سفر کسی جھولے سے کم محسوس نہ ہوگا۔یہاں آپ کو جوتا،چپل ،شیشے ،سوئی ،دھاگہ،اجرک ،ٹوپی ،کنگن،ڈیکوریشن ،چوڑیاں،خشک میوہ جات اور ضرورت کی ہر اشیاء ملینگی ۔
اس بازار کے حُسن کی اصل وجہ پتلی پتلی گلیاں ہیں جو کہ کسی بھول بھلیاں کی مانند ایک نئے بازار میں جا ملتی ہیں ۔جن میں صرافہ بازار،مکتی گلی،رشم بازار،چھوٹکی گھٹی یا چھو ٹی گھٹی اور ایڈوانی گلی ہیں۔
صرافہ بازار:
یہ شاہی بازار کے اندر سونے اور زیورات کا بازار ہے اس طرح کابازار شہر میں کہی اور نہیں ہے یہ ہی وجہ ہے کہ یہ بڑی اہمیت کا ہامل ہے ۔ اس بازار میں زیورات کی خریدو فروخت کی جاتی ہے جس بنا پر ایسے صرافہ بازار کہاجاتا ہے۔
مکھ کی گھٹی یا مکتی گلی:
یہ گلی فقیر کے پیڑ اور سیرورقبی لین کے درمیان ہے یہاں کسی زمانہ میں مھکی گوبندرام کے آباو اجداد رہا کرتے تھے ۔اسلئیے اسکا نام مکھین کی گھٹی پڑا اور لوگ کا کہنا ہے کہ دیوان شوتی رام جوکہ ہندو پنچائیت کا مکھ تھا۔اس گلی میں رہتاتھا۔اسی وجہ سے اسکا نام مکھ کی گھٹی پڑا ۔اب اس گلی کا نام مکھتی گلی ہے اور اب اس گلی میں بچوں کے کھلونے ہول سیل میں فروخت کیے جا تے ہیں جن کو دوسرے دوکاندار خریدنے آتے ہیں۔
چھوڑ کی گھٹی یا چھوٹی گھٹی:
یہاں درخت کی چھال فروخت ہوا کرتی تھی ۔پیڑ کی چھال کو سندھی میں چھوڑ کہتے ہیں جس کے باعث اسے چھوڑکی گھٹی کہاجاتا تھا۔ چھوڑ کی گھٹی سے پہلے سمی چاڑی کہاجاتا تھا۔ اب یہاں پر الیکٹرونکس ایٹم اور کھیلو کی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں اور اب اسے چھو ٹی گھٹی کہاجاتاہے۔
ریشم بازار:
ریشم بازار حیدراباد کی سب سے زیادہ مصر و ف جگہ ہے اور کیونکہ خواتین کی خریدو فرخت کی جانے والی اشیاء کے لیے مخصوص ہے یہاں پر خواتین کے لیے کپڑے ،چوڑیاں کنگن،زیورات، سندھی کوٹی اور بھی دوسری چیزیں ملینگی جس کے باعث یہاں پر خواتین کا رش ہوا کرتا ہے ۔
ایڈوانی گھٹی:
ایڈوانی گھٹی یہ چھوٹی گھٹی سے شروع ہوکر شاہی بازار کے ا ندر ختم ہوتی ہے ۔ یہاں دواؤں کی خریدو فروخت کی جاتی ہے یہ کہاجاتا ہے کہ یہاں پر انڈیا کے سابق وزیر اعظم (ایل کے ایڈوانی ) رہاکرتے تھے ۔
مارکیٹ ٹاور یا نوال رائے کلاک ٹاور :
جہاں مقصد مخصوص بازار بتانے کا ہے وہاں مارکیٹ ٹاور کی بات نہ کی جائے تو زیادتی ہوگی۔کیونکہ شاہی بازار ٹاور مارکیٹ پر اختتام ہوتا ہے ۔اس ٹاور کی جب بنیاد رکھی گئی تھی ۔نوال رائے اُس وقت کمیٹی کے چیر مین ہوا کرتے تھے اسی وجہ سے اس کا نام نوال رائے کلاک ٹاور یا گھنٹہ گھر پڑا۔اس گھنٹہ گھر کے اطراف میں سبزی مارکیٹ اور گوشت ماکیٹ ہوا کرتی تھی۔اور کسی زمانے میں گھوڑوں کا اسطبل بھی ہوا کرتا تھا ۔ جہاں گھوڑوں کو پانی پیلایا جاتا تھا۔ اب یہا ں کتوں کا راج ہے ۔اور اب یہاں ٹھیلوں پر پھل خریدو فروخت کئے جاتے ہیں ۔
معاشی حالات اور پستی :
بازار جو کہ ہمار ے معیشت میں ایک اہم کردار ادا کرتیں ہیں۔لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشرے کے بُرے حا لات نے جہاں غریب کی روٹی پر ڈاکہ ڈالا ہے وہی اس بازار کی رونق پر بھی منفی اثرا ت ڈا لے ہیں ۔قریبی دوکانداروں کا کہنا ہے کہ شاہی بازار جو کہ صبح ۹ بجے کھولا کرتا تھا اور اندرونے سندھ لوگ صبح سویرے آیا کرتے تھے سامان خرید کر لے جایا کرتے تھے۔دوپہر میں شہر کے لوگ اس بازار کا رخ کرتے تھے۔لیکن معاشرے کے حالا ت کے مطابق دوکاندار جو بھی صبح دوکا ن کھولنے آتا ہے لوٹ لیاجاتاہے ۔ دوکاندار ایک دوسرے کو صبح سویرے دوکان نہ کھولنے کا مشورہ دیتے نظر آتے ہیں اور اپنے زاتی محافظ اپنے ساتھ رکھے ہوئے ہیں۔اب یہ بازار ۱۱ بجے تک کھولنا شروع ہوتا ہے۔ عمومن دوسرے بازاروں یا مارکیٹ سے یہاں سامان سستاملتاہے ۔ لیکن شہر میں دوسری مارکیٹ اور مال (Mall)کھول جانے کی وجہ سے لوگ وہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ ہر دور کی اپنی روایات ہواکرتی ہے جس کے باعث لوگ اُن روایا ت کی مطابق چلاکرتے ہیں اس دور کی روایات یہ ہے کہ لوگ اپنی روز مرہ کی اشیاء خواہ وہ کھانے پینے کی ہوں یا زیب و زینت کی یہ اشیاء لوگ مال MALL)) سے لینا پسند کرتے ہیں ۔جس کی باعث دوکاندار وں کا دن گہاکو ں کا راستہ تکتے ہی گزر جاتا ہے ۔جس کی وجہ سے دوکاندار دوکانیں بند کرنے میں مجبور ہیں ۔
بازارکے مسائل:
شاہی بازار کے بڑھتے ہوئے مسائل جو کہ حکومت کی عدم توجہ کے باعث ہیں۔ بازار کی کمیٹی کے چیرمین (مصطو فٰی عباسی )کا کہنا ہے کہ بنیے (ہندو)کے دور میں یہاں دوکانیں بڑی اور ۲سے۳ فٹ اونچی ہواکرتی تھی ۔آج کے تاجر نے ایک دوسرے کی حرص میں اپنی دوکانوں کی جگہ آگے بڑھاکر نہ صرف دوکانوں کو چھو ٹا کر دیاہے بلکہ بازار کی سڑک کو بھی تنگ کر دیا ہے اور رہی کثر بازار میں گدھا گاڑی اور کھڑی گاڑیوں نے پوری کردی ہے اس کے علاوہ بازار میں نکلتی گلیاں ہیں جن میں کئی مکانات ہیں ۔ ان مکانات میں لا کھوں لو گ رہتے ہیں جن کی گزر گاہ یہ ہی بازار ہے ۔جس کی وجہ سے رش بڑھتا ہے ۔
بازار کا دوسرا بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی گندگی ہے اسی کے باعث لوگ آنے سے کتراتیں ہیں۔ کمیٹی کے چیرمین (مصطفٰی عباسی ) کا کہنا ہے کہ ہم ضلعی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بازار کی صفائی ستھر ائی کے نظام کو بہتر بنایاجائے۔ تاکہ شاہی بازار کی کھوئی ہوئی رونق لوٹ آئے ۔
ارحم خان
roll:No 18/mc/2k17
--------------------------------------------------------------
سندھی ثقافت کا معمار شاہی بازار
تحریر کے ساتھ قلمکار کا نام لکھنا ضروری ہے۔ انٹرو بہت کمزور ہے۔ یہ تحریر رپورٹنگ بیسڈ نہیں۔
نہ ہی منظر کشی ہے۔ نہ کوئی دلچسپ یا تاریخی واقعہ قصہ بیان کیا گیا ہے نہ نئی معلومات ہے۔
آج کل کس حال میں ہے۔ کچھ دکانداروں سے بات کرو، کچھ پرانے لوگوں سے۔
اس کو دلچسپ بناؤ،
فیچر کی صورت میں تصویر ضروری ہے۔ تین فروری تک درست کر کے دوبارہ بھیجو
شا ہی بازار حیدرآباد شہر کا ایک قدیم بازار ہے ۔ جس طرح ہر علاقے کی اپنی تہذیب ،ثقافت ،رہن ،سہن اور طر ز تعمیر ہوتی ہے ۔اسی طرح اہلِ دانش کہتے ہیں شہر کی بھی اپنی الگ پہچان ہوتی ہے اسی طرح ہی شہر وجود میں آتے ہیں ۔شاہی بازار جوکہ سندھی ثقافت کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے یہ حیدرآباد پکہ قلعہ کے سامنے سے شروع ہوکر ٹاور مارکیٹ (ناول رائے کلاک ٹاور )پر اختتام ہوتا ہے جو کہ تقریباً ۲ کلو میٹر کا فاصلہ ہے ۔ اس کے دونوں اطراف میں پورا حیدرآباد واقع ہے یہ حیدرآباد پکہ قلعہ کے سامنے سے بلکل سیدھی سڑک ہے جس کو کلھوڑوں اور تالپوروں نے آباد کیا تھا ۔مگر تقریبا ڈھائی سو برس گزر جانے کے بعد بھی یہ بازار اب بھی قائم ہے اور سندھی ثقافت کو جوں کا توں سنمبھالے ہوئے ہے اس بازارمیں آپ کو سندھی نقش و نگاری ،ہنر مندی اور کاریگری سے بنے زیورات ،اجرک ،ٹوپی ،اور دوسری چیزیں بھی ملینگی جو کہ سندھی میراث ہیں۔
حیدرآباد شہر کے سروے کے دوران حیدرچوک سے اوپر جاتی سڑک جہاں پر مختلف سٹال لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی دہن میں موبائل میں گم اسی سڑک پر چلے جارہاتھا کہ یک دم میری ٹکر کسی لڑکی سے ہوئی میری نظریں اُوپر کی جانب اُٹھی ہی تھی اتنے میں پیچھے سے آواز آئی میاں دیکھ کر چالو رانی باغ میں گھوم رہے ہوکیا ۔اوپر دیکھا تو پاتا چالا کہ یہ واقعی ہی حیدرآباد کی سب سے مصروف جگہ ریشم بازار ہے جو کہ صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے ۔ اس بازار میں خواتین کے لیے کپڑے ،زیورات، چوڑیاں ،کنگن ،چپل اور سندھی کوٹی ،جوکہ بڑی ہنر مندی سے بونی جاتی ہے ۔ریشم بازار کی پتلی پتلی تنگ گلیاں جو کہ شاہی بازار میں جا نکلتی ہیں ۔ شاہی بازار تاریخ کے لحٰا ظ سے حیدرآباد شہر سے بھی زیادہ قدیم ہے شاہی لفظ شاہ سے ماخوز ہے جس کے معنیٰ بادشاہ کے ہیں ۱۷۴۸ میں میاں غلام شاہ کلھوڑوں نے حیدرآباد کو آباد کیا جو کے خود اپنے قرابت اور فوجی جرنیلوں کے ساتھ حیدرآباد پکہ قلعہ میں رہا کرتے تھے ۔ جب تالپوروں نے ۱۷۸۳ میں (ہالانی ) کی جنگ میں کلھوڑوں کو شکست دے کر قلعہ فتح کیا۔تو (میر فتح علی خا ن ) تالپور نے قلعہ کے دروازے کے بلکل سامنے شاہی راستوں پر تالپور بازار بنوایا جوکے اب شاہی بازار کے نام سے جانا جاتا ہے ۔اس بازار کی سڑک کے دونو ں اطراف میں دوکانیں ہیں جو کے تقریبا ۶ ہزار سے زاید ہیں ۔اگر باالخصوص اس بازار کی سڑک کی بات کی جائے جو کے لچکاتی بل کھاتی نظر آتی ہے ۔ اگر آپ اس سڑک پر گاڑی میں سفر کریں تو یہ سفر کسی جھولے سے کم محسوس نہ ہوگا ۔ اس بازار کے حسن کی وجہ بازار میں نکلنے والی گلیاں ہیں ۔ جو کہ کسی بھول بھلیاں کی مانند ایک نئے بازار میں جا ملتی ہیں ۔ اس بازار میں مزید مخصوص بازار ہیں جن میں صرافہ بازار ، ریشم بازار، چھوڑ کی گٹی یاچھوٹکی گٹی، بتشا گلی،مکتی گلی ،اور ایڈوانی گلی ہیں۔اس بازار میں ہر رنگ و نسل کے لوگ آتے ہیں اندرونے سندھ سے بھی لوگ یہاں آیا کرتے تھے جو کے مختلف اشیاء یہاں پر فروخت بھی کیا کرتے تھے اور خرید کر بھی لے جا یاکرتے تھے ۔ قریبی دوکانداروں کا کہنا ہے کہ شہر میں دوسرے بازار کھول جانے کے باوجود بھی اس بازار کے رجحان میں کمی نہیں آئی ہے ۔ چونکہ اس بازار میں مختلف اشیاء فروخت کی جاتی ہیں ۔جس کے باعث لوگوں کا رش بڑرہاہے جس کی وجہ سے مسائل بھی پیدا ہوئے ہیں بازار کی کمیٹی کے چیرمین ( مصطوفیٰ عباسی) کا کہنا ہے کہ بنیے (ہندو) کے دور میں یہاں دوکانیں بڑی اور ۲سے ۳ فٹ اونچی ہوا کرتی تھی ۔ آج کے تاجر وں نے ایک دوسرے کی حیرص میں اپنی دوکانوں کا سامان آگے بڑھا کر نہ صرف دوکانوں کو سڑک سے میلا دیا ہے بلکہ اس بازار کی جگہ کو بھی چھوٹا کردیا ہے اور رہی کثر بازار میں کھڑی گاڑیوں نے پوری کردی ہے ۔ بازار میں بڑھتے ہوئے مسائل میں سب سے بڑی وجہ گندگی ہے ۔جس کے باعث لوگ آنے سے کتراتیں ہیں دوکاندار وں کا کہنا ہے کے ہم ضلعی حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ اس بازار کی جگہ اور صفائی کا نظام بہتر بنایا جائے تاکہ اس کی رونق مزید دوبلا ہوجائے۔
ً ًًٍ
Comments
Post a Comment