Fazal Hussain - BS iii -34 Article-revised
revised
فضل حسین
2k17/MC/34
کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کی بہتات
حادثوں کی بڑھنے کا سبب
ہمارے معاشرے میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر چند خامیاں بھی ہیں ۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم عوام یا سرکاری ادارے کسی برائی کو اسکی ابتدائی سطح پر روکنے کی کوشش نہیں کر تے بلکہ اسے نظر انداز کر کے مجرمانہ غفلت کے مر تکب ہو تے ہیں۔ اسکی بہت سی مثالیں ہیں۔مگر جب برائی بڑ ھ جاتی ہے تو اُس کے سدِ باپ کے لئے سر توڑ کوشش کر تے ہیں مگر وہ قابو میں نہیں آتے ایسی ہی مثال شہر ٹنڈوالہیار میں کم عمر رکشہ(چنگ چی) ڈرائیورز کی ہے۔دس سے پندرہ سالوں میں انکی تعداد صرف ٹنڈوالہیار میں ہی نہیں سندھ کے بیشتر شہروں حتیٰ کے دیہاتوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔
ایک گزشتہ رپورٹ کے مطابق صرف ٹنڈوالہیار شہر میں کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کی تعداد تقریبا ۱۲۰۰ سے ۱۵۰۰ سے قریب ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں معاشی پہلو پر نظر ڈالنی ہو گی۔ مہنگائی اورغربت نے کمر توڑ رکھی ہے۔ کم آ مدنی والے گھرانے بمشکل ہی گزارا کر پاتے ہیں۔ ایک کمائی والے غریب افراد کے کم سن کم عمر لڑکے جو کہ آسانی سے موٹر سائیکل چلانا سیکھ جاتے ہیں وہ اس رکشہ کو اپنا روزگار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور گھر کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈرائیونگ مصرو ف شاہراہ پر ہوتی ہے جسکے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں۔ حکومت اٹھارہ سال کے بعد ڈرائیونگ لائنسنس مہیا کر تی ہے مگر اس کے لیے با قاعدہ ٹیسٹ دینا پڑتا ہے اور اسکے قاعدے اصول سیکھنے پڑتے ہیں ۔تب کہیں جا کر لا ئنسنس ملتا ہے۔
مہنگائی اورغربت ہی دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کم عمر بچے رکشہ چلانے یا پھر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔مالی مسائل کی وجہ سے یہ بچے نہ تو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر کے حالات انھیں اس چیز کی اجازت دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ٹنڈوالہیارکے سینئر ٹریفک پولیس کے افسر محمد آصف کا کہنا تھا کہ وہ ان کم عمر ڈرائیورز سے جان بوجھ کر نر می برتتے ہیں ۔کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ کسی نہ کسی معاشی مجبوری کے باعث یہ کام کر رہے ہیں ورنہ یہ تو ان کے پڑھنے کے دن ہیں۔ان کی مجبوریوں کو مدِ نظر رکھ کر پو یس ان کو ڈھیل دے دیتی ہے مگر بڑے شہروں میں ان سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل در آمد ہوتا ہے۔
جب کہ ڈپٹی کمشنر ٹنڈوالہیار کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ اس وقت ٹنڈوالہیار میں ۱۵۰۰ سے زائد کم عمر رکشہ ڈرائیور رکشہ چلا رہے ہیں۔جب کہ سندھ بھر میں ان کی تعداد تقریبا دو سے ڈھائی ملین کے قریب ہے،اوران کا کہنا تھا کہ ہمیں ان بچوں کے لییاصتلاحی پروگرام منقد کرنے چاہیے تاکہ ان بچوں میں شعور پیدا کیا جا سکے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ہم مجموعی طور پر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس میں رشوت کا کلچربھی آجاتا ہے جب یہ کم عمر رکشہ ڈرائیورز بغیر ٹر یننگ اور لا ئنسنس روڈ پر آتے ہیں تو ٹریفک اہلکار انہیں روکتے ہیں نہ اور نہ ہی مطلوبہ دستاویزات طلب کر تے ہیں کیونکہ انہیں روازانہ انکی رشوت آسانی سے مل جاتی ہے اور یوں یہ کم عمر ڈرائیورز بغیر کسی خوف یا پکڑ کے شاہراوں پر دندناتے پھر تے نظر آتے ہیں اور قوانین اور اصول سے نا واقفیت مختلف حادثات کا سبب بنتی ہے۔اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور اس کے لئے لوکل اور صوبائی سطح پر قا نون سازی کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جا ئیں تا کہ روزگار کا حصول عام آدمی کے لیے آسان ہو جائے۔
کم عمر رکشہ ڈرائیور عادل علی جو کہ صرف تیرہ سال کی عمر میں رکشہ چلا رہا ہے اس کے مطابق یہ سب ہم اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لئے کر تے ہیں۔ سندھ کے علاوہ رکشہ ڈرائیورز کے مسائل تقریبا ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بھی ہیں۔ حکومت ذیادہ سے ذیادہ چھوٹی بڑی صنعتیں لگائیں تا کہ لوگوں کو روزگار میسر آئیں۔جب بیروزگاری اور غربت ختم ہو گی تو اس مسئلے پر بآسانی قابو پایاجا سکتا ہے.
۔
No paragraphingحادثوں کی بڑھنے کا سبب
ہمارے معاشرے میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر چند خامیاں بھی ہیں ۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم عوام یا سرکاری ادارے کسی برائی کو اسکی ابتدائی سطح پر روکنے کی کوشش نہیں کر تے بلکہ اسے نظر انداز کر کے مجرمانہ غفلت کے مر تکب ہو تے ہیں۔ اسکی بہت سی مثالیں ہیں۔مگر جب برائی بڑ ھ جاتی ہے تو اُس کے سدِ باپ کے لئے سر توڑ کوشش کر تے ہیں مگر وہ قابو میں نہیں آتے ایسی ہی مثال شہر ٹنڈوالہیار میں کم عمر رکشہ(چنگ چی) ڈرائیورز کی ہے۔دس سے پندرہ سالوں میں انکی تعداد صرف ٹنڈوالہیار میں ہی نہیں سندھ کے بیشتر شہروں حتیٰ کے دیہاتوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔
ایک گزشتہ رپورٹ کے مطابق صرف ٹنڈوالہیار شہر میں کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کی تعداد تقریبا ۱۲۰۰ سے ۱۵۰۰ سے قریب ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں معاشی پہلو پر نظر ڈالنی ہو گی۔ مہنگائی اورغربت نے کمر توڑ رکھی ہے۔ کم آ مدنی والے گھرانے بمشکل ہی گزارا کر پاتے ہیں۔ ایک کمائی والے غریب افراد کے کم سن کم عمر لڑکے جو کہ آسانی سے موٹر سائیکل چلانا سیکھ جاتے ہیں وہ اس رکشہ کو اپنا روزگار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور گھر کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈرائیونگ مصرو ف شاہراہ پر ہوتی ہے جسکے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں۔ حکومت اٹھارہ سال کے بعد ڈرائیونگ لائنسنس مہیا کر تی ہے مگر اس کے لیے با قاعدہ ٹیسٹ دینا پڑتا ہے اور اسکے قاعدے اصول سیکھنے پڑتے ہیں ۔تب کہیں جا کر لا ئنسنس ملتا ہے۔
مہنگائی اورغربت ہی دو ایسی بڑی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کم عمر بچے رکشہ چلانے یا پھر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔مالی مسائل کی وجہ سے یہ بچے نہ تو تعلیم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر کے حالات انھیں اس چیز کی اجازت دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ٹنڈوالہیارکے سینئر ٹریفک پولیس کے افسر محمد آصف کا کہنا تھا کہ وہ ان کم عمر ڈرائیورز سے جان بوجھ کر نر می برتتے ہیں ۔کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ کسی نہ کسی معاشی مجبوری کے باعث یہ کام کر رہے ہیں ورنہ یہ تو ان کے پڑھنے کے دن ہیں۔ان کی مجبوریوں کو مدِ نظر رکھ کر پو یس ان کو ڈھیل دے دیتی ہے مگر بڑے شہروں میں ان سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل در آمد ہوتا ہے۔
جب کہ ڈپٹی کمشنر ٹنڈوالہیار کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ اس وقت ٹنڈوالہیار میں ۱۵۰۰ سے زائد کم عمر رکشہ ڈرائیور رکشہ چلا رہے ہیں۔جب کہ سندھ بھر میں ان کی تعداد تقریبا دو سے ڈھائی ملین کے قریب ہے،اوران کا کہنا تھا کہ ہمیں ان بچوں کے لییاصتلاحی پروگرام منقد کرنے چاہیے تاکہ ان بچوں میں شعور پیدا کیا جا سکے۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ہم مجموعی طور پر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس میں رشوت کا کلچربھی آجاتا ہے جب یہ کم عمر رکشہ ڈرائیورز بغیر ٹر یننگ اور لا ئنسنس روڈ پر آتے ہیں تو ٹریفک اہلکار انہیں روکتے ہیں نہ اور نہ ہی مطلوبہ دستاویزات طلب کر تے ہیں کیونکہ انہیں روازانہ انکی رشوت آسانی سے مل جاتی ہے اور یوں یہ کم عمر ڈرائیورز بغیر کسی خوف یا پکڑ کے شاہراوں پر دندناتے پھر تے نظر آتے ہیں اور قوانین اور اصول سے نا واقفیت مختلف حادثات کا سبب بنتی ہے۔اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور اس کے لئے لوکل اور صوبائی سطح پر قا نون سازی کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جا ئیں تا کہ روزگار کا حصول عام آدمی کے لیے آسان ہو جائے۔
کم عمر رکشہ ڈرائیور عادل علی جو کہ صرف تیرہ سال کی عمر میں رکشہ چلا رہا ہے اس کے مطابق یہ سب ہم اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لئے کر تے ہیں۔ سندھ کے علاوہ رکشہ ڈرائیورز کے مسائل تقریبا ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بھی ہیں۔ حکومت ذیادہ سے ذیادہ چھوٹی بڑی صنعتیں لگائیں تا کہ لوگوں کو روزگار میسر آئیں۔جب بیروزگاری اور غربت ختم ہو گی تو اس مسئلے پر بآسانی قابو پایاجا سکتا ہے.
۔
No mention of some authentic report.
Why underage youth is involved in this job?
Some expert opinion, some official report or research report?
All seems hearsay. Concretise it with some facts and reports.
کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کی بہتات
حادثوں کی بڑھنے کا سبب
فضل حسین
ہمارے معاشرے میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر چند خامیاں بھی ہیں ۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم عوام یا سرکاری ادارے کسی برائی کو اسکی ابتدائی سطح پر روکنے کی کوشش نہیں کر تے بلکہ اسے نظر انداز کر کے مجرمانہ غفلت کے مر تکب ہو تے ہیں۔ اسکی بہت سی مثالیں ہیں۔مگر جب برائی بڑ ھ جاتی ہے تو اُس کے سدِ باپ کے لئے سر توڑ کوشش کر تے ہیں مگر وہ قابو میں نہیں آتے ایسی ہی مثال شہر ٹنڈوالہیار میں کم عمر رکشہ(چنگ چی) ڈرائیورز کی ہے۔دس سے پندرہ سالوں میں انکی تعداد صرف ٹنڈوالہیار میں ہی نہیں سندھ کے بیشتر شہروں حتیٰ کے دیہاتوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کی تعداد تقریبا ۱۲۰۰ سے ۱۵۰۰ سے قریب ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں معاشی پہلو پر نظر ڈالنی ہو گی۔ مہنگائی اورغربت نے کمر توڑ رکھی ہے۔ کم آ مدنی والے گھرانے بمشکل ہی گزارا کر پاتے ہیں۔ ایک کمائی والے غریب افراد کے کم سن کم عمر لڑکے جو کہ آسانی سے موٹر سائیکل چلانا سیکھ جاتے ہیں وہ اس رکشہ کو اپنا روزگار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور گھر کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈرائیونگ مصرو ف شاہراہ پر ہوتی ہے جسکے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں۔ حکومت اٹھارہ سال کے بعد ڈرائیونگ لائنسنس مہیا کر تی ہے مگر اس کے لیے با قاعدہ ٹیسٹ دینا پڑتا ہے اور اسکے قاعدے اصول سیکھنے پڑتے ہیں ۔تب کہیں جا کر لا ئنسنس ملتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ہم مجموعی طور پر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس میں رشوت کا کلچربھی آجاتا ہے جب یہ کم عمر رکشہ ڈرائیورز بغیر ٹر یننگ اور لا ئنسنس روڈ پر آتے ہیں تو ٹریفک اہلکار انہیں روکتے ہیں نہ اور نہ ہی مطلوبہ دستاویزات طلب کر تے ہیں کیونکہ انہیں روازانہ انکی رشوت آسانی سے مل جاتی ہے اور یوں یہ کم عمر ڈرائیورز بغیر کسی خوف یا پکڑ کے شاہراوں پر دندناتے پھر تے نظر آتے ہیں اور قوانین اور اصول سے نا واقفیت مختلف حادثات کا سبب بنتی ہے۔اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور اس کے لئے لوکل اور صوبائی سطح پر قا نون سازی کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جا ئیں تا کہ روزگار کا حصول عام آدمی کے لیے آسان ہو جائے۔ اس سلسلے میں پولیس کا موقف ہے کہ وہ ان کم عمر ڈرائیورز سے جان بوجھ کر نر می برتتے ہیں ۔کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ کسی نہ کسی معاشی مجبوری کے باعث یہ کام کر رہے ہیں ورنہ یہ تو ان کے پڑھنے کے دن ہیں۔ان کی مجبوریوں کو مدِ نظر رکھ کر پو یس ان کو ڈھیل دے دیتی ہے مگر بڑے شہروں میں ان سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل در آمد ہوتا ہے۔ کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کے مطابق یہ سب ہم اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لئے کر تے ہیں۔ سندھ کے علاوہ رکشہ ڈرائیورز کے مسائل تقریبا ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بھی ہیں۔ حکومت ذیادہ سے ذیادہ چھوٹی بڑی صنعتیں لگائیں تا کہ لوگوں کو روزگار میسر آئیں۔جب بیروزگاری اور غربت ختم ہو گی تو اس مسئلے پر بآسانی قابو پایاجا سکتا ہے.
فضل حسین
2k17/MC/34
حادثوں کی بڑھنے کا سبب
فضل حسین
ہمارے معاشرے میں بہت سی خوبیاں ہیں مگر چند خامیاں بھی ہیں ۔ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم عوام یا سرکاری ادارے کسی برائی کو اسکی ابتدائی سطح پر روکنے کی کوشش نہیں کر تے بلکہ اسے نظر انداز کر کے مجرمانہ غفلت کے مر تکب ہو تے ہیں۔ اسکی بہت سی مثالیں ہیں۔مگر جب برائی بڑ ھ جاتی ہے تو اُس کے سدِ باپ کے لئے سر توڑ کوشش کر تے ہیں مگر وہ قابو میں نہیں آتے ایسی ہی مثال شہر ٹنڈوالہیار میں کم عمر رکشہ(چنگ چی) ڈرائیورز کی ہے۔دس سے پندرہ سالوں میں انکی تعداد صرف ٹنڈوالہیار میں ہی نہیں سندھ کے بیشتر شہروں حتیٰ کے دیہاتوں میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق شہر میں کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کی تعداد تقریبا ۱۲۰۰ سے ۱۵۰۰ سے قریب ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہمیں معاشی پہلو پر نظر ڈالنی ہو گی۔ مہنگائی اورغربت نے کمر توڑ رکھی ہے۔ کم آ مدنی والے گھرانے بمشکل ہی گزارا کر پاتے ہیں۔ ایک کمائی والے غریب افراد کے کم سن کم عمر لڑکے جو کہ آسانی سے موٹر سائیکل چلانا سیکھ جاتے ہیں وہ اس رکشہ کو اپنا روزگار کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور گھر کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈرائیونگ مصرو ف شاہراہ پر ہوتی ہے جسکے کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں۔ حکومت اٹھارہ سال کے بعد ڈرائیونگ لائنسنس مہیا کر تی ہے مگر اس کے لیے با قاعدہ ٹیسٹ دینا پڑتا ہے اور اسکے قاعدے اصول سیکھنے پڑتے ہیں ۔تب کہیں جا کر لا ئنسنس ملتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ہم مجموعی طور پر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس میں رشوت کا کلچربھی آجاتا ہے جب یہ کم عمر رکشہ ڈرائیورز بغیر ٹر یننگ اور لا ئنسنس روڈ پر آتے ہیں تو ٹریفک اہلکار انہیں روکتے ہیں نہ اور نہ ہی مطلوبہ دستاویزات طلب کر تے ہیں کیونکہ انہیں روازانہ انکی رشوت آسانی سے مل جاتی ہے اور یوں یہ کم عمر ڈرائیورز بغیر کسی خوف یا پکڑ کے شاہراوں پر دندناتے پھر تے نظر آتے ہیں اور قوانین اور اصول سے نا واقفیت مختلف حادثات کا سبب بنتی ہے۔اس ضمن میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور اس کے لئے لوکل اور صوبائی سطح پر قا نون سازی کی ضرورت ہے مگر اس کے ساتھ روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کئے جا ئیں تا کہ روزگار کا حصول عام آدمی کے لیے آسان ہو جائے۔ اس سلسلے میں پولیس کا موقف ہے کہ وہ ان کم عمر ڈرائیورز سے جان بوجھ کر نر می برتتے ہیں ۔کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ کسی نہ کسی معاشی مجبوری کے باعث یہ کام کر رہے ہیں ورنہ یہ تو ان کے پڑھنے کے دن ہیں۔ان کی مجبوریوں کو مدِ نظر رکھ کر پو یس ان کو ڈھیل دے دیتی ہے مگر بڑے شہروں میں ان سے متعلق قوانین پر سختی سے عمل در آمد ہوتا ہے۔ کم عمر رکشہ ڈرائیور ز کے مطابق یہ سب ہم اپنے گھر کا چولھا جلانے کے لئے کر تے ہیں۔ سندھ کے علاوہ رکشہ ڈرائیورز کے مسائل تقریبا ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں بھی ہیں۔ حکومت ذیادہ سے ذیادہ چھوٹی بڑی صنعتیں لگائیں تا کہ لوگوں کو روزگار میسر آئیں۔جب بیروزگاری اور غربت ختم ہو گی تو اس مسئلے پر بآسانی قابو پایاجا سکتا ہے.
فضل حسین
2k17/MC/34
Comments
Post a Comment