Arham Khan Interview Revised پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ
Revised for Magazine
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Word space. Inrtoduction is too long, and not much interesting. Question No be made part of introduction
پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ ارحم خان
7 roll no 2k1
زمین کا ۷۰ فیصد حصہ پانی ہے ۔ اس لحٰاظ سے پانی ہر زمینی اور آبی جاندار کے لیے ضروری ہے اور ان جانداروں کے بارے میں معلومات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کون سے جاندار ہمارے لیے فائدہ مند اور کون سے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر علی بلوچ اپنی تحقیق سے گھونگا(Snails) سپیشی اور دوسری آبی حیات کے بارے میں پڑھنے اور بخوبی واقفیت رکھنے والے جامعہ سندھ کے پہلے پروفیسر ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ میرے انٹرویو کی شخصیت ہیں۔
س)آپ نے شعبہ فریش وا ٹر اینڈ بایولوجی کا انتخاب کیوں کیا؟
ج)جی بچپن سے مجھے مچھلی اور ان کی نسل افزائش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا ۔ اسی شوق کی جستجومیں آبی ماحولیات کے بارے میں سوچنے پر مجبورہوا۔ کس طرح پانی کا ایک چھوٹا جاندار زمینی متعدد بڑے جاندار وں کی زندگی کو وجود میں لانے کاسبب بن سکتاہے۔ خصوصی طورپر شوق کے حصول کے لیے ابتدائی تعلیم اور سکینڈری ایجوکیشن کی ڈگری گورنمنٹ شاھ عبدالطیف کالج میر پو ر خاص سے ۱۹۸۰میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۸۱ میں بی،ایس،سی انرز کے لئے جامعہ سندھ میں داخلہ لیا۔چونکہ یہ شعبہ نیا بھی تھا اسی لئے ہم نے اس کا انتخاب کیا ۔ ۱۹۸۳ میں بی،ایس،سی انرز کے بعد ۱۹۸۷ میں ایم ،ایس ،سی انرز ایسی شعبہ میں سندھ یونیورسٹی سے مکمل کیا ۔او ر ہم اپنی خو ش نصیبی سمجھتے ہیں ۔ایم ،ایس،سی کی ڈگری لینے کے بعدا سی سال لیکچرار کی پوسٹ سے جامعہ سندھ میں فریش واٹر اینڈبایولوجی میں اسیسٹینٹ پروفیسر تعینات ہوگئے۔ پھر ۲۰۰۴میں پر وفیسر کا عہدہ سنمبھالااور اب تک پروفیسر کے طور پرطالب علموں کو شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں آبی حیات کے بارے میں معلومات فراہم کررہے ہیں
ٓس) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں آبی ماحولیات کے بارے میں طالب علموں کو کیا پڑھایا جاتا ہے ؟
ج) آبی ماحولیات میں ہم طلب علموں کو پانی کی فیزیکل، کیمیکل خاصیت بتاتے ہیں۔ اس میں الیکٹرک کنڈکٹری کتنی ہوتی ہے پانی کی PH کا پانی میں رہنے والے جاندار وں پر کتنا اثر ہوتا ہے اسکے علاوہ ہم طلب علموں کو ن کون سی سپیشی پانی میں پائی جاتی ہیں اسکی معلومات دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس پانی میں چھوٹے چھوٹے جاندار موجود ہوتے ہیں جن میں ایک سپیشی پلنکٹن ( plankton) ہے عمومن یہ جاندار دوسری مچھلیوں کا کھانابنتے ہیں۔لیکن یہ پلنکٹن(plankton) سپیشی پانی میں انڈیکیٹر(indicator) کا کام بھی کرتے ہیں جو کے میٹھے یاسمندری پانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
س)آبی حیات کی بات کریں تو دریاسندھ میں کتنی نایاب سپیشیز موجود ہیں؟
ج)جی ہاں مچھلی کی اقسام میں دریا سندھ میں سب سے نایاب مچھلی پلا ہے ۔ یہ مچھلی سمندر کی ہے لیکن جب دریا کا پانی سمندر سے ملتا ہے تو یہ سمندر سے چڑھ کر دریا میں آجاتی ہے ۔لیکن دریا سندھ میں پانی کی کمی کے باعث یہ مچھلی ناپیدہوگئی ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا جامشورو پُل پر پلا مچھلی فروخت کی جاتی تھی ۔ جو کے تقریباً ۴ کلو گرام آرام سے مل جاتی تھی۔ آج کل ایک کلو بھی ناممکن ہے ۔ عمومن مچھلیوں کو مارنے کے لیے جو ادوایات استعمال کی جاتی ہیں ۔ان سے بھی دوسری سپیشیز اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسری اقسام جو کے دریا سندھ میں میٹھے پانی کا نایاب (prawn)جھینگاہے ۔ اس سپیشی کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے ایک بہتر امر کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
س) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں کس طرز کے تدریسی نظام میں کام کیا جاتاہے؟
ج)ہم شعبہ میں فشریز سائنس ، فشریز ٹیکنالوجیِِ اور لیمنالوجی(limnology) اس کے علاوہ دوسرے مضامین بھی طالب علموں کے لیے تدریسی عمل میں جاری رکھتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ہی جیسا شعبہ کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے فریش یعنی میٹھا پانی اسی لحاظ پانی کی اہمیت کے ساتھ ہمارے ڈاپارٹمنٹ کی بھی اہمیت ہے دریامیں پانی کی کمی ہونے کے باعث ہم میٹھے پانی کی مچھلیوں کی مختلف اقسام کو اپنے تلاب بناکر سمندری پانی (marine water) میں بھی کاشت کر سکتے ہیں کچھ سپیشیز اسی ہوتی ہیں جو سمندری پانی میں بھی رہے سکتی ہیں اسی لیے مچھلی کی نسل افرائش کے بارے میں ہم اپنے طالب علموں کو تدریسی عمل کے ذرئے وافقیت دیتے ہیں۔
س)اگر ہم شعبہ فشریز کاپہلے کے دور اور آج کے دور سے موازنہ کریں تو اس کی اہمیت میں کتنا اثرہواہے؟
ج) جی ہاں اگر موازنہ کریں توماضی میں یہ شعبہ اتنی اہمیت کا حامل نہیں سمجھاجاتاتھا۔ لیکن اگرآج آپ ملکی اور غیر ملکی سطح پر کسی کو بتائینگے تو وہاں پر آپ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائینگے اگر اسکے علاوہ انسٹیٹوٹ آف انفارمیشن ٹیکنولوجی کی بات کریں تو یہ ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے آج کل میڈیکل یونیورسٹی میں بھی آئی ٹی ((ITپڑھائی جاتی ہے ۔جب کے فریش واٹر اینڈ بایولوجی کا انسٹیٹوٹ کہی اور نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی کی اہمیت آج کے دور میں زیادہ ہے۔
س)آبی حیات سے متعلق آپ کی تحقیق جس سے آپ نے حکومت سندھ کو آگاہی دی ہو ؟
ج)جی ہم نے میں ایک سپیشی گھونگا( (Snailپرتحقیق کی تھی۔ جو کہ پاکستان کا نہ ہونے کے باوجود اسکی تعداد میں اضافہ دن بادن ہوتاجارہاہے ۔ کیونکہ جو لوگ مچھلی اقورئیم کا شوق رکھتے ہیں وہ مچھلی کے ساتھ گھونگا snail)) بھی رکھناپسندکرتے ہیں جس کو snail) (appleبھی کہاجاتاہے ہالی جھیل کے قریب کسی نے سنیل کو فارم لاگیا تھا جو کہ بیرونی ملک سے یہاں لاکر فرخت کئے جاتے تھے ۔لیکن تقریباً ۱۹۸۰ میں حد سے زیادہ بارشوں کے باعث گھونگا ( snail)وہاں سے نکل کر ہالی جھیل پہنچ گئے ۔اور یہ تعداد میں بہت ہوگئے ہیںsnail (invessive)سپیشی کہلاتے ہیں جو کہ ہر جگہ گھس جاتے ہیں ۔یہ اسے پیسٹ (pasts) ہیں جو فصلوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔یہ رات دن چر تے ہیں چاول کے پتوں کی جڑیں کھاجانے والے یہ پیسٹ (pasts) فصلوں کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔اسی کے باعث چاول کی فصلیں خسارے میں پڑھ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے اس پر کام کیا جائے۔لیکن سندھ حکومت اس پر سنجیدہ طور پر نظر ثانی کرتی نظرنہیںآتی۔ اب یہ گھونگا( سنیل )کیھنجر جھیل میں بھی آگئے ہیں اگر یہ اگریکلچر((agricultureمیں بھی آگئے تو بہت نقصان ہوگا پھر ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
س)آپ کی طلب علموں کے کئے کوئی نصیحت؟
ج)جی ہاں میر ا مشورہ طلب علموں کے لیے یہ ہے کہ آج کا دور مقابلے کا دور ہے طلب علموں کو مزید سنجیدہ ہوکر پڑھنا چاہیئے ۔اور اپنے مضامین کے علاوہ دوسرے مضامین اور جرنل معلومات بھی رکھنی چاہیئے ۔اگر آپ کسی طلب علم سے کسی دوسرے مضامین کے بارے میں پوچھو گے تو صرف اُسے اپنے مضامین کے بارے میں واقفیت تو ضرور ہوگی لیکن جرنل معلومات نہیں ہوگی ۔تو میرا مشورہ یہی ہے کے اپنے فیلڈ سے متعلق معلومات کے ساتھ دنیا کی معلومات بھی پڑھا کریں۔ شکریہ
Prof Dr Wazir Ali Baloch Interview by Arham Khan
7 roll no 2k1
زمین کا ۷۰ فیصد حصہ پانی ہے ۔ اس لحٰاظ سے پانی ہر زمینی اور آبی جاندار کے لیے ضروری ہے اور ان جانداروں کے بارے میں معلومات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کون سے جاندار ہمارے لیے فائدہ مند اور کون سے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر علی بلوچ اپنی تحقیق سے گھونگا(Snails) سپیشی اور دوسری آبی حیات کے بارے میں پڑھنے اور بخوبی واقفیت رکھنے والے جامعہ سندھ کے پہلے پروفیسر ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ میرے انٹرویو کی شخصیت ہیں۔
س)آپ نے شعبہ فریش وا ٹر اینڈ بایولوجی کا انتخاب کیوں کیا؟
ج)جی بچپن سے مجھے مچھلی اور ان کی نسل افزائش کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا ۔ اسی شوق کی جستجومیں آبی ماحولیات کے بارے میں سوچنے پر مجبورہوا۔ کس طرح پانی کا ایک چھوٹا جاندار زمینی متعدد بڑے جاندار وں کی زندگی کو وجود میں لانے کاسبب بن سکتاہے۔ خصوصی طورپر شوق کے حصول کے لیے ابتدائی تعلیم اور سکینڈری ایجوکیشن کی ڈگری گورنمنٹ شاھ عبدالطیف کالج میر پو ر خاص سے ۱۹۸۰میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۸۱ میں بی،ایس،سی انرز کے لئے جامعہ سندھ میں داخلہ لیا۔چونکہ یہ شعبہ نیا بھی تھا اسی لئے ہم نے اس کا انتخاب کیا ۔ ۱۹۸۳ میں بی،ایس،سی انرز کے بعد ۱۹۸۷ میں ایم ،ایس ،سی انرز ایسی شعبہ میں سندھ یونیورسٹی سے مکمل کیا ۔او ر ہم اپنی خو ش نصیبی سمجھتے ہیں ۔ایم ،ایس،سی کی ڈگری لینے کے بعدا سی سال لیکچرار کی پوسٹ سے جامعہ سندھ میں فریش واٹر اینڈبایولوجی میں اسیسٹینٹ پروفیسر تعینات ہوگئے۔ پھر ۲۰۰۴میں پر وفیسر کا عہدہ سنمبھالااور اب تک پروفیسر کے طور پرطالب علموں کو شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں آبی حیات کے بارے میں معلومات فراہم کررہے ہیں
ٓس) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں آبی ماحولیات کے بارے میں طالب علموں کو کیا پڑھایا جاتا ہے ؟
ج) آبی ماحولیات میں ہم طلب علموں کو پانی کی فیزیکل، کیمیکل خاصیت بتاتے ہیں۔ اس میں الیکٹرک کنڈکٹری کتنی ہوتی ہے پانی کی PH کا پانی میں رہنے والے جاندار وں پر کتنا اثر ہوتا ہے اسکے علاوہ ہم طلب علموں کو ن کون سی سپیشی پانی میں پائی جاتی ہیں اسکی معلومات دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس پانی میں چھوٹے چھوٹے جاندار موجود ہوتے ہیں جن میں ایک سپیشی پلنکٹن ( plankton) ہے عمومن یہ جاندار دوسری مچھلیوں کا کھانابنتے ہیں۔لیکن یہ پلنکٹن(plankton) سپیشی پانی میں انڈیکیٹر(indicator) کا کام بھی کرتے ہیں جو کے میٹھے یاسمندری پانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
س)آبی حیات کی بات کریں تو دریاسندھ میں کتنی نایاب سپیشیز موجود ہیں؟
ج)جی ہاں مچھلی کی اقسام میں دریا سندھ میں سب سے نایاب مچھلی پلا ہے ۔ یہ مچھلی سمندر کی ہے لیکن جب دریا کا پانی سمندر سے ملتا ہے تو یہ سمندر سے چڑھ کر دریا میں آجاتی ہے ۔لیکن دریا سندھ میں پانی کی کمی کے باعث یہ مچھلی ناپیدہوگئی ہے ۔آپ نے دیکھا ہوگا جامشورو پُل پر پلا مچھلی فروخت کی جاتی تھی ۔ جو کے تقریباً ۴ کلو گرام آرام سے مل جاتی تھی۔ آج کل ایک کلو بھی ناممکن ہے ۔ عمومن مچھلیوں کو مارنے کے لیے جو ادوایات استعمال کی جاتی ہیں ۔ان سے بھی دوسری سپیشیز اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسری اقسام جو کے دریا سندھ میں میٹھے پانی کا نایاب (prawn)جھینگاہے ۔ اس سپیشی کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے ایک بہتر امر کی ضرورت ہے۔کیونکہ یہ بھی ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
س) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں کس طرز کے تدریسی نظام میں کام کیا جاتاہے؟
ج)ہم شعبہ میں فشریز سائنس ، فشریز ٹیکنالوجیِِ اور لیمنالوجی(limnology) اس کے علاوہ دوسرے مضامین بھی طالب علموں کے لیے تدریسی عمل میں جاری رکھتے ہیں۔اور اس کے ساتھ ہی جیسا شعبہ کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے فریش یعنی میٹھا پانی اسی لحاظ پانی کی اہمیت کے ساتھ ہمارے ڈاپارٹمنٹ کی بھی اہمیت ہے دریامیں پانی کی کمی ہونے کے باعث ہم میٹھے پانی کی مچھلیوں کی مختلف اقسام کو اپنے تلاب بناکر سمندری پانی (marine water) میں بھی کاشت کر سکتے ہیں کچھ سپیشیز اسی ہوتی ہیں جو سمندری پانی میں بھی رہے سکتی ہیں اسی لیے مچھلی کی نسل افرائش کے بارے میں ہم اپنے طالب علموں کو تدریسی عمل کے ذرئے وافقیت دیتے ہیں۔
س)اگر ہم شعبہ فشریز کاپہلے کے دور اور آج کے دور سے موازنہ کریں تو اس کی اہمیت میں کتنا اثرہواہے؟
ج) جی ہاں اگر موازنہ کریں توماضی میں یہ شعبہ اتنی اہمیت کا حامل نہیں سمجھاجاتاتھا۔ لیکن اگرآج آپ ملکی اور غیر ملکی سطح پر کسی کو بتائینگے تو وہاں پر آپ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائینگے اگر اسکے علاوہ انسٹیٹوٹ آف انفارمیشن ٹیکنولوجی کی بات کریں تو یہ ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے آج کل میڈیکل یونیورسٹی میں بھی آئی ٹی ((ITپڑھائی جاتی ہے ۔جب کے فریش واٹر اینڈ بایولوجی کا انسٹیٹوٹ کہی اور نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی کی اہمیت آج کے دور میں زیادہ ہے۔
س)آبی حیات سے متعلق آپ کی تحقیق جس سے آپ نے حکومت سندھ کو آگاہی دی ہو ؟
ج)جی ہم نے میں ایک سپیشی گھونگا( (Snailپرتحقیق کی تھی۔ جو کہ پاکستان کا نہ ہونے کے باوجود اسکی تعداد میں اضافہ دن بادن ہوتاجارہاہے ۔ کیونکہ جو لوگ مچھلی اقورئیم کا شوق رکھتے ہیں وہ مچھلی کے ساتھ گھونگا snail)) بھی رکھناپسندکرتے ہیں جس کو snail) (appleبھی کہاجاتاہے ہالی جھیل کے قریب کسی نے سنیل کو فارم لاگیا تھا جو کہ بیرونی ملک سے یہاں لاکر فرخت کئے جاتے تھے ۔لیکن تقریباً ۱۹۸۰ میں حد سے زیادہ بارشوں کے باعث گھونگا ( snail)وہاں سے نکل کر ہالی جھیل پہنچ گئے ۔اور یہ تعداد میں بہت ہوگئے ہیںsnail (invessive)سپیشی کہلاتے ہیں جو کہ ہر جگہ گھس جاتے ہیں ۔یہ اسے پیسٹ (pasts) ہیں جو فصلوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔یہ رات دن چر تے ہیں چاول کے پتوں کی جڑیں کھاجانے والے یہ پیسٹ (pasts) فصلوں کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔اسی کے باعث چاول کی فصلیں خسارے میں پڑھ سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے اس پر کام کیا جائے۔لیکن سندھ حکومت اس پر سنجیدہ طور پر نظر ثانی کرتی نظرنہیںآتی۔ اب یہ گھونگا( سنیل )کیھنجر جھیل میں بھی آگئے ہیں اگر یہ اگریکلچر((agricultureمیں بھی آگئے تو بہت نقصان ہوگا پھر ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔
س)آپ کی طلب علموں کے کئے کوئی نصیحت؟
ج)جی ہاں میر ا مشورہ طلب علموں کے لیے یہ ہے کہ آج کا دور مقابلے کا دور ہے طلب علموں کو مزید سنجیدہ ہوکر پڑھنا چاہیئے ۔اور اپنے مضامین کے علاوہ دوسرے مضامین اور جرنل معلومات بھی رکھنی چاہیئے ۔اگر آپ کسی طلب علم سے کسی دوسرے مضامین کے بارے میں پوچھو گے تو صرف اُسے اپنے مضامین کے بارے میں واقفیت تو ضرور ہوگی لیکن جرنل معلومات نہیں ہوگی ۔تو میرا مشورہ یہی ہے کے اپنے فیلڈ سے متعلق معلومات کے ساتھ دنیا کی معلومات بھی پڑھا کریں۔ شکریہ
Prof Dr Wazir Ali Baloch Interview by Arham Khan
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Word space. Inrtoduction is too long, and not much interesting. Question No be made part of introduction
پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ
ارحم خان
roll no 18-mc-2k17
دنیا کا ۰۷ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے ۔ اس لحٰاظ سے پانی ہر جاندار کے لیے ضروری ہے اسی طرح آبی حیات کا بھی ہماری زندگی میں گہرا اثر ہوتا ہے ان کے بارے میں معلومات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کون سے جاندار ہمارے لیے فائدہ مند اور کون سے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر علی بلوچ اپنی تحقیق سے (Snails) سپیشی کے بارے میں اور اس کے نقصانات کی اگاہی دینے والے جامعہ سندھ کے پہلے پروفیسر ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ میرے انٹرویو کی شخصیت ہیں۔ آپ کے والد شہداد پور میں ڈاکٹر تھے۔ ان کا ابائی تعلق شہداد پور ہے ۔
لیکن ابتدائی تعلیم میر پور خاص سے حاصل کی ۔ اسکے بعد۱۹۸۰ میں سکینڈری ایجوکیشن گورنمنٹ شاھ عبدالطیف کالج میر پو ر خاص سے حاصل کی۔ ۱۹۸۳ میں بی،ایس،سی اونرس شعبہ فشریز سے سندھ یونیورسٹی میں کیا ۔اس کے بعد ۱۹۸۷ میں ایم ،ایس ،سی اونرس ایسی شعبہ میں سندھ یونیورسٹی سے کیا ۔اور اسی سال لیکچرار کی پوسٹ سے جامعہ سندھ فریش واٹر بایولوجی میں تعینات ہوا۔ اور ۲۰۰۴ میں پروفیسر بنا۔
س) آپ نے شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی کا انتخاب کیوں کیا ؟
ج) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی ۱۹۷۳ میں بنا تھا ۔ اور اس شعبے کا پہلا بیچ ۱۹۷۸ میں آیا تھا ۔ جب ہم آئے تو یہجامعہ سندھ میں نیا شعبہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے اس ڈاپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔۱۹۸۷ میں اسی ڈاپارٹمنٹ سے ایم ،ایس، سی کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم خوش قسمت تھے۔ کہ اسی سال لیکچرار کی پوسٹ سے ہمیں جاب مل گئی تھی۔
س) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں آبی ماحولیات کے بارے میں طلب علموں کو کیا پڑھایا جاتاہے ؟
ج) آبی ماحولیات میں ہم طلب علموں کو پانی کی فیزیکل، کیمیکل خاصیت بتاتے ہیں۔پھر اس میں الیکٹریک کنڈاکٹری کتنی ہوتی ہے۔ PH کا پانی میں رہنے والے جاندار وں پر کیا اثر ہوتا ہے
اسکے علاوہ ہم طلب علموں کو ن کون سی سپیشی پانی میں پائی جاتی ہیں اسکی معلومات دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس پانی میں چھوٹے چھوٹے جاندار موجود ہوتے ہیں جن میں ایک سپیشی پلنکٹن ( plankton) ہے یہ جاندار ( algea) کو کھاتے ہیں۔اور یہ (plankton) پانی میں (indicator) کا کام کرتے ہیں جو کے میٹھے اور کھارے پانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
س)آبی حیات کی بات کریں تو دریاسندھ میں کتنی نایاب سپیشیز موجود ہیں؟
ج)جی ہاں مچھلی کی اقسام میں دریا سندھ میں سب سے نایاب مچھلی پلا ہے ۔ یہ مچھلی سمندر کی ہے لیکن جب دریا کا پانی سمندر میں ملتا ہے تو یہ مچھلی بھی سمندر سے چڑھ کر دریا میں آجاتی ہے ۔لیکن جس طرح دریا سندھ کے پانی میں کمی ہورئی ہے اس کے ساتھ ہی اس مچھلی کی تعداد میں کمی ہورہی ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا جامشورو کے پُل کے اوپر پلا مچھلی فروخت کی جاتی تھی ۔ جو کے تقریباً ۴ کلو آرام سے مل جاتی تھی ۔آج کل ۱ کلو بھی ملنا مشکل ہے ۔ مچھرے مچھلیوں کو مارنے کے لیے جو ادوایات استعمال کرتے ہیں ۔ان سے بھی دوسری سپیشیز اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسری اقسام جو کے دریا سندھ میں نایاب میٹھے پانی کا جھینگاہے ۔ یہ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں ۔اس کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے بھی گورنمنٹ نے کام نہیں کیا ہے
س)آپ شعبہ فشریز میں کون سے مضامین پڑھاتے ہیں ؟
ج)ہم شعبہ میں فشریز سائنس ، فشریز ٹیکنالوجیِِ، لیمنالوجی(limnology) اس کے علاوہ دوسرے مضامین بھی پڑھتے رہے ہیں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔اور آپ کو پتہ ہونا چاہیے یہ ڈاپارٹمنٹ صرف فشریز نہیںیہ ڈاپارٹمنٹ فریش واٹر اینڈ بایولوجی ہے فریش واٹر یعنی میٹھا پانی تو ہمارے طلب علموں کو فریش واٹر میں جاب مل جاتی ہے پانی کی اہمیت کے ساتھ ہمارے ڈاپارٹمنٹ کی بھی اہمیت ہے
اگر پانی کم ہورہاہے تو ہم سپیشیز کو فارم (farm (کر سکتے ہیں۔کچھ سپیشیز اسی ہوتی ہیں جو کھارے پانی میں بھی رہے سکتی ہیں تو ہم اپنے (pond )تلاب بناکر ان کو کھارے پانی میں رکھ سکتے ہیں
س)اگر ہم شعبہ فشریز کاپہلے کے دور اور آج کے دور سے موازنہ کریں تو اس کی اہمیت میں کتنا اثر پڑاہے؟
ج) جی ہاں اگر موازنہ کریں تو پہلے کے دور میں لوگ ہنستے تھے کہ پتہ نہیں کونسا ڈاپارٹمنٹ ہے یہ لیکن اب آپ انٹرنشنلی کسی کو بتائینگے تو وہاں پر آپ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائینگے ۔ دنیا میں جتنا پانی ہے ۔اتنا ہی فشریز میں جاب مواقعے ہیں۔اگر اسکے علاوہ انسٹیٹوٹ آف ٹیکنولوجی کی بات کریں تو یہ ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے آج کل میڈیکل یونیورسٹی میں بھی آئی ٹی ) (ITپڑھائی جاتی ہے ۔جب کے فریش واٹر اینڈ بایولوجی کا انسٹیٹوٹ کاہی اور نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی کی اہمیت آج کے دور میں زیادہ ہے۔
س)آبی حیات کے بارے میں آپ کی تحقیق؟
ج)جی ہاں ہم نے ٹھٹھ میں گھنگا( (Snailپر کام کیا تھا ۔ جو کہ پاکستان کی سپیشی نہیں ہے ۔ جو لوگ (aquarium) لاتے ہیں وہ مچھلی کے ساتھ گہنگا snail)) بھی رکھتے ہیں جس کو snail) (appleبھی کہاجاتا ہے ہالی جھیل کے قریب کسی نے سنیل کو فارم لاگیا تھا وہ یہاں ان کی بڑھتی تعداد کو فروخت کیا کرتے تھے ۔لیکن تقریباً ۱۹۸۰ میں بارش بہت ہوئی اور پتہ چلا کے سنیل غائب ہوگئے ہیں ۔اور وہاں سے نکل کر ہالی جھیل پہنچ گئے ہیں ۔اور اب ان کی تعداد میں بہت ہوگئے ہیں یہ سنیل (invessive)سپیشی کہلاتے ہیں جو کہ ہر جگہ گھس جاتے ہیں ۔یہ اسے (paste)ہیں جو فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔یہ رات دن چر تے ہیں چاول (rise)کے پتے کی جڑیں کھاجاتے ہیں ہم نے اس کے بارے میں(dawn)اخبار میں بھی لیکھا تھا ۔ لیکن اس پر گورنمنٹ نے کام نہیں کیا ۔اس کا خدشہ اب بھی موجود ہے۔ اب یہ گہنگ(ا سنیل )کیھنجر جھیل میں بھی آگیا ہے اگر یہ اگریکلچر ((agricultureمیں بھی آگیا تو بہت نقصان کریگا پھر ہم سے پکڑانہیں جائگا۔
س)آپ کی طلب علموں کے کئے کوئی نصیحت؟
ج)جی ہاں میر ا مشورہ طلب علموں کے لیے یہ کہ آج کا دور مقابلے کا دور ہے تو طلب علموں کو مزید سنجیدہ ہوکر پڑھنا چاہیئے ۔اور اپنے مضامین کے علاوہ دوسرے مضامین اور جرنل معلومات بھی رکھنی چاہیئے ۔اگر آپ کسی طلب علم سے کسی دوسرے مضامین کے بارے میں پوچھو گے تو صرف اُسے اپنے مضامین کے مارے تھوڑابہت معلوم ہوگا لیکن جرنل معلومات نہیں ہوگی ۔تو میرا مشورہ یہی ہے کے اپنے فیلڈ سے متعلق معلومات کے ساتھ دنیا کی دوسری چیزوں کے مارے میں بھی پڑھا کریں۔
Interview of Prof Dr Wazeer Ali Shar by Arham Khan
roll no 18-mc-2k17
دنیا کا ۰۷ فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے ۔ اس لحٰاظ سے پانی ہر جاندار کے لیے ضروری ہے اسی طرح آبی حیات کا بھی ہماری زندگی میں گہرا اثر ہوتا ہے ان کے بارے میں معلومات سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ کون سے جاندار ہمارے لیے فائدہ مند اور کون سے نقصاندہ ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر علی بلوچ اپنی تحقیق سے (Snails) سپیشی کے بارے میں اور اس کے نقصانات کی اگاہی دینے والے جامعہ سندھ کے پہلے پروفیسر ہیں۔یہ ہی وجہ ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر وزیر علی بلوچ میرے انٹرویو کی شخصیت ہیں۔ آپ کے والد شہداد پور میں ڈاکٹر تھے۔ ان کا ابائی تعلق شہداد پور ہے ۔
لیکن ابتدائی تعلیم میر پور خاص سے حاصل کی ۔ اسکے بعد۱۹۸۰ میں سکینڈری ایجوکیشن گورنمنٹ شاھ عبدالطیف کالج میر پو ر خاص سے حاصل کی۔ ۱۹۸۳ میں بی،ایس،سی اونرس شعبہ فشریز سے سندھ یونیورسٹی میں کیا ۔اس کے بعد ۱۹۸۷ میں ایم ،ایس ،سی اونرس ایسی شعبہ میں سندھ یونیورسٹی سے کیا ۔اور اسی سال لیکچرار کی پوسٹ سے جامعہ سندھ فریش واٹر بایولوجی میں تعینات ہوا۔ اور ۲۰۰۴ میں پروفیسر بنا۔
س) آپ نے شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی کا انتخاب کیوں کیا ؟
ج) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی ۱۹۷۳ میں بنا تھا ۔ اور اس شعبے کا پہلا بیچ ۱۹۷۸ میں آیا تھا ۔ جب ہم آئے تو یہجامعہ سندھ میں نیا شعبہ تھا یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے اس ڈاپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔۱۹۸۷ میں اسی ڈاپارٹمنٹ سے ایم ،ایس، سی کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم خوش قسمت تھے۔ کہ اسی سال لیکچرار کی پوسٹ سے ہمیں جاب مل گئی تھی۔
س) شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی میں آبی ماحولیات کے بارے میں طلب علموں کو کیا پڑھایا جاتاہے ؟
ج) آبی ماحولیات میں ہم طلب علموں کو پانی کی فیزیکل، کیمیکل خاصیت بتاتے ہیں۔پھر اس میں الیکٹریک کنڈاکٹری کتنی ہوتی ہے۔ PH کا پانی میں رہنے والے جاندار وں پر کیا اثر ہوتا ہے
اسکے علاوہ ہم طلب علموں کو ن کون سی سپیشی پانی میں پائی جاتی ہیں اسکی معلومات دیتے ہیں ۔ ہمارے پاس پانی میں چھوٹے چھوٹے جاندار موجود ہوتے ہیں جن میں ایک سپیشی پلنکٹن ( plankton) ہے یہ جاندار ( algea) کو کھاتے ہیں۔اور یہ (plankton) پانی میں (indicator) کا کام کرتے ہیں جو کے میٹھے اور کھارے پانی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
س)آبی حیات کی بات کریں تو دریاسندھ میں کتنی نایاب سپیشیز موجود ہیں؟
ج)جی ہاں مچھلی کی اقسام میں دریا سندھ میں سب سے نایاب مچھلی پلا ہے ۔ یہ مچھلی سمندر کی ہے لیکن جب دریا کا پانی سمندر میں ملتا ہے تو یہ مچھلی بھی سمندر سے چڑھ کر دریا میں آجاتی ہے ۔لیکن جس طرح دریا سندھ کے پانی میں کمی ہورئی ہے اس کے ساتھ ہی اس مچھلی کی تعداد میں کمی ہورہی ہے۔آپ نے دیکھا ہوگا جامشورو کے پُل کے اوپر پلا مچھلی فروخت کی جاتی تھی ۔ جو کے تقریباً ۴ کلو آرام سے مل جاتی تھی ۔آج کل ۱ کلو بھی ملنا مشکل ہے ۔ مچھرے مچھلیوں کو مارنے کے لیے جو ادوایات استعمال کرتے ہیں ۔ان سے بھی دوسری سپیشیز اثر انداز ہوتی ہیں۔ دوسری اقسام جو کے دریا سندھ میں نایاب میٹھے پانی کا جھینگاہے ۔ یہ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں ۔اس کو بھی محفوظ رکھنے کے لیے بھی گورنمنٹ نے کام نہیں کیا ہے
س)آپ شعبہ فشریز میں کون سے مضامین پڑھاتے ہیں ؟
ج)ہم شعبہ میں فشریز سائنس ، فشریز ٹیکنالوجیِِ، لیمنالوجی(limnology) اس کے علاوہ دوسرے مضامین بھی پڑھتے رہے ہیں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔اور آپ کو پتہ ہونا چاہیے یہ ڈاپارٹمنٹ صرف فشریز نہیںیہ ڈاپارٹمنٹ فریش واٹر اینڈ بایولوجی ہے فریش واٹر یعنی میٹھا پانی تو ہمارے طلب علموں کو فریش واٹر میں جاب مل جاتی ہے پانی کی اہمیت کے ساتھ ہمارے ڈاپارٹمنٹ کی بھی اہمیت ہے
اگر پانی کم ہورہاہے تو ہم سپیشیز کو فارم (farm (کر سکتے ہیں۔کچھ سپیشیز اسی ہوتی ہیں جو کھارے پانی میں بھی رہے سکتی ہیں تو ہم اپنے (pond )تلاب بناکر ان کو کھارے پانی میں رکھ سکتے ہیں
س)اگر ہم شعبہ فشریز کاپہلے کے دور اور آج کے دور سے موازنہ کریں تو اس کی اہمیت میں کتنا اثر پڑاہے؟
ج) جی ہاں اگر موازنہ کریں تو پہلے کے دور میں لوگ ہنستے تھے کہ پتہ نہیں کونسا ڈاپارٹمنٹ ہے یہ لیکن اب آپ انٹرنشنلی کسی کو بتائینگے تو وہاں پر آپ عزت کی نگاہ سے دیکھے جائینگے ۔ دنیا میں جتنا پانی ہے ۔اتنا ہی فشریز میں جاب مواقعے ہیں۔اگر اسکے علاوہ انسٹیٹوٹ آف ٹیکنولوجی کی بات کریں تو یہ ہر جگہ پڑھائی جاتی ہے آج کل میڈیکل یونیورسٹی میں بھی آئی ٹی ) (ITپڑھائی جاتی ہے ۔جب کے فریش واٹر اینڈ بایولوجی کا انسٹیٹوٹ کاہی اور نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ شعبہ فریش واٹر اینڈ بایولوجی کی اہمیت آج کے دور میں زیادہ ہے۔
س)آبی حیات کے بارے میں آپ کی تحقیق؟
ج)جی ہاں ہم نے ٹھٹھ میں گھنگا( (Snailپر کام کیا تھا ۔ جو کہ پاکستان کی سپیشی نہیں ہے ۔ جو لوگ (aquarium) لاتے ہیں وہ مچھلی کے ساتھ گہنگا snail)) بھی رکھتے ہیں جس کو snail) (appleبھی کہاجاتا ہے ہالی جھیل کے قریب کسی نے سنیل کو فارم لاگیا تھا وہ یہاں ان کی بڑھتی تعداد کو فروخت کیا کرتے تھے ۔لیکن تقریباً ۱۹۸۰ میں بارش بہت ہوئی اور پتہ چلا کے سنیل غائب ہوگئے ہیں ۔اور وہاں سے نکل کر ہالی جھیل پہنچ گئے ہیں ۔اور اب ان کی تعداد میں بہت ہوگئے ہیں یہ سنیل (invessive)سپیشی کہلاتے ہیں جو کہ ہر جگہ گھس جاتے ہیں ۔یہ اسے (paste)ہیں جو فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔یہ رات دن چر تے ہیں چاول (rise)کے پتے کی جڑیں کھاجاتے ہیں ہم نے اس کے بارے میں(dawn)اخبار میں بھی لیکھا تھا ۔ لیکن اس پر گورنمنٹ نے کام نہیں کیا ۔اس کا خدشہ اب بھی موجود ہے۔ اب یہ گہنگ(ا سنیل )کیھنجر جھیل میں بھی آگیا ہے اگر یہ اگریکلچر ((agricultureمیں بھی آگیا تو بہت نقصان کریگا پھر ہم سے پکڑانہیں جائگا۔
س)آپ کی طلب علموں کے کئے کوئی نصیحت؟
ج)جی ہاں میر ا مشورہ طلب علموں کے لیے یہ کہ آج کا دور مقابلے کا دور ہے تو طلب علموں کو مزید سنجیدہ ہوکر پڑھنا چاہیئے ۔اور اپنے مضامین کے علاوہ دوسرے مضامین اور جرنل معلومات بھی رکھنی چاہیئے ۔اگر آپ کسی طلب علم سے کسی دوسرے مضامین کے بارے میں پوچھو گے تو صرف اُسے اپنے مضامین کے مارے تھوڑابہت معلوم ہوگا لیکن جرنل معلومات نہیں ہوگی ۔تو میرا مشورہ یہی ہے کے اپنے فیلڈ سے متعلق معلومات کے ساتھ دنیا کی دوسری چیزوں کے مارے میں بھی پڑھا کریں۔
Interview of Prof Dr Wazeer Ali Shar by Arham Khan
Comments
Post a Comment