Sadia Shamim کامریڈ انعم خان سے انٹر ویو
سعدیہ شمیم
کامریڈ انعم خان
ج:سویٹ یونین کے انقلاب کو لیڈ کرنے والے کا مریڈ لیلین کامریڈ روسکی اور بولڈ شیٹ پارٹی کے لیڈر تھے انھوں نے یہ انقلاب روس سے شروعات کی جیسے دنیا سویٹ یونین کے نام سے جانتی ہے،تو انکی اپنی تحریر میں ہی ہمیں بار بار یہ پڑھنے کو ملتی ہے کہ روس کا انقلاب ایک حدود میں رہ کر کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا کیوں کہ انکا مقصد صرف ایک ملک میں انقلاب قائم کرنا نہیں تھا مقصد سوشلزم کا تھاکیوں کہ سوشلزم کی بنیاد انٹرنیشنل ہے سوشلزم ایک ملک میں لاگو نہیںیہی وجہ ہے کہ کامریڈ لیلین نے کہا تھا کہ اگر ہمیں جرمنی کے انقلاب کے لیے روس کو قربان کرنا پڑا تو ہم ایک لمحے کی جھجک کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو اسکی بنیادی مقصد یہ ہی تھی کہ صرف ایک ملک کے اندر انقلاب برپا کرنانہیں تھا بلکہ سوشلزم کو ایک عالمی سطح پر نافظ کرنا کر نے کے لیے ضروری تھاکہ ایک ترقی یافتہ ملک کے ماڈرن ٹیکنولوجیکو استعمال کرتے ہوئے مزدور طبقوں تک یہ پیغام پہنچایا جا سکے کہ سوشلزم کے زریعے بہت کچھ کیا جاسکتا ہے اور یہ سب روس جیسے پسماندہ ملک میں ممکن نہیں تھا ۔پہلی عالمی جنگ میں روٹی اور امن کا نعرہ لگایا گیا اور ایسی پر روس کے اندر انقلاب برپا کیا گیا ۔اور عالمی جنگ کے بعد سویٹ یونیں کو ظاہر کر دیا گیاجسکے بعد ۵۲ ملک کی فوج نے حملہ کیا ،لیکن کامریڈ روسکی کی قیادت میں RED FORCE ARMYاور روس کے نوجوانوں نے مل کر شکست دی اس جنگ کے نتیجے سویٹ یونین کے اندر ایک قحط کی صورت حال ملتی ہے اورساتھ ہی بولڈ شیٹ قیادت بھی جنگ کی نظر ہوجاتا ہے روس کے اندر سویٹ یونین منصوبہ بند معشیت تھی جس میں چیزوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہیں اور ایسی فیکٹری سے دنیا کا پسماندہ ترین ملک چند ہی سال کے اندر دنیا کی دوسری پاور ملک بن کر سامنے ہے اور یہ ناکامی بالکل بھی نہیں یہاں سے ہی سوشل قیادت کی ڈی جنریشن کا عمل شروع ہوگیا تھا۔
ج:سرما یہ داری اور منافع کے حوس کی وجہ سے جو لوگ غریب بھوکے رہ جاتے ہیں انکا جو حق ہے وہ نہیں ملتا تو اس حق کے لیے نکلنے اوع آواز اٹھانے کے لیے مجھے مارکسزم کا زریعہ بہتر لگا۔جب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے تو سمجھ آتا ہے کہ سرمایہ داری ہی اسکی جڑہے اور اس کے حل کے لیے ماکسزم بہترین طریقہ کار ہے جس کا مقصد کسی کا بھلا کرنا اور ایک دوسرے کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔
ج:بالکل relevant ہے کیونکہ مارکسزم ایک طریقہ کار ہے ہر مسائل کو سمجھنے کے لیے مارکسی فلسفہ ایکdilectical methodمارکسز کا طریقہ کار ہے جس میں مسائل کو سمجھتے ہے ہم یہ تو آسانی سے سمجھ لیتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے لیکن کیوں ہورہا ہے اور یہ کیسے ہو رہا ہے کس طرح سے اسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے یہ مارکسزکا نظریہ ہے ۔ماکسز اساتذہ نے جو بات کہی سرمایہ داری کے حوالے سے وہ آج درست ہوتی نظر آرہی ہے۔
خواتین کے کام پر کراچی سے کامریڈ انعم پتافی رپورٹ پیش کرتے ہوئے
ج:سیاست ہمارے سماج اور معاشرے کا اہم حصہ ہے لیکن ہمارے گھروں میں ان دونوں کو دور رکھ کر رہنا سیکھایا ہے خاص خواتین کو ہی کہا جاتا ہے کہ انکا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس بات میں میں یہ کہوں گی کہ آج کے دور میں ہم چاہے بھی تو سیاست سے الگ نہیں رہ سکتے،ہمارے پاکستان میں سماجی مسائل کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت کا ہے جس میں بے روزگار،تعلیمی مسائل اور جتنے بھی مسائل ہیں جو روز بہ روز بڑھتے جارہے ہیں جس کی بڑی وجہ ہمارا حکمران طبقہ ہے جو اپنے ہی مسائل میں عوام کو اُلجھائے رکھتے ہیں وہ کبھی ذات پات کے نام پر،کبھی قومیت کے نام پر ہر ایک کو تقسیم کر رہا ہے جس کی وجہ سے سماج میں مسائل بڑھتے جارہے ہیں،
ج:اگر معاشی جبر کی بات کی جائے تو یہاں عورت کیا مرد بھی آزاد نہیں ہے۔پاکستان sexual violenceکے حوالے سے چھٹے نمبر پر آتا ہے اور ایسی طرح صحت کے حوالے سے بات کے جائے تو زچگی کے دوران جان کی بازی ہانے والی ،گینگ ریپ،ہراسا کرنے کے واقعات جو تعلیم اداروں کے اندر بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے اسکے علاوہ دوسرے کیس پاکستان کے اندر موجودہے جسں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے تو یہاں یہ بات سمجھنے کی کوشش کریں کہ یہ ہوکیوں رہا ہے،ہم مارکسیت یہ بات جاننے کی کوشش کرتے ہیں اسکی بنیادی وجہ کیا ہے کیوں عورتوں کو ہی ان سب کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اگر ایک لڑکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہے اور اگر اس کے ساتھ کچھ بُرا ہو تو یہ بات ہی کی جاتی ہے کہ اگر ایک عورت گھر سے باہرنکلے گی تومسائل پیش آئے گے،آج کے اس دور میں عورت سرمایہ داری کے لیے گھر سے نکل تورہی ہے لیکن لوگوں کی سوچ آج تک بدلی نہیں ہے ایسی نفسیات کو بدلنے کے لیے سوشلزم ایک بہترین طریقہ کار ہے کیوں کہ یہ عورت کے آزادی کی واحد ضمانت ہے۔
ج:جی بالکل یہ جو بُک لیٹ ’’خواتین کی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم ‘‘یہ میری پہلی تحریر کردہ کتاب ہے لیکن اسکے علاوہ میں نے آرٹیکل بہت سے موضوں پر لکھی ہوں ،لیکن لکھنے کا مقصد کوئی نام کمانا یا دانش ور بننا نہیں ہوتا بلکہ مقصد معاشرے کے مسائل کو سمجھانا اور اسکا حل بتانا ہوتا ہے،اس کتاب میں تفصیل سے خواتین کے حوالے سے اور سو شلزم کے حوالے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
ج:خواتین کے حقوق کے نام پر سب سے پہلے NGOکا نام آتا ہے ،اور یہ کہا جاتا ہے کہ ngoعورتوں کی حقوق کے لیے بہت سے کا م کررہی ہے جس وجہ سے ngoخواتین کے نام پر فنڈ جمع کر رہی ہے،اور پھر عورت مارچ کے حوالے سے بات کی جائے تو ان ساری باتوں کے باوجود عورتوں کے حقوق پر کوئی کام ہوتا نظر نہیں آرہی ہے۔کیوں کہ یہ کوئی حل نہیں ہے اور اسکے علاوہ کوئی بھی فیکٹر خواتین کے حوالے سے ہوتا نظرنہیں آرہا ہے۔
Comments
Post a Comment