Sanober Article اسکولوں کا تعلیمی نظام
Selected for Magazine
Revised
سندہ کے نجی سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام درہم برہم
صنوبر ملاح
ایک قوم کی ترقی کیلِئے تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے تعلیم حاصل کرنا ہر انسان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ تعلیم ایک قیمیتی زیور ہے اور جس قوم کے یہ زیور ہو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔ آج تک دنیا میں ترقی پسند ملک تعلیم کی وجہ سے ہی اپنی ملک کا نام روشن کیا ہے۔
جسے کہ آج کے دور میں تعلیم انتہائی ضروری ہے پر سندہ کے نیجی سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اسکولوں میں کوئی نافظ انتظامات اور سہولیات موجود نہیں، عمارتیں ٹوٹی فوٹی، وہی پرُانا فرنیچر اور نہ ہونی کے برابر، پینے کیلئے ناہی صاف اور ٹھنڈا پانی ہے اور ناہی صفائی کا کوئی نظام موجود ہے وہی کچری کے ڈھیر ہیں۔ اسکولوں میں کوئی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچے اسکول سے غیر حاضر ہورہے ہیں اور استاد بھی بچوں کی حاضری کی وجہ سے اسکول آنے سے قاصر ہیں۔استادوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی غیر حاضری روز کا معمول بن گیا ہے بچے غیر حاضر رہنے لگے ہیں۔ کیوکہ اسکولوں میں نہ ہی کوئی صفائی سُتھرائی کا نظام ہے اور نہ ہی سکیورٹی کا کوئی انتظام۔اسکولوں میں ایسے فیصلٹیز موجود نہیں جن کی وجہ سے بچوں کو پڑھنے میں دلچسپی اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہو۔ آج کے دور میں جہاں پرائیوٹ اسکولِ میں بہت ساری فیصلیٹیز موجود ہیں کھیلنے کے لیئے پلیگراوَنڈ ایکسٹرا مٹیریل اور بہت ساری ایکٹوٹیز،کمپیوٹر لیب، لیبیریز موجود ہیں تو بچوں کو پڑھنے میں مزہ اور جوشِ و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہاں سرکاری اسکولوں میں کوئی ایکٹوٹیز موجود نہیں اورنہ ہی ایڈمنسٹریشن کو کوئی خیال ہے اسکولوں میں نہ ہی کمپیوٹر لیب بنائے گئی اورنہ ہی کوئی ایسی کتاب پڑھائی جاتی ہے کہ جس سے جدید دور اور انوینشن کے بارے پڑھیا جائے۔آج بھی وہی ابا و دادا کے دور کتابیں بچوں کے سلیبس میں موجود ہیں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ جہاں آکسفرڈ کی کتابیں پڑھائیں جاتی ہیں وہاں پہ وہی سندہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے کورس موجود ہیں
سندہ حکومت کی طرف ہر سال بچوں کو نئی کتابیں اورینفارم تقسیم کیا جاتے ہیں پر وہ صرف کچھہ بچوں تک ہی محدود رہتا ہے اور کچھہ دونوں میں ایسا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔ سندہ حکومت کی طرف سےُ مھیا کیا جانے والا فند ۔۔۔۔۔۔اورجاگیرداراپنیمفاد کے لیئے استعمال کرتیہے۔ وڈیروں اور جہاگیرداروں نے اسکولوں کو اپنی ذاتی جاگیراورملقیت سمجھہ رکھہ ہے،اسکولوں کواپنی بیٹھکے اور باڑہ بنا رکھا ہے۔ سندہ حکومت کی اسکولوں کی طرف توجہ نہ دینا، ان کی بہتری کیلئے کوئی بھی ایکشن نہ لینا اور جب الکیشن قریب آتے ہیں تو ہر پارٹی اپنے ووٹوں کی وجہ سے اپنے حلقے کے اسکولوں کی طرف رخ کرتی ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جو کہ ان کی تقریریں اوردستاویزات تک محدود رہتی ہیں اسکولوں میں ووٹوں کی وجہ سے صفائی ستھرائی اور مہارمت پر دھیان دیا جاتا ہے،آدھی تنخواہ پر نئی استاد رکھے جاتے ہیں پر جیسے ہی الیکشن ختم ہوتے ہیں بعد میں ان کو نکال دیا جاتا ہے ان کے نام کی تنخوائیں اپنے پاس جیبومیں رکھہ دی جاتی ہیں پھر کوئی نظام آتے۔ جبکہ سرکاری ٹیچرز جو کہ بڑی پوسٹ پر گھر بیٹھہ کر تنخوائیں لیتے ہیں یا پھر پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی جگہ پرائیوٹ نے لیلی ہے اور والدین بھی اپنے بچوں کے بہتریں مستقبل کے لیئے اس مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں اورُ ان کی مہنگی فیسیس دینے پر مجبور ہیں آج کے دورمیں ایک اچھی تعلیم دینا غریب ماں باپ کے بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ یہ بچے ہی اس قوم کا مستقبل ہیں ان کی اچھی تعلیم ان کا حق ہے پر سندہ حکومت کی عدم دلچسپی آدھر دخائی دیتی ہے۔پر حالحی میں سندہ حکومت نے تعلیمی اداروں کی جانب سے ایک پولیسی بنائی گئی ہے یہ پولیسی فروری ۹۱۰۲کو گئی جس کا مقصد تعلیمی اداروں کے صورتحال اور جانچ پتال کرنا ہے اس پر اداروں کی ہر ضروری اور غیر ضروری معلومات کو حاصل کرنا اور تعلیمی نظام کو درست کرنا ہے پر اس پولیسی پر ابھی تک کوئی کام نہیں کیا گیا۔
سندہ حکومت کو چاہیئے کہ سندہ کہ نجی سرکاری اسکولوں نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اوراس پولیسی پر جلدازجلد سخت اکیشن لیا جائے بند اسکولوں کو کھولا جائے،نئے استاذہ بِھرتی کیے جائے تاکہ ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہی سکے اور غریب عوام اپنے بچوں کو ایک اچھی تعلیم دے سکیاوربچی اپنا مستقبل بنائے اپنے ماں باپ اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔
Sanober Mallah
600 plus words are required, these are only 184 words
Quote some reports official and research reports etc also expert opinion
Referred back send it till March 4
Roll no: 83
Name:Sanober
BS part 3 article
Selected for Magazine
Revised
سندہ کے نجی سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام درہم برہم
صنوبر ملاح
ایک قوم کی ترقی کیلِئے تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے تعلیم حاصل کرنا ہر انسان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ تعلیم ایک قیمیتی زیور ہے اور جس قوم کے یہ زیور ہو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔ آج تک دنیا میں ترقی پسند ملک تعلیم کی وجہ سے ہی اپنی ملک کا نام روشن کیا ہے۔
جسے کہ آج کے دور میں تعلیم انتہائی ضروری ہے پر سندہ کے نیجی سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اسکولوں میں کوئی نافظ انتظامات اور سہولیات موجود نہیں، عمارتیں ٹوٹی فوٹی، وہی پرُانا فرنیچر اور نہ ہونی کے برابر، پینے کیلئے ناہی صاف اور ٹھنڈا پانی ہے اور ناہی صفائی کا کوئی نظام موجود ہے وہی کچری کے ڈھیر ہیں۔ اسکولوں میں کوئی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچے اسکول سے غیر حاضر ہورہے ہیں اور استاد بھی بچوں کی حاضری کی وجہ سے اسکول آنے سے قاصر ہیں۔استادوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی غیر حاضری روز کا معمول بن گیا ہے بچے غیر حاضر رہنے لگے ہیں۔ کیوکہ اسکولوں میں نہ ہی کوئی صفائی سُتھرائی کا نظام ہے اور نہ ہی سکیورٹی کا کوئی انتظام۔اسکولوں میں ایسے فیصلٹیز موجود نہیں جن کی وجہ سے بچوں کو پڑھنے میں دلچسپی اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہو۔ آج کے دور میں جہاں پرائیوٹ اسکولِ میں بہت ساری فیصلیٹیز موجود ہیں کھیلنے کے لیئے پلیگراوَنڈ ایکسٹرا مٹیریل اور بہت ساری ایکٹوٹیز،کمپیوٹر لیب، لیبیریز موجود ہیں تو بچوں کو پڑھنے میں مزہ اور جوشِ و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہاں سرکاری اسکولوں میں کوئی ایکٹوٹیز موجود نہیں اورنہ ہی ایڈمنسٹریشن کو کوئی خیال ہے اسکولوں میں نہ ہی کمپیوٹر لیب بنائے گئی اورنہ ہی کوئی ایسی کتاب پڑھائی جاتی ہے کہ جس سے جدید دور اور انوینشن کے بارے پڑھیا جائے۔آج بھی وہی ابا و دادا کے دور کتابیں بچوں کے سلیبس میں موجود ہیں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ جہاں آکسفرڈ کی کتابیں پڑھائیں جاتی ہیں وہاں پہ وہی سندہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے کورس موجود ہیں
سندہ حکومت کی طرف ہر سال بچوں کو نئی کتابیں اورینفارم تقسیم کیا جاتے ہیں پر وہ صرف کچھہ بچوں تک ہی محدود رہتا ہے اور کچھہ دونوں میں ایسا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔ سندہ حکومت کی طرف سےُ مھیا کیا جانے والا فند ۔۔۔۔۔۔اورجاگیرداراپنیمفاد کے لیئے استعمال کرتیہے۔ وڈیروں اور جہاگیرداروں نے اسکولوں کو اپنی ذاتی جاگیراورملقیت سمجھہ رکھہ ہے،اسکولوں کواپنی بیٹھکے اور باڑہ بنا رکھا ہے۔ سندہ حکومت کی اسکولوں کی طرف توجہ نہ دینا، ان کی بہتری کیلئے کوئی بھی ایکشن نہ لینا اور جب الکیشن قریب آتے ہیں تو ہر پارٹی اپنے ووٹوں کی وجہ سے اپنے حلقے کے اسکولوں کی طرف رخ کرتی ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جو کہ ان کی تقریریں اوردستاویزات تک محدود رہتی ہیں اسکولوں میں ووٹوں کی وجہ سے صفائی ستھرائی اور مہارمت پر دھیان دیا جاتا ہے،آدھی تنخواہ پر نئی استاد رکھے جاتے ہیں پر جیسے ہی الیکشن ختم ہوتے ہیں بعد میں ان کو نکال دیا جاتا ہے ان کے نام کی تنخوائیں اپنے پاس جیبومیں رکھہ دی جاتی ہیں پھر کوئی نظام آتے۔ جبکہ سرکاری ٹیچرز جو کہ بڑی پوسٹ پر گھر بیٹھہ کر تنخوائیں لیتے ہیں یا پھر پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی جگہ پرائیوٹ نے لیلی ہے اور والدین بھی اپنے بچوں کے بہتریں مستقبل کے لیئے اس مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں اورُ ان کی مہنگی فیسیس دینے پر مجبور ہیں آج کے دورمیں ایک اچھی تعلیم دینا غریب ماں باپ کے بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ یہ بچے ہی اس قوم کا مستقبل ہیں ان کی اچھی تعلیم ان کا حق ہے پر سندہ حکومت کی عدم دلچسپی آدھر دخائی دیتی ہے۔پر حالحی میں سندہ حکومت نے تعلیمی اداروں کی جانب سے ایک پولیسی بنائی گئی ہے یہ پولیسی فروری ۹۱۰۲کو گئی جس کا مقصد تعلیمی اداروں کے صورتحال اور جانچ پتال کرنا ہے اس پر اداروں کی ہر ضروری اور غیر ضروری معلومات کو حاصل کرنا اور تعلیمی نظام کو درست کرنا ہے پر اس پولیسی پر ابھی تک کوئی کام نہیں کیا گیا۔
سندہ حکومت کو چاہیئے کہ سندہ کہ نجی سرکاری اسکولوں نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اوراس پولیسی پر جلدازجلد سخت اکیشن لیا جائے بند اسکولوں کو کھولا جائے،نئے استاذہ بِھرتی کیے جائے تاکہ ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہی سکے اور غریب عوام اپنے بچوں کو ایک اچھی تعلیم دے سکیاوربچی اپنا مستقبل بنائے اپنے ماں باپ اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔
Sanober Mallah
600 plus words are required, these are only 184 words
صنوبر ملاح
ایک قوم کی ترقی کیلِئے تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے تعلیم حاصل کرنا ہر انسان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ تعلیم ایک قیمیتی زیور ہے اور جس قوم کے یہ زیور ہو وہ قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے۔ آج تک دنیا میں ترقی پسند ملک تعلیم کی وجہ سے ہی اپنی ملک کا نام روشن کیا ہے۔
جسے کہ آج کے دور میں تعلیم انتہائی ضروری ہے پر سندہ کے نیجی سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام دن بہ دن بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اسکولوں میں کوئی نافظ انتظامات اور سہولیات موجود نہیں، عمارتیں ٹوٹی فوٹی، وہی پرُانا فرنیچر اور نہ ہونی کے برابر، پینے کیلئے ناہی صاف اور ٹھنڈا پانی ہے اور ناہی صفائی کا کوئی نظام موجود ہے وہی کچری کے ڈھیر ہیں۔ اسکولوں میں کوئی سہولت موجود نہ ہونے کی وجہ سے بچے اسکول سے غیر حاضر ہورہے ہیں اور استاد بھی بچوں کی حاضری کی وجہ سے اسکول آنے سے قاصر ہیں۔استادوں کا کہنا ہے کہ بچوں کی غیر حاضری روز کا معمول بن گیا ہے بچے غیر حاضر رہنے لگے ہیں۔ کیوکہ اسکولوں میں نہ ہی کوئی صفائی سُتھرائی کا نظام ہے اور نہ ہی سکیورٹی کا کوئی انتظام۔اسکولوں میں ایسے فیصلٹیز موجود نہیں جن کی وجہ سے بچوں کو پڑھنے میں دلچسپی اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہو۔ آج کے دور میں جہاں پرائیوٹ اسکولِ میں بہت ساری فیصلیٹیز موجود ہیں کھیلنے کے لیئے پلیگراوَنڈ ایکسٹرا مٹیریل اور بہت ساری ایکٹوٹیز،کمپیوٹر لیب، لیبیریز موجود ہیں تو بچوں کو پڑھنے میں مزہ اور جوشِ و جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہاں سرکاری اسکولوں میں کوئی ایکٹوٹیز موجود نہیں اورنہ ہی ایڈمنسٹریشن کو کوئی خیال ہے اسکولوں میں نہ ہی کمپیوٹر لیب بنائے گئی اورنہ ہی کوئی ایسی کتاب پڑھائی جاتی ہے کہ جس سے جدید دور اور انوینشن کے بارے پڑھیا جائے۔آج بھی وہی ابا و دادا کے دور کتابیں بچوں کے سلیبس میں موجود ہیں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ جہاں آکسفرڈ کی کتابیں پڑھائیں جاتی ہیں وہاں پہ وہی سندہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے کورس موجود ہیں
سندہ حکومت کی طرف ہر سال بچوں کو نئی کتابیں اورینفارم تقسیم کیا جاتے ہیں پر وہ صرف کچھہ بچوں تک ہی محدود رہتا ہے اور کچھہ دونوں میں ایسا کوئی نظام نظر نہیں آتا۔ سندہ حکومت کی طرف سےُ مھیا کیا جانے والا فند ۔۔۔۔۔۔اورجاگیرداراپنیمفاد کے لیئے استعمال کرتیہے۔ وڈیروں اور جہاگیرداروں نے اسکولوں کو اپنی ذاتی جاگیراورملقیت سمجھہ رکھہ ہے،اسکولوں کواپنی بیٹھکے اور باڑہ بنا رکھا ہے۔ سندہ حکومت کی اسکولوں کی طرف توجہ نہ دینا، ان کی بہتری کیلئے کوئی بھی ایکشن نہ لینا اور جب الکیشن قریب آتے ہیں تو ہر پارٹی اپنے ووٹوں کی وجہ سے اپنے حلقے کے اسکولوں کی طرف رخ کرتی ہے اور بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں جو کہ ان کی تقریریں اوردستاویزات تک محدود رہتی ہیں اسکولوں میں ووٹوں کی وجہ سے صفائی ستھرائی اور مہارمت پر دھیان دیا جاتا ہے،آدھی تنخواہ پر نئی استاد رکھے جاتے ہیں پر جیسے ہی الیکشن ختم ہوتے ہیں بعد میں ان کو نکال دیا جاتا ہے ان کے نام کی تنخوائیں اپنے پاس جیبومیں رکھہ دی جاتی ہیں پھر کوئی نظام آتے۔ جبکہ سرکاری ٹیچرز جو کہ بڑی پوسٹ پر گھر بیٹھہ کر تنخوائیں لیتے ہیں یا پھر پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ سرکاری اسکولوں کی جگہ پرائیوٹ نے لیلی ہے اور والدین بھی اپنے بچوں کے بہتریں مستقبل کے لیئے اس مہنگائی کے دور میں اپنے بچوں کو پرائیوٹ اسکولوں میں پڑھانے پر مجبور ہیں اورُ ان کی مہنگی فیسیس دینے پر مجبور ہیں آج کے دورمیں ایک اچھی تعلیم دینا غریب ماں باپ کے بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ یہ بچے ہی اس قوم کا مستقبل ہیں ان کی اچھی تعلیم ان کا حق ہے پر سندہ حکومت کی عدم دلچسپی آدھر دخائی دیتی ہے۔پر حالحی میں سندہ حکومت نے تعلیمی اداروں کی جانب سے ایک پولیسی بنائی گئی ہے یہ پولیسی فروری ۹۱۰۲کو گئی جس کا مقصد تعلیمی اداروں کے صورتحال اور جانچ پتال کرنا ہے اس پر اداروں کی ہر ضروری اور غیر ضروری معلومات کو حاصل کرنا اور تعلیمی نظام کو درست کرنا ہے پر اس پولیسی پر ابھی تک کوئی کام نہیں کیا گیا۔
سندہ حکومت کو چاہیئے کہ سندہ کہ نجی سرکاری اسکولوں نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اوراس پولیسی پر جلدازجلد سخت اکیشن لیا جائے بند اسکولوں کو کھولا جائے،نئے استاذہ بِھرتی کیے جائے تاکہ ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہی سکے اور غریب عوام اپنے بچوں کو ایک اچھی تعلیم دے سکیاوربچی اپنا مستقبل بنائے اپنے ماں باپ اور اپنے ملک کا نام روشن کریں۔
Sanober Mallah
600 plus words are required, these are only 184 words
Sanobar Mallah
سندہ کے سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام درِہم برہم
ایک قوم کی ترقی کیلے تعلیم ایک اہم کردار ادا کرتی ہےتعلیم
ہر انسان کا بنیادی حق ہے جیسے کہ تعلیم ایک قیمتی زیور ہے اوریہ زیور جس قوم کے
پاس ہے وہ قوم آج دنیا میں کامیاب قوم ہے اور تعلیم کے لیے ارشاد باری تعالی ہے ؛
''تعلیم حاصل کرناہر مرداور عورت پر فرض ہے"
پر سندہ کے نجی سرکاری اسکولوں کا
تعلیمی نظام دن بدن بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے اسکولوں میں کوئ سہولت موجود نہیں
وہی پرانا فرنیچر،عمارتی ٹوٹی فوٹی، پینےکیلَے صاف پانی اور صفائ کیلے کوئ انتظام
موجود نہیں گورمنٹ کے طرف سے مہیا کیا گیا فند --------،جاگیردار اپنی ذاتی مفاد
کیلئے اسعتمال کرتے ہیں حکومت سندہ حکومت کی طرف سے کوئ بھی اقدام نظر نہیں آتے ،
جب الیکشن قریب ہوتے ہیں تو ہر پارٹی اپنی ووٹوں کی وجہ سے اپنے حلقے میں اسکولوں
کی طرف توجہ دیتی ہیں پر اس کے بعد کوئ نظام نظر نہیں آتے ۔ استاد بھی نظام بہتر
نہ ہونے کی وجہ سے پرائیوٹ اسکولوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں یا پھر گھر بیھئہ کر
سرکاری تنخواہ لیتے ہیں اوربچوں کی ٰغیر حاضری کی وجہ سے سرکاری اسکولوں کی جگہ
پرائیوٹ اسکولوں نے لی ہے استاد اور والدیں کے پرائیوٹ اسکولوں کی طرف متوجہ ہونا
۔ والدیں اپنے بچوں کی بہترین کیلئے پرائیوٹ اسکولوں میں داخلا دلا رہے ہیں اور ان
کی مھنگی فیسے دینے پر مجبور ہیں اور سرکاری اسکول نام کی اسکول رہے گئ ہیں ۔
سندہ حکومت کو چاہیئے کہ سکاری اسکولوں کا تعلیمی نظام
بنایا جائے اور ضعلو میں اسکولوں کو اپنی بیٹھکے اوربارہ بنایا ہوئے ہیں ان کی
حالت درست کی جائے تاکہ ان میں تعلیم کا سلسلہ جاری رہے اور غریب عوام اپنے بچوں
کو اعلیٰ تعلیم دے سکے اور اپنا مستقبل روشن بنائے۔
Comments
Post a Comment