investigative Report - Marble Industry of Hyderabad Published
ایڈیٹنگ نبیہا احمد اور سعدیہ شمیم
ہیڈنگ صحیح نہیں۔ چبھتی ہوئی، اسپوکن لینگوئیج کی طرح ہوں
اسٹوری کا اختتام کسی اچھے پیرا گراف سے کرنا چاہئے
حیدرآباد کی مشہورماربل انڈسٹری
Marble Group: Fazal 34, Arham 18, Qasim 65, Naval 74, Sobia 96, Faisal 29,
گروپ ممبران۔۱
۔ فیصل رحمٰن 2K17/MC/29 (الف) حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ
۲۔ فضل حسین 2K17/MC/34 (ب)ماربل کی کوالٹی ، پروفائل
۳۔ ارحم خان2K17/MC/18 (ج)مزدوروں کے حالات،تنخواہیں،سہولتیں
۴۔ محمد قاسم 2K17/MC/65 (د)منافع کی شرح
۵۔ سیدہ نوال 2K17/MC/74 (ہ)ماربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی بیماریاں،ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے
۶۔ ثوبیہ اعوان2K17/MC/96 (و)مزدوروں اور ٹھیکیداروں سے بات چیت
ہیڈنگ صحیح نہیں۔ چبھتی ہوئی، اسپوکن لینگوئیج کی طرح ہوں
اسٹوری کا اختتام کسی اچھے پیرا گراف سے کرنا چاہئے
حیدرآباد کی مشہورماربل انڈسٹری
Marble Group: Fazal 34, Arham 18, Qasim 65, Naval 74, Sobia 96, Faisal 29,
۔ فیصل رحمٰن 2K17/MC/29 (الف) حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ
۲۔ فضل حسین 2K17/MC/34 (ب)ماربل کی کوالٹی ، پروفائل
۳۔ ارحم خان2K17/MC/18 (ج)مزدوروں کے حالات،تنخواہیں،سہولتیں
۴۔ محمد قاسم 2K17/MC/65 (د)منافع کی شرح
۵۔ سیدہ نوال 2K17/MC/74 (ہ)ماربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی بیماریاں،ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے
۶۔ ثوبیہ اعوان2K17/MC/96 (و)مزدوروں اور ٹھیکیداروں سے بات چیت
فوٹوگرافی کیس کی ہے؟ اس کو کریڈٹ لائن دینی چاہئے
ثوبیہ یا صوبیہ؟
صوبیہ نے کونسا حصہ لکھا یہ پتہ ہی نہیں چل رہا
ثوبیہ یا صوبیہ؟
صوبیہ نے کونسا حصہ لکھا یہ پتہ ہی نہیں چل رہا
حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ فیصل رحمٰن صدیوں سے ماربل عمارتوں کی خوبصورتی اور آرائش و زیبائش کے لئے استعمال ہوتا چلا آرہا ہے ۔ بادشاہوں کے محلات ، رہائش گاہوں ، قلعوں سے لے کر تا ریخی عمارات تک ماربل ان کی زینت بنتا رہا ۔جس میں سلطنتِ عثمانیہ کے محلات ، تاج محل ، سلطان احمد مسجد ، شاہ فیصل مسجد ، بادشاہی مسجد، مزارِ قائد اور شاہ عبداللطیف کا مزار اپنی مثال آپ ہیں۔
لیکن پھر وقت بدلا جیسے جیسے لوگ ترقی کرتے گئے اپنے گھروں کی خوبصورتی کی طرف زیادہ متوجہ ہونے لگے تو ماربل بھی ہر خاص و عام کے گھروں کی زینت بننے لگا۔اب تو یہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہربننے والا گھر ماربل کے بنا کچھ ادھورا سالگتا ہے ۔
گھروں سے لے کر دفتروں، ہسپتال، مالز، مارکیٹ غرض ہر جگہ ماربل کا استعمال عام ہے۔جس کی بڑی وجہ خوبصورتی اور مضبوطی ہے دوسرا اس کی صفائی کرنا بھی آسان ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ؟کہ ماربل آپ کے گھروں کی زینت بننے سے پہلے کن کن مرحلوں سے ہو کر گزرتا ہے اسی اثنا میں جب ہم نے جائزہ لیا تو ہمیں پتا چلاکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ماربل کی پیداوار میں خودکفیل اور سر فہرست ہیں۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اندر ماربل،گرینائٹ،اونیکس اور دوسرے عمارتی پتھر موجود ہیں جو بیش قیمتی ہیں۔ان کا حجم لگ بھگ ۳۰۰ ارب ٹن ہے ۔یہ دنیا کا پانچوا ں بڑاذخائر ہے ۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق ماربل کی قسم سنگ مرمر کی پاکستان کے اندر تقریبا۷۰ سے زائد اقسام پائی اور نکالی جاتی ہیں ،اوراس کے ۱۰۰ سے زائد رنگ پاکستان میں پائے جاتے ہیں، جو کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت ہوتے ہیں۔
اسی طرح سندھ کے دوسرے بڑے شہرحیدرآباد میں بھی ماربل کا کاروبار بہت وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔حیدرآباد کے علاقے کچے قلعے کے قریب مکی شاہ روڈ کے دونوں اطراف ماربل کی بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے۔جس میں لگ بھگ ۳۰۰ سے زائد ماربل کی چھوٹی بڑی دکانیں موجود ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ اس کاروبار سے قیامِ پاکستان سے پہلے کے منسلک ہیں ۔جبکہ زیادہ تر چند دہائیوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔حیدرآباد سنگ مرمرِ ،گرینائٹ،سنی گرے،اٹالین ماربل،اوشیانگ،زیبرا ماربل کی فروخت کا مرکز ہے۔حیدرآباد کے قریب چھوٹے شہر اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ماربل کی خریداری حیدرآباد سے ہی کرتے ہیں۔کیونکہ یہ سندھ کی دوسری بڑی ماربل مارکیٹ ہے۔اس مارکیٹ میں مار بل ملک کے دیگر علاقوں اور دنیا کے کئی شہروں سے لایا جاتا ہے،مگر چائنہ،پشاور ،مردان سے آنے والے ماربل کو حیدرآباد میں زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اس مارکیٹ میں بیک وقت ۶۰ سے زائد اقسام دستیاب ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۲۰ سے ۲۵ ہزاراسکوائر فٹ ماربل حیدرآباد کی مارکیٹ میں فروخت ہوتاہے ،جو حیدرآباد کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔حیدرآبادکی مارکیٹوں میں ماربل کراچی سے منگوایا جاتا ہے۔حیدرآباد میں ماربل پرکنندہ کاری اور خطاطی بھی کی جاتی ہے۔ جہاں قبور کی تختیوں سے لے کر نام کی تختیاں،سنگ افتتاح،اورسنگ بنیاد تیار کیے جاتے ہیں۔
(ب) ماربل کی کوالٹی پر ایک نظر:فضل حسین ماربل کی کوالٹی کو ہم اس کے شیڈز،کثافت اوراس کے حجم سے پہچان سکتے ہیں۔ماربل خریدنے سے پہلے اس کی جانچ لازمی ہے۔اعلیٰ کوالٹی کے ماربل کا حجم ۴۰۰ڈیسی میڑہوتا ہے اس کے علاوہ ۲۵۰ڈیسی میٹرکے ماربل عام طور پرگھروں اور عمارتوں کی تزئین و آرائش میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حیدرآباد کے ٹھیکیدارشکیل انصاری جو شہر کے جانے مانے ٹھکیدار ہیں ان کے مطابق ماربل دو طرح کے ہو تے ہیں ایک سخت ماربل اوردوسرے نرم ماربل ۔ ماربل جتنا سخت ہوگااتنا ہی دلکش اور چمکدار ہوگااور نرم ماربل پانی کو جذب کرتا ہے اس لیے لوگ یہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ اعتبار اور معیارکے مطابق بھی نہیں ہے۔سب سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل زیارت وائٹ کہلاتا ہے جس کو عام لفظوں سنگ مر مر یا سپریم وائٹ کہلاتا ہیں جس کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے جو تقر یباًٍٍٍ۵۰۰سے ۶۰۰ روپے فی فٹ تک فروخت ہوتاہے۔ہم ٹھیکیدار گاہک کو گھروں میں سنی وائٹ اور سنی گرے لگوانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو خوبصورت،مظبوط ااور چمکدار ہونے کے باوجودکم نر خ پر بھی دستیاب ہوتا ہے۔ کوالٹی کے اعتبار سے ماربل مختلف قیمتوں میں فرو خت ہوتا ہے۔سب سے قیمتی ماربل ۱۲۰۰سے ۱۵۰۰ روپے کی قیمت میں فروخت ہوتا ہے ۔ ماربل کے
لیکن پھر وقت بدلا جیسے جیسے لوگ ترقی کرتے گئے اپنے گھروں کی خوبصورتی کی طرف زیادہ متوجہ ہونے لگے تو ماربل بھی ہر خاص و عام کے گھروں کی زینت بننے لگا۔اب تو یہ وقت آن پہنچا ہے کہ ہربننے والا گھر ماربل کے بنا کچھ ادھورا سالگتا ہے ۔
گھروں سے لے کر دفتروں، ہسپتال، مالز، مارکیٹ غرض ہر جگہ ماربل کا استعمال عام ہے۔جس کی بڑی وجہ خوبصورتی اور مضبوطی ہے دوسرا اس کی صفائی کرنا بھی آسان ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا ؟کہ ماربل آپ کے گھروں کی زینت بننے سے پہلے کن کن مرحلوں سے ہو کر گزرتا ہے اسی اثنا میں جب ہم نے جائزہ لیا تو ہمیں پتا چلاکہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو ماربل کی پیداوار میں خودکفیل اور سر فہرست ہیں۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اندر ماربل،گرینائٹ،اونیکس اور دوسرے عمارتی پتھر موجود ہیں جو بیش قیمتی ہیں۔ان کا حجم لگ بھگ ۳۰۰ ارب ٹن ہے ۔یہ دنیا کا پانچوا ں بڑاذخائر ہے ۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق ماربل کی قسم سنگ مرمر کی پاکستان کے اندر تقریبا۷۰ سے زائد اقسام پائی اور نکالی جاتی ہیں ،اوراس کے ۱۰۰ سے زائد رنگ پاکستان میں پائے جاتے ہیں، جو کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت ہوتے ہیں۔
اسی طرح سندھ کے دوسرے بڑے شہرحیدرآباد میں بھی ماربل کا کاروبار بہت وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔حیدرآباد کے علاقے کچے قلعے کے قریب مکی شاہ روڈ کے دونوں اطراف ماربل کی بہت بڑی مارکیٹ موجود ہے۔جس میں لگ بھگ ۳۰۰ سے زائد ماربل کی چھوٹی بڑی دکانیں موجود ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ اس کاروبار سے قیامِ پاکستان سے پہلے کے منسلک ہیں ۔جبکہ زیادہ تر چند دہائیوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔حیدرآباد سنگ مرمرِ ،گرینائٹ،سنی گرے،اٹالین ماربل،اوشیانگ،زیبرا ماربل کی فروخت کا مرکز ہے۔حیدرآباد کے قریب چھوٹے شہر اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ماربل کی خریداری حیدرآباد سے ہی کرتے ہیں۔کیونکہ یہ سندھ کی دوسری بڑی ماربل مارکیٹ ہے۔اس مارکیٹ میں مار بل ملک کے دیگر علاقوں اور دنیا کے کئی شہروں سے لایا جاتا ہے،مگر چائنہ،پشاور ،مردان سے آنے والے ماربل کو حیدرآباد میں زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اس مارکیٹ میں بیک وقت ۶۰ سے زائد اقسام دستیاب ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۲۰ سے ۲۵ ہزاراسکوائر فٹ ماربل حیدرآباد کی مارکیٹ میں فروخت ہوتاہے ،جو حیدرآباد کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔حیدرآبادکی مارکیٹوں میں ماربل کراچی سے منگوایا جاتا ہے۔حیدرآباد میں ماربل پرکنندہ کاری اور خطاطی بھی کی جاتی ہے۔ جہاں قبور کی تختیوں سے لے کر نام کی تختیاں،سنگ افتتاح،اورسنگ بنیاد تیار کیے جاتے ہیں۔
(ب) ماربل کی کوالٹی پر ایک نظر:فضل حسین ماربل کی کوالٹی کو ہم اس کے شیڈز،کثافت اوراس کے حجم سے پہچان سکتے ہیں۔ماربل خریدنے سے پہلے اس کی جانچ لازمی ہے۔اعلیٰ کوالٹی کے ماربل کا حجم ۴۰۰ڈیسی میڑہوتا ہے اس کے علاوہ ۲۵۰ڈیسی میٹرکے ماربل عام طور پرگھروں اور عمارتوں کی تزئین و آرائش میں استعمال ہوتے ہیں ۔ حیدرآباد کے ٹھیکیدارشکیل انصاری جو شہر کے جانے مانے ٹھکیدار ہیں ان کے مطابق ماربل دو طرح کے ہو تے ہیں ایک سخت ماربل اوردوسرے نرم ماربل ۔ ماربل جتنا سخت ہوگااتنا ہی دلکش اور چمکدار ہوگااور نرم ماربل پانی کو جذب کرتا ہے اس لیے لوگ یہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ اعتبار اور معیارکے مطابق بھی نہیں ہے۔سب سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل زیارت وائٹ کہلاتا ہے جس کو عام لفظوں سنگ مر مر یا سپریم وائٹ کہلاتا ہیں جس کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے جو تقر یباًٍٍٍ۵۰۰سے ۶۰۰ روپے فی فٹ تک فروخت ہوتاہے۔ہم ٹھیکیدار گاہک کو گھروں میں سنی وائٹ اور سنی گرے لگوانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو خوبصورت،مظبوط ااور چمکدار ہونے کے باوجودکم نر خ پر بھی دستیاب ہوتا ہے۔ کوالٹی کے اعتبار سے ماربل مختلف قیمتوں میں فرو خت ہوتا ہے۔سب سے قیمتی ماربل ۱۲۰۰سے ۱۵۰۰ روپے کی قیمت میں فروخت ہوتا ہے ۔ ماربل کے
ساتھ ساتھ لوگ گرینائیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔گرینائیٹ خوبصورتی میں ماربل کے مقابلے منفرد ہوتا ہے۔
(ج) مزدوروں کے حالات زندگیارحم خانپاکستان کے علاقے شمال مغرب معدنیات سے مالامال ہے۔بالخصوص فاٹا میں ماربل کے پہاڑ وسیع تعداد میں موجودہیں۔پاکستان کے پہاڑوں سے ماربل کاٹ کر اندرونِ ملک بھیجا جاتاہے اور پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت کیاجاتاہے۔زیادہ تر ماربل پشاور سے کراچی منتقل کیاجاتاہے۔جہاں ماربل کودرست طریقے سے تراشا جاتاہے پھر کراچی سے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی فروخت کے لیے لایاجاتاہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی پہاڑ کی کٹائی سے ماربل کی خوبصورت نقش ونگاری تک،کڑی دھوپ سے ماربل کی دھول تک،پہاڑ سے ایک بے جان پتھرکو قیمتی پتھر بنانے اور گھروں کی زینت بنانے تک جو شخص دن رات کام کرتا ہے وہ صرف مزدور ہی کہلاتاہے۔
سنگِ مرمر جوکے قدرتی طور پر ہمیں حاصل ہو جاتاہے ، لیکن تراشتے وقت احتیاط بھی ضروری ہے۔کیونکہ ماربل کے ذرات سانس کے زریعے جسم کے اندر جانے سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں۔ماربل کی کٹائی سے تراشنے تک جو دھول اُڑتی ہے وہ آنکھوں پر اثر کرتی ہے اسکے علاوہ اس دھول مٹی سے سانس کے امراض لاحق ہوتے ہیں ۔حیدرآباد میں ماربل مارکیٹ سے منسلک مزدورں کا کہناہے کہ ہمیں تنخواہ صرف زندگی گزارنے کے لیے دی جاتی ہے ہماری اپنی محنت کی اجرت نہیں ہوتی ۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم ۲۵۰ روپے روز کی مزدوری پر کام کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔اگر کسی مزدور کی ماربل تراشتے وقت حالت خراب ہوجائے یا کسی مزدور کی موت واقعی ہوجائے تو اس غریب کے بچوں کی کفالت کی ذمے داری کوئی اٹھانے کی حامی نہیں بھر تا ۔ ماربل کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدور عابد علی کے مطابق جن کی عمر ۴۰ برس تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ماربل کی فیکٹری میں ۱۵ سال سے کام کررہاہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں ۳۵ سال کی عمر سے ماربل کی مختلف اقسام کی نقش و نگاری میں کام کرنے اور ماربل کو خوبصورتی سے تراشنے والا آج تک میں مزدور ہی کہلاتاہوں۔اپنی غریبی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب میرے بچے رات دیر تک میرا انتظار کرتے ہیں کہ شاید میں ان کی پسند کی چیز لے کر گھر میں داخل ہونگالیکن ایسا نہیں ہوتا۔ روز کی دہاڑی پر کام کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میرے ۳۰۰۰ روپے ہفتہ میں ہفتے کا راشن بھی مشکل سے پورا ہوتاہے یہ وجہ ہے کہ میں ایک روز بھی بیماری کے باعث کام نہ کروں تو میرے گھر میں فاقے کی حالت پیداہوجاتی ہے ۔ہم مزدور ں سے یکجہتی کا دن تو مناتے ہیں لیکن افسوس حقیقت تلخ ہے کہ مزدور یکجہتی کے دن بھی بھوکا سوتاہے۔
پروفائل: علی اصغر عباسی(مزدور)فضل حسینجس شخص کا ذکر ہم کرنے لگے ہیں و ہ کوئی معروف شخصیت تونہیں ،ایک مزدور ہے جو ماربل فیکٹری میں کام کرتا ہے۔علی اصغر کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور وہ حیدرآباد شہر کا رہائشی ہے۔علی اصغر اپنے گھر کا واحد کفیل اور ۵ بچوں کا باپ بھی ہے۔علی اصغر کے والد شو گر مل میں ملازمت کر تے تھے۔والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر قابل انسان بنے ۔اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ جس طرح مزدوری کرتے ہیں ان کا بیٹا بھی ایسا ہی کرے اس لیے بیٹے کو آگے پڑھانے کے لئے اس کے والد شوگر مل کے بعد چھوٹا موٹا کام کاج کر لیتے تھے ۔ سستا زمانہ تھا مگر جب علی اصغر۱۲ سال کا ہوا تو والد کا انتقال ہو گیاماں اوربہنوں کے لئے اب یہ ہی سہارا رہ گیا۔
پڑھائی چھوٹ گئی پھر ایک دوست کے مشورے پر یہ ماربل کے کام کی طرف آگیا۔اور آج اسے اس کام میں تقریباًدود ہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے بقول اس کے یہ کام بڑی محنت کا کام ہے ۔ماربل کی گھسائی اور کٹائی کے دوران جو خاک اور ذرات ہوا میں اڑتے ہیں اس کی و جہ سے اسے پھیپھڑوں کا عارضہ لاحق ہو گیا ۔آنکھیں بھی کمزور ہو گئیں ۲۵ سال اس صنعت کو دینے کے بعد بھی اسے کوئی علاج معالجے کی کو ئی سہولت میسر نہیں ہے ۔اسی قلیل آمدنی میں اسے اپنے گھر اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال بھی کر نی ہوتی ہے ۔صرف علی اصغر ہی نہیں بلکہ دوسرے مزدور جو اس ماربل کے کام سے وابستہ ہیں وہ بھی ان ہی مسا ئل سے دوچار ہیں۔علی اصغر کے کہنے کے مطابق ہمیں کوئی فیکڑی مالکان یا سرکاری سرپرستی حاصل نہیں۔
لطیف آباد اور شہر حیدرآباد کے سنگھم پر واقع ان ۳۰۰ سے ۳۵۰ دوکانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کوئی فائدہ نہیں۔صرف بڑے کارخانے ہی ملازمین کو میڈیکل اور دوسری سہولیات مہیا کرتے ہیں مگر اتنی بڑ ی تعداد میں ماربلز کاکام کرنے والے مزدور اپنی زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے یہ آلودگی والا کام کرنے پر مجبور ہیں۔
علی اصغر اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جنھیں وہ اپنے معاشرے میں عزت اور وقار دلانے کے لئے دن رات اس کام میں مصروف ہے۔
منافع کی شرح:محمد قاسم آج کے دور میں ہر شخص اپنے گھر کو چلانے کے لئے محنت مزدوری کرتا ہے لیکن کچھ لوگ زیادہ منافع کے لئے حدسے زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں دوکاندار ہو یا تاجرفروخت کی جانے والی چیزواں میں ہیر پھیر کرہی دیتے ہیں پر ہرشخص کوہر چیز کی قیمت کا صحیح پتانہیں ہوتا اسی بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اچھا منافع کمالیتے ہیں۔
ماربل انڈسٹری سے ماربل منگوایا جاتا ہے خاص کر کے پاکستان کا صوبہ خیبرپختو نخواہ جہاں کثیر تعداد میں ماربل کے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں سے نکلنے والے ماربل کی قیمتیں درج ذیل ہیں : ٹراوایرا ۳۵، بوٹی سینارائیل۳۴، زیارت وائٹ۷۵، خان بادشاہ۷۲، اعلیٰ سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل گرینائٹ ہے جو کہ۳۵۰ سے لے کر ۱۰۰۰ فی فٹ پر دوکاندار ہول سیل کے ریٹ پر خرید تے ہیں اور دگنے دام میں گاہک کوفروخت کرتے ہیں۔اگر نیا خریدار جس کو ماربل کی مختلف اقسام اور ٹائل کے بارے میں جانکاری نہیں ہوتی اُسے دوکاندار اچھی کوالٹی کے دام لے کر نچلے درجے کی کوالٹی فرخت کردیتے ہیں اس کے علاوہ ان کا زیادہ تر زور منافع کمانے میں ہوتاہے اسی لئے وہ ماربل کے ناپ میں بھی ہیر پھیر کردیتے ہیں۔پاکستان ویسے تو معدنیات کے ذخائر سے مالامال ہے ماربل جو کے قدرتی طور پر حاصل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی ااو نچی اقسام کا لیبل لگانے کے لئے بیرونِ ملک بھیجاجاتاہے اور وہی ماربل جرمنی یا چائنا کا لیبل لگ کرپاکستان میں دگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
حیدرآباد مکی شاہ روڈکے دونوں اطراف میں ماربل مارکیٹ موجود ہیں جہاں پر حیدرآباد کے رہائشی او ر دوسرے دور دوراز کے علاقوں سے خریداری کے لئے آنے والے لوگ زیادہ تر ماربل کی اعلیٰ اور کم معیار کی کوالٹی سے ناآشنا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ماربل فروخت کرنے والے دوکاندار منافع کے خاطرلوگوں کو دھوکا دیے دیتے ہیں ۔ عاطف میمن کے مطابق پیشہ کوئی بھی ہو اُس میں اونچ نیچ کرنا دوکاندار اپنا کاروبار سمجھتا ہیں۔ عموماً دوکانداروں کا دھیان نفع پرہوتاہے۔دوکاندار اکثر گاہکوں کے ساتھ ماربل کی کوالٹی اور اسکے ناپ میں اُونچ نیچ کر دیتے ہیں۔لہذا ماربل کے خریدار کو ماربل کی مختلف اقسام سے واقفیت ہونی چاہیے ۔
ماربل کا بیماریوں سے تعلق:سیدہ نوال ماربل کی گھسائی اور کٹنگ مشینو ں کی دھول کی وجہ سے اس پیشے سے منسلک افراد مختلف بیماریو ں میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔جس میں ما ر بل کے ذرات کے باعث آنکھ ،سانس اور جلد کی بیماریوں کی مختلف اقسام شامل ہیں۔حیدرآباد میں مکی شاہ روڈ پرطویل عر صے سے ماربل ما رکیٹ قائم ہے۔جہاں پر دن بھر ماربل کی گھسائی اور کٹنگ کی جا تی ہے جس سے ہوا میں ماربل کے ذر ات کے باعث ماحول مکمل طور پر آلودہ ہوجاتا ہے۔وہاں موجود مزدوروں کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے اور گزرنے والے شہری بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
وہاں موجود مزدوروں سے بات کر نے پر پتہ چلا کہ مزدوروں کو کوئی طبی سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں ۔جہاں تک مزدوروں کے تحفظ کی بات ہے تو سندھ لیبر ڈویلپمینٹ ڈپارٹمنٹ کے اسے یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہ ہو نے کے برابر ہیں۔
(۶)ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے:
ہم نے جب اس سلسلے میں ڈاکٹر صائمہ اقبال سے بات کی تو انہوں نے ما ربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ اس سے شدید کھانسی ،بخار،دمہ ،سینے میں درد اور پھیپھڑوں میں انفیکشن ہونے کے امکانات شامل ہیں۔ان سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے ڈاکٹر مدیحہ بلیغ اور ڈاکٹر صائمہ اقبال کا کہنا تھا کہ ورکرز کو اپنا چہرہ ، آنکھیں یا کان بچانے کے لیے ماسک ،چشمہ اور ،نوائز مفلر پہنے چاہییں۔
ڈاکٹر مدیحہ بلیغ کے مطابق سانس کے ساتھ ساتھ ماربل کا غبار اندر لینے سے مزدوروں اور مقامی رہائشیوں میں آنکھ اور گلے کا انفیکشن بھی ہوسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گردوں کے مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ چونکہ ماربل کے غبار کے اندر کیلشیم کاربو نیٹ اور سلیکا کے ذرات پائے جاتے ہیں تو اس سے بچاؤ کے لیے نیبو لائز کرواتے رہناچاہیے اگر ان سب احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جا ئے تو مزید بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
صنعت کیسے چلتی ہے؟ آخری پیرا یہاں پر ڈالیںماربل کی فیکٹری نما کارخانے حیدرآباد مکی شاھ روڈ پر واقع ہیں ۔جہاں ماربل کی کٹائی، گھسائی اور ماربل کو خوبصورت بنانے کے لیے پالش کیاجاتاہے۔چونکہ مختلف کارخانے مکی شاھ روڈ کی دونوں اطراف میں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک لائن میں سجی ان دکانوں کو ماربل مارکیٹ بھی کہاجاتاہے۔ عدنان ماربل فیکٹری کے مالک عثمان بلوچ کے مطابق ان کارخانوں میں نہ صرف ماربل تراشا جاتا ہے بلکہ اسکی فروخت بھی کی جاتی ہے اور ہم کارخانوں کے مالکان ایک دوسرے سے ماربل کی قیمت میں مقابلہ کرتے ہیں اگر کوئی دوکاندار غیرمعیاری کوالٹی کا ماربل ۳۵ روپے فی فٹ فروخت کرتاہے تو دوسرا اُسکے مقابلے میں ۳۰ روپے فی فٹ پر فروخت کرتاہے۔ جب کے منا فع غیر معیاری درجے کے ماربل پر۵ روپے فی فٹ ملتاہے لیکن اعلیٰ کوالٹی کا ماربل جس میں پاکستان کا قیمتی پتھروائٹ ا ور اٹلی سے آنے و الا پتھرگرینائٹ پر۵۰ سے ۷۰ فی فٹ تک منافع ہوتاہے۔پاکستان ماربل اسو سی ایشن کی رپورٹ کے مطابق چین پاکستان سے سب سے زیادہ ماربل کی درآمد کرتا ہے۔۷۵فیصد ماربل پاکستان کاچین درآمد کیاجاتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس پیشے سے وابستہ مزدوروں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ سے زائد ہے۔جن میں سے کچھ مزدور ماربل کی کانوں میں اور کچھ مزدور ماربل کی فیکٹریوں میں گھسائی اور ماربل کو چمکانے کا کام کرتے ہیں۔اسی طرح یہ پیشہ حیدرآباد میں بھی تقریبا چار ہزار سے زائد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔
مزدوروں کے حالات:یوں تو ہر سال ہی مزدوروں سے یکجہتی کے طور پر مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ٹی وی سے لے کر تمام ملکی و غیر ملکی فورم پر لمبی لمبی تقریریں کی جاتی ہیں لیکن کسی نے بھی کبھی مزدور کی حالتِ زار کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کیا۔اگر بات کی جائے ماربل انڈسٹری کی جس سے پاکستا ن میں تقریبا ایک لاکھ سے زائد مزدور منسلک ہیں ان کی زندگی کی روداد بھی باقی مزدور طبقے سے مختلف نہیں ۔ ماربل کی کٹنگ اور گھسائی کرنے کی وجہ سے ماربل کے ذرات ان کی آنکھوں اور سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہ دمہ ، سینے میں درد اور پھیپھڑوں میں انفیکشن جیسے عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔لیکن افسوس در افسوس ان ے لئے کسی بھی قسم کے طبی علاج کی سہولیا ت میسر نہیں کی جاتیں ۔ جب تک ان میں ہمت رہتی ہے وہ اسی حالت میں محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتے ہیں اور جب بیماری زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ نڈھال ہو کربسترِمرگ پر پڑ جاتے ہیں، ان کے گھروں میں فاقے ہونے لگتے ہیں لیکن سرکاری سطح
سنگِ مرمر جوکے قدرتی طور پر ہمیں حاصل ہو جاتاہے ، لیکن تراشتے وقت احتیاط بھی ضروری ہے۔کیونکہ ماربل کے ذرات سانس کے زریعے جسم کے اندر جانے سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں۔ماربل کی کٹائی سے تراشنے تک جو دھول اُڑتی ہے وہ آنکھوں پر اثر کرتی ہے اسکے علاوہ اس دھول مٹی سے سانس کے امراض لاحق ہوتے ہیں ۔حیدرآباد میں ماربل مارکیٹ سے منسلک مزدورں کا کہناہے کہ ہمیں تنخواہ صرف زندگی گزارنے کے لیے دی جاتی ہے ہماری اپنی محنت کی اجرت نہیں ہوتی ۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم ۲۵۰ روپے روز کی مزدوری پر کام کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔اگر کسی مزدور کی ماربل تراشتے وقت حالت خراب ہوجائے یا کسی مزدور کی موت واقعی ہوجائے تو اس غریب کے بچوں کی کفالت کی ذمے داری کوئی اٹھانے کی حامی نہیں بھر تا ۔ ماربل کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدور عابد علی کے مطابق جن کی عمر ۴۰ برس تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ماربل کی فیکٹری میں ۱۵ سال سے کام کررہاہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں ۳۵ سال کی عمر سے ماربل کی مختلف اقسام کی نقش و نگاری میں کام کرنے اور ماربل کو خوبصورتی سے تراشنے والا آج تک میں مزدور ہی کہلاتاہوں۔اپنی غریبی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب میرے بچے رات دیر تک میرا انتظار کرتے ہیں کہ شاید میں ان کی پسند کی چیز لے کر گھر میں داخل ہونگالیکن ایسا نہیں ہوتا۔ روز کی دہاڑی پر کام کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میرے ۳۰۰۰ روپے ہفتہ میں ہفتے کا راشن بھی مشکل سے پورا ہوتاہے یہ وجہ ہے کہ میں ایک روز بھی بیماری کے باعث کام نہ کروں تو میرے گھر میں فاقے کی حالت پیداہوجاتی ہے ۔ہم مزدور ں سے یکجہتی کا دن تو مناتے ہیں لیکن افسوس حقیقت تلخ ہے کہ مزدور یکجہتی کے دن بھی بھوکا سوتاہے۔
پروفائل: علی اصغر عباسی(مزدور)فضل حسینجس شخص کا ذکر ہم کرنے لگے ہیں و ہ کوئی معروف شخصیت تونہیں ،ایک مزدور ہے جو ماربل فیکٹری میں کام کرتا ہے۔علی اصغر کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے اور وہ حیدرآباد شہر کا رہائشی ہے۔علی اصغر اپنے گھر کا واحد کفیل اور ۵ بچوں کا باپ بھی ہے۔علی اصغر کے والد شو گر مل میں ملازمت کر تے تھے۔والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر قابل انسان بنے ۔اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ جس طرح مزدوری کرتے ہیں ان کا بیٹا بھی ایسا ہی کرے اس لیے بیٹے کو آگے پڑھانے کے لئے اس کے والد شوگر مل کے بعد چھوٹا موٹا کام کاج کر لیتے تھے ۔ سستا زمانہ تھا مگر جب علی اصغر۱۲ سال کا ہوا تو والد کا انتقال ہو گیاماں اوربہنوں کے لئے اب یہ ہی سہارا رہ گیا۔
پڑھائی چھوٹ گئی پھر ایک دوست کے مشورے پر یہ ماربل کے کام کی طرف آگیا۔اور آج اسے اس کام میں تقریباًدود ہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے بقول اس کے یہ کام بڑی محنت کا کام ہے ۔ماربل کی گھسائی اور کٹائی کے دوران جو خاک اور ذرات ہوا میں اڑتے ہیں اس کی و جہ سے اسے پھیپھڑوں کا عارضہ لاحق ہو گیا ۔آنکھیں بھی کمزور ہو گئیں ۲۵ سال اس صنعت کو دینے کے بعد بھی اسے کوئی علاج معالجے کی کو ئی سہولت میسر نہیں ہے ۔اسی قلیل آمدنی میں اسے اپنے گھر اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال بھی کر نی ہوتی ہے ۔صرف علی اصغر ہی نہیں بلکہ دوسرے مزدور جو اس ماربل کے کام سے وابستہ ہیں وہ بھی ان ہی مسا ئل سے دوچار ہیں۔علی اصغر کے کہنے کے مطابق ہمیں کوئی فیکڑی مالکان یا سرکاری سرپرستی حاصل نہیں۔
لطیف آباد اور شہر حیدرآباد کے سنگھم پر واقع ان ۳۰۰ سے ۳۵۰ دوکانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کوئی فائدہ نہیں۔صرف بڑے کارخانے ہی ملازمین کو میڈیکل اور دوسری سہولیات مہیا کرتے ہیں مگر اتنی بڑ ی تعداد میں ماربلز کاکام کرنے والے مزدور اپنی زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے یہ آلودگی والا کام کرنے پر مجبور ہیں۔
علی اصغر اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جنھیں وہ اپنے معاشرے میں عزت اور وقار دلانے کے لئے دن رات اس کام میں مصروف ہے۔
منافع کی شرح:محمد قاسم آج کے دور میں ہر شخص اپنے گھر کو چلانے کے لئے محنت مزدوری کرتا ہے لیکن کچھ لوگ زیادہ منافع کے لئے حدسے زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں دوکاندار ہو یا تاجرفروخت کی جانے والی چیزواں میں ہیر پھیر کرہی دیتے ہیں پر ہرشخص کوہر چیز کی قیمت کا صحیح پتانہیں ہوتا اسی بات کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اچھا منافع کمالیتے ہیں۔
ماربل انڈسٹری سے ماربل منگوایا جاتا ہے خاص کر کے پاکستان کا صوبہ خیبرپختو نخواہ جہاں کثیر تعداد میں ماربل کے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں سے نکلنے والے ماربل کی قیمتیں درج ذیل ہیں : ٹراوایرا ۳۵، بوٹی سینارائیل۳۴، زیارت وائٹ۷۵، خان بادشاہ۷۲، اعلیٰ سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل گرینائٹ ہے جو کہ۳۵۰ سے لے کر ۱۰۰۰ فی فٹ پر دوکاندار ہول سیل کے ریٹ پر خرید تے ہیں اور دگنے دام میں گاہک کوفروخت کرتے ہیں۔اگر نیا خریدار جس کو ماربل کی مختلف اقسام اور ٹائل کے بارے میں جانکاری نہیں ہوتی اُسے دوکاندار اچھی کوالٹی کے دام لے کر نچلے درجے کی کوالٹی فرخت کردیتے ہیں اس کے علاوہ ان کا زیادہ تر زور منافع کمانے میں ہوتاہے اسی لئے وہ ماربل کے ناپ میں بھی ہیر پھیر کردیتے ہیں۔پاکستان ویسے تو معدنیات کے ذخائر سے مالامال ہے ماربل جو کے قدرتی طور پر حاصل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی ااو نچی اقسام کا لیبل لگانے کے لئے بیرونِ ملک بھیجاجاتاہے اور وہی ماربل جرمنی یا چائنا کا لیبل لگ کرپاکستان میں دگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
حیدرآباد مکی شاہ روڈکے دونوں اطراف میں ماربل مارکیٹ موجود ہیں جہاں پر حیدرآباد کے رہائشی او ر دوسرے دور دوراز کے علاقوں سے خریداری کے لئے آنے والے لوگ زیادہ تر ماربل کی اعلیٰ اور کم معیار کی کوالٹی سے ناآشنا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ماربل فروخت کرنے والے دوکاندار منافع کے خاطرلوگوں کو دھوکا دیے دیتے ہیں ۔ عاطف میمن کے مطابق پیشہ کوئی بھی ہو اُس میں اونچ نیچ کرنا دوکاندار اپنا کاروبار سمجھتا ہیں۔ عموماً دوکانداروں کا دھیان نفع پرہوتاہے۔دوکاندار اکثر گاہکوں کے ساتھ ماربل کی کوالٹی اور اسکے ناپ میں اُونچ نیچ کر دیتے ہیں۔لہذا ماربل کے خریدار کو ماربل کی مختلف اقسام سے واقفیت ہونی چاہیے ۔
ماربل کا بیماریوں سے تعلق:سیدہ نوال ماربل کی گھسائی اور کٹنگ مشینو ں کی دھول کی وجہ سے اس پیشے سے منسلک افراد مختلف بیماریو ں میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔جس میں ما ر بل کے ذرات کے باعث آنکھ ،سانس اور جلد کی بیماریوں کی مختلف اقسام شامل ہیں۔حیدرآباد میں مکی شاہ روڈ پرطویل عر صے سے ماربل ما رکیٹ قائم ہے۔جہاں پر دن بھر ماربل کی گھسائی اور کٹنگ کی جا تی ہے جس سے ہوا میں ماربل کے ذر ات کے باعث ماحول مکمل طور پر آلودہ ہوجاتا ہے۔وہاں موجود مزدوروں کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے اور گزرنے والے شہری بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
وہاں موجود مزدوروں سے بات کر نے پر پتہ چلا کہ مزدوروں کو کوئی طبی سہولیات مہیا نہیں کی جاتیں ۔جہاں تک مزدوروں کے تحفظ کی بات ہے تو سندھ لیبر ڈویلپمینٹ ڈپارٹمنٹ کے اسے یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہ ہو نے کے برابر ہیں۔
(۶)ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے:
ہم نے جب اس سلسلے میں ڈاکٹر صائمہ اقبال سے بات کی تو انہوں نے ما ربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہاکہ اس سے شدید کھانسی ،بخار،دمہ ،سینے میں درد اور پھیپھڑوں میں انفیکشن ہونے کے امکانات شامل ہیں۔ان سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے ڈاکٹر مدیحہ بلیغ اور ڈاکٹر صائمہ اقبال کا کہنا تھا کہ ورکرز کو اپنا چہرہ ، آنکھیں یا کان بچانے کے لیے ماسک ،چشمہ اور ،نوائز مفلر پہنے چاہییں۔
ڈاکٹر مدیحہ بلیغ کے مطابق سانس کے ساتھ ساتھ ماربل کا غبار اندر لینے سے مزدوروں اور مقامی رہائشیوں میں آنکھ اور گلے کا انفیکشن بھی ہوسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گردوں کے مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ چونکہ ماربل کے غبار کے اندر کیلشیم کاربو نیٹ اور سلیکا کے ذرات پائے جاتے ہیں تو اس سے بچاؤ کے لیے نیبو لائز کرواتے رہناچاہیے اگر ان سب احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جا ئے تو مزید بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
صنعت کیسے چلتی ہے؟ آخری پیرا یہاں پر ڈالیںماربل کی فیکٹری نما کارخانے حیدرآباد مکی شاھ روڈ پر واقع ہیں ۔جہاں ماربل کی کٹائی، گھسائی اور ماربل کو خوبصورت بنانے کے لیے پالش کیاجاتاہے۔چونکہ مختلف کارخانے مکی شاھ روڈ کی دونوں اطراف میں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک لائن میں سجی ان دکانوں کو ماربل مارکیٹ بھی کہاجاتاہے۔ عدنان ماربل فیکٹری کے مالک عثمان بلوچ کے مطابق ان کارخانوں میں نہ صرف ماربل تراشا جاتا ہے بلکہ اسکی فروخت بھی کی جاتی ہے اور ہم کارخانوں کے مالکان ایک دوسرے سے ماربل کی قیمت میں مقابلہ کرتے ہیں اگر کوئی دوکاندار غیرمعیاری کوالٹی کا ماربل ۳۵ روپے فی فٹ فروخت کرتاہے تو دوسرا اُسکے مقابلے میں ۳۰ روپے فی فٹ پر فروخت کرتاہے۔ جب کے منا فع غیر معیاری درجے کے ماربل پر۵ روپے فی فٹ ملتاہے لیکن اعلیٰ کوالٹی کا ماربل جس میں پاکستان کا قیمتی پتھروائٹ ا ور اٹلی سے آنے و الا پتھرگرینائٹ پر۵۰ سے ۷۰ فی فٹ تک منافع ہوتاہے۔پاکستان ماربل اسو سی ایشن کی رپورٹ کے مطابق چین پاکستان سے سب سے زیادہ ماربل کی درآمد کرتا ہے۔۷۵فیصد ماربل پاکستان کاچین درآمد کیاجاتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس پیشے سے وابستہ مزدوروں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ سے زائد ہے۔جن میں سے کچھ مزدور ماربل کی کانوں میں اور کچھ مزدور ماربل کی فیکٹریوں میں گھسائی اور ماربل کو چمکانے کا کام کرتے ہیں۔اسی طرح یہ پیشہ حیدرآباد میں بھی تقریبا چار ہزار سے زائد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ ہے۔
مزدوروں کے حالات:یوں تو ہر سال ہی مزدوروں سے یکجہتی کے طور پر مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ٹی وی سے لے کر تمام ملکی و غیر ملکی فورم پر لمبی لمبی تقریریں کی جاتی ہیں لیکن کسی نے بھی کبھی مزدور کی حالتِ زار کے بارے میں سوچنا گوارا نہیں کیا۔اگر بات کی جائے ماربل انڈسٹری کی جس سے پاکستا ن میں تقریبا ایک لاکھ سے زائد مزدور منسلک ہیں ان کی زندگی کی روداد بھی باقی مزدور طبقے سے مختلف نہیں ۔ ماربل کی کٹنگ اور گھسائی کرنے کی وجہ سے ماربل کے ذرات ان کی آنکھوں اور سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہ دمہ ، سینے میں درد اور پھیپھڑوں میں انفیکشن جیسے عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔لیکن افسوس در افسوس ان ے لئے کسی بھی قسم کے طبی علاج کی سہولیا ت میسر نہیں کی جاتیں ۔ جب تک ان میں ہمت رہتی ہے وہ اسی حالت میں محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتے ہیں اور جب بیماری زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ نڈھال ہو کربسترِمرگ پر پڑ جاتے ہیں، ان کے گھروں میں فاقے ہونے لگتے ہیں لیکن سرکاری سطح
پر ان کے لئے کوئی مدد فراہم نہیں کی جاتی۔
یہ پیراگراف (۶) میں جانا چاہئے جہاں مارک کیا ہےصنعت کیسے چلتی ہے؟ان پتھروں کو ملک کے مختلف علاقوں سے لایا جاتا ہے جن میں مہمند ایجنسی، سوات، مالاکنڈ، خیبر ایجنسی اور بلوچستان کے مختلف علاقے شامل ہیں۔ان کو بڑے بڑے پتھروں اور سلوں کی صورت میں ماربل فیکٹریوں میں لایا جاتاہے۔جہا ں ان کی فنشنگ کے بعد مختلف سائز میں تراشا جاتا ہے۔ پھر ان کو فروخت کے لئے ملک کی دیگر مارکیٹوں میں بھیجا جاتا ہے۔وہاں سے لوگ انہیں اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق خریدتے ہیں۔
key words
Marble industry, Hyderabad, Workers,Media & Communication Studies, University of Sindh, Faisal Rehman, Fazal Hussain, Arham Khan,
Under supervision of Sohail Sangi
We will carry this story in current issue like we have done in the previous issue of Roshni on Transport.
How many labour /workers are engaged in this industry?
Is it exported?
Is this worked carried out at shops or they have factory type locations? if so where? In section of Profit figure given are in rupees?
Answer these questions separately, we will insert them at proper place.
We need some more and good fotos. It will be title story
Also let me know which portion is written by whom.
can u have a brief profile of a worker or any person working in this industry? It is 1750 words, we need at least 600 more words.
If u are doing, do not insert those in this matter.
This part is being sent for editing
حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری اور اس کے مسائل
گروپ میمبران۔
۱۔ فضل حسین 2K17/MC/34
۲۔ ارحم خان2K17/MC/18
۳۔ فیصل رحمٰن2K17/MC/29
۴۔ محمد قاسم 2K17/MC/65
۵۔ سیدہ نوال 2K17/MC/74
۶۔ ثوبیہ اعوان2K17/MC/96
(الف) حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ
(ب) ماربل کی کوالٹی،ٹھیکیداروں سے بات چیت
(ج) مزدوروں کے حالات،تنخواہیں،سہولتیں
(د) منافع کی شرح
(ہ) ماربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی بیماریاں،ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے۔
(الف) حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ:
پاکستان کا شمار دنیا کے چند ممالک میں ہوتا ہے جو ماربل کی پیداوار میں خودکفیل اور سر فہرست ہیں۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنت اتھارتی کی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اندر ماربل،گرینائٹ،اونیکس اور دوسرے عمارتی پتھر موجود ہیں جو بیش قیمتیہیں۔ان کا حجم لگ بھگ ۳۰۰ ارب ٹن ہے ۔یہ دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں ۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنت اتھارتی کے مطابق ماربل کی قسم سنگ مرمر کے پاکستان کے اندر تقریبا۷۰ سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں اور نکالی جاتی ہیں ،اور ۱۰۰ سے زائد رنگ پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔جو کہ
گروپ میمبران۔
۱۔ فضل حسین 2K17/MC/34
۲۔ ارحم خان2K17/MC/18
۳۔ فیصل رحمٰن2K17/MC/29
۴۔ محمد قاسم 2K17/MC/65
۵۔ سیدہ نوال 2K17/MC/74
۶۔ ثوبیہ اعوان2K17/MC/96
(الف) حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ
(ب) ماربل کی کوالٹی،ٹھیکیداروں سے بات چیت
(ج) مزدوروں کے حالات،تنخواہیں،سہولتیں
(د) منافع کی شرح
(ہ) ماربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی بیماریاں،ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے۔
(الف) حیدرآباد کی ماربل انڈسٹری،جائزہ:
پاکستان کا شمار دنیا کے چند ممالک میں ہوتا ہے جو ماربل کی پیداوار میں خودکفیل اور سر فہرست ہیں۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنت اتھارتی کی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے اندر ماربل،گرینائٹ،اونیکس اور دوسرے عمارتی پتھر موجود ہیں جو بیش قیمتیہیں۔ان کا حجم لگ بھگ ۳۰۰ ارب ٹن ہے ۔یہ دنیا کے پانچویں بڑے ذخائر ہیں ۔پاکستان ٹریڈ ڈویلپمنت اتھارتی کے مطابق ماربل کی قسم سنگ مرمر کے پاکستان کے اندر تقریبا۷۰ سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں اور نکالی جاتی ہیں ،اور ۱۰۰ سے زائد رنگ پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔جو کہ
پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت ہوتی ہے۔
اسی طرح سندھ کے دوسرے بڑے شہرحیدرآباد میں بھی ماربل کا کاروبار بھی بہت وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا ہے۔حیدرآباد کے علاقے کچے قلعے کے قریب مکی شاہ روڑ کے دونوں اطراف ماربل کی بہت بڑی مارکیت موجود ہے۔جس میں لگ بھگ ۳۰۰ سے زائد ماربل کی چھوٹی بڑی دوکانیں موجود ہیں۔ان میں سے کچھ لوگ اس کاروبار سے قیام پاکستان سے پہلے کے منسلک ہیں ۔جبکہ زیادہ تر چند دہائیوں سے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔حیدرآباد میں سنگ مرمرِ ،گرانائٹ،سنی گرے،اٹالین ماربل،اوشیانگ،زیبرا ماربل کی فروخت کا مرکز ہے۔
حیدرآباد کے قریب چھوٹے شہر اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ماربل کی خریداری حیدرآباد سے ہی کرتے ہیں۔کیونکہ یہ سندھ کی دوسری بڑی ماربل مارکیٹ ہے۔اس مارکیٹ میں مار بل ملک کے دیگر علاقوں اور دنیا کے کئی شہروں سے لایا جاتا ہے،مگر چائنہ،پشاور ،مردان آتا ہے اس کو حیدرآباد کی مارکیٹ میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس مارکیٹ میں بیک وقت ۶۰ سے زائد اقسام کی دستیاب ہوتی ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۲۰ سے ۲۵ ہزاراسکوائر فٹ ماربل حیدرآباد کی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے ،جو حیدرآباد کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔حیدرآبادکی مارکیٹوں میں ماربل کراچی سے منگوایا جاتا ہے۔حیدرآباد میں ماربل پر کندہ کاری بھی کی جاتی ہے۔ جہاں قبور کی تختیوں سے لے کر نام کی تختیاں،سنگ افتتاح،سنگ بنیاد تیار کیے جاتے ہیں۔
حیدرآباد کے قریب چھوٹے شہر اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ماربل کی خریداری حیدرآباد سے ہی کرتے ہیں۔کیونکہ یہ سندھ کی دوسری بڑی ماربل مارکیٹ ہے۔اس مارکیٹ میں مار بل ملک کے دیگر علاقوں اور دنیا کے کئی شہروں سے لایا جاتا ہے،مگر چائنہ،پشاور ،مردان آتا ہے اس کو حیدرآباد کی مارکیٹ میں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔اس مارکیٹ میں بیک وقت ۶۰ سے زائد اقسام کی دستیاب ہوتی ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر ۲۰ سے ۲۵ ہزاراسکوائر فٹ ماربل حیدرآباد کی مارکیٹ میں فروخت ہوتی ہے ،جو حیدرآباد کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔حیدرآبادکی مارکیٹوں میں ماربل کراچی سے منگوایا جاتا ہے۔حیدرآباد میں ماربل پر کندہ کاری بھی کی جاتی ہے۔ جہاں قبور کی تختیوں سے لے کر نام کی تختیاں،سنگ افتتاح،سنگ بنیاد تیار کیے جاتے ہیں۔
(ب) ماربل کی کوالٹی،ٹھیکیداروں سے بات چیت:
ماربل کی کوالٹی کو ہم اس کے شیڈ،کثافت اوراس کے حجم سے پہچان سکتے ہیں۔ماربل خریدنے سے پہلے اس کی جانچ لازمی ہے۔اعلیٰ کوالٹی کے ماربل کا حجم ۴۰۰ڈیسی میڑہوتا ہے اس کے علاوہ ۲۵۰ڈیسی میٹرکے ماربل عام طور پرگھروں اور عمارتوں کی تزئین و آرائش میں استعمال ہوتے ہیں ۔شہر حیدرآباد کے ٹھیکیدارشکیل انصاری جو شہر کے جانے مانے ٹھکیدار ہیں ان کے مطابق ماربل دو طرح کے ہو تے ہیں ایک سخت ماربل اوردوسرے نرم ماربل ۔ ماربل جتنا سخت ہوگااتنا ہی دلکش اور چمکدار ہوگااور نرم ماربل پانی کو جذب کرتا ہے اس لیے لوگ یہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ اعتبار اور معیارکے مطابق بھی نہیں ہے۔
سب سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل زیارت وائٹ کہلاتا ہے جس کو عام لفظوں سنگ مر مر یا سپریم وائٹ کہلاتا ہیں جس کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے جو تقر یباًٍٍٍ۵۰۰سے ۶۰۰ روپے فی فٹ تک فروخت ہوتاہے۔ہم ٹھیکیدار کسٹمرز کو گھروں میں سنی وائٹ اور سنی گرے لگوانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو خوبصورت،مظبوط ااور چمکدار ہونے کے باوجودکم نر خ پر بھی دستیاب ہوتا ہے۔ کوالٹی کے اعتبار سے ماربل مختلف قیمتوں میں فرو خت ہوتا ہے۔سب سے قیمتی ماربل ۱۲۰۰سے ۱۵۰۰ روپے کی قیمت میں فروخت ہوتا ہے ۔ ماربل کے ساتھ ساتھ لوگ گرینائیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔گرینائیٹ خوبصورتی میں ماربل کے مقابلے منفرد ہوتا ہے۔
ماربل کی کوالٹی کو ہم اس کے شیڈ،کثافت اوراس کے حجم سے پہچان سکتے ہیں۔ماربل خریدنے سے پہلے اس کی جانچ لازمی ہے۔اعلیٰ کوالٹی کے ماربل کا حجم ۴۰۰ڈیسی میڑہوتا ہے اس کے علاوہ ۲۵۰ڈیسی میٹرکے ماربل عام طور پرگھروں اور عمارتوں کی تزئین و آرائش میں استعمال ہوتے ہیں ۔شہر حیدرآباد کے ٹھیکیدارشکیل انصاری جو شہر کے جانے مانے ٹھکیدار ہیں ان کے مطابق ماربل دو طرح کے ہو تے ہیں ایک سخت ماربل اوردوسرے نرم ماربل ۔ ماربل جتنا سخت ہوگااتنا ہی دلکش اور چمکدار ہوگااور نرم ماربل پانی کو جذب کرتا ہے اس لیے لوگ یہ استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں اور یہ اعتبار اور معیارکے مطابق بھی نہیں ہے۔
سب سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل زیارت وائٹ کہلاتا ہے جس کو عام لفظوں سنگ مر مر یا سپریم وائٹ کہلاتا ہیں جس کی قیمت سب سے زیادہ ہوتی ہے جو تقر یباًٍٍٍ۵۰۰سے ۶۰۰ روپے فی فٹ تک فروخت ہوتاہے۔ہم ٹھیکیدار کسٹمرز کو گھروں میں سنی وائٹ اور سنی گرے لگوانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جو خوبصورت،مظبوط ااور چمکدار ہونے کے باوجودکم نر خ پر بھی دستیاب ہوتا ہے۔ کوالٹی کے اعتبار سے ماربل مختلف قیمتوں میں فرو خت ہوتا ہے۔سب سے قیمتی ماربل ۱۲۰۰سے ۱۵۰۰ روپے کی قیمت میں فروخت ہوتا ہے ۔ ماربل کے ساتھ ساتھ لوگ گرینائیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔گرینائیٹ خوبصورتی میں ماربل کے مقابلے منفرد ہوتا ہے۔
ج) مزدوروں کے حالات،تنخواہیں،سہولتیں:
ماربل کی فیکٹری نماں کارخانے حیدرآباد مکی شاھ روڈ پر واقع ہیں ۔جہاں ماربل کی کٹائی، گھسائی اور ماربل کو خوبصورت بنانے کے لیے پولیش کیاجاتاہے۔چونکہ مختلف کارخانے مکی شاھ روڈ کی دونوں اطراف میں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک لائن میں ساجی ان دوکانوں کو ماربل مارکیٹ بھی کہاجاتاہے۔ عدنان ماربل فیکٹری کے اونر عثمان بلوچ کے مطابق ان کارخانوں میں نہ صرف ماربل تراشا جاتا ہے بلکہ اسکی فروخت بھی کی جاتی ہے اور ہم کارخانوں کے ملکان ایک دوسرے سے ماربل کی قیمت میں مقابلہ کرتے ہیں اگر کوئی دوکاندار نیچلی کوالٹی کا مابل ۳۵ روپے فی فیٹ فروخت کرتاہے تو دوسرا اُسکے مقابلے میں ۳۰ روپے فی فیٹ پر فروخت کردیتا ہے۔ جب کے منا فع نیچلے درجے کے ماربل۵ روپے فی فیٹ ملتاہے لیکن اعلیٰ کوالٹی کا ماربل جس میں پاکستان کا قیمتی پتھروائیٹ ا ور اٹلی سے آنے و الا پتھرگہرنائٹ پر۵۰ سے ۷۰ فی فیٹ تک منافع ہوتاہے۔پاکستان ماربل اسوسیشن کی رپورٹ کے مطابق چین پاکستان سے سب سے زیادہ ماربل کی درآمد کرتا ہے۔۷۵فیصد ماربل پاکستان کاچین برآمد کیاجاتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس پیشے سے وابستہ مزدوروں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ (100000)سے زائد ہے۔جن میں سے کچھ مزدور ماربل کی کانوں میں اور کچھ مزدور ماربل کی فیکٹریوں میں گھسائی اور ماربل کو چمکانے کا کام کرتے ہیں۔اسی طرح یہ پیشے حیدرآباد میں بھی تقریبا چار ہزار سے زائد لوگوں کے روزگار کا زریعہ ہے۔
پاکستان کے علاقے شمال مغرب معدنیات سے مالامال ہے۔بالخصوص فاٹا میں ماربل کے پہاڑ واسیع تعداد میں موجودہیں۔پاکستان کے پہاڑوں سے ماربل کاٹ کر اندرونِ ملک بھیجا جاتاہے پاکستان کے صوبوں اور شہروں میں فروخت کیاجاتاہے۔زیادہ تر ماربل پیشاور سے کراچی منتقل کیاجاتاہے۔جہاں ماربل کی درست طریقے سے تراشا جاتاہے پھر کراچی سے سندھ کے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی فروخت کے لیے لایاجاتاہے۔بات یہی ختم نہیں ہوتی پہاڑ کی کٹائی سے ماربل کی خوبصورت نقش ونگاری تک،کڑی دھوپ سے ماربل کی دھول تک،پہاڑ سے ایک بے جان پتھرکو قیمتی پتھر بنانے اور گھروں کی زینت بنانے تک جو شخص دن رات کام کرتا ہے وہ صرف مزدور ہی کہلاتاہے۔
ماربل کی فیکٹری نماں کارخانے حیدرآباد مکی شاھ روڈ پر واقع ہیں ۔جہاں ماربل کی کٹائی، گھسائی اور ماربل کو خوبصورت بنانے کے لیے پولیش کیاجاتاہے۔چونکہ مختلف کارخانے مکی شاھ روڈ کی دونوں اطراف میں واقع ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک لائن میں ساجی ان دوکانوں کو ماربل مارکیٹ بھی کہاجاتاہے۔ عدنان ماربل فیکٹری کے اونر عثمان بلوچ کے مطابق ان کارخانوں میں نہ صرف ماربل تراشا جاتا ہے بلکہ اسکی فروخت بھی کی جاتی ہے اور ہم کارخانوں کے ملکان ایک دوسرے سے ماربل کی قیمت میں مقابلہ کرتے ہیں اگر کوئی دوکاندار نیچلی کوالٹی کا مابل ۳۵ روپے فی فیٹ فروخت کرتاہے تو دوسرا اُسکے مقابلے میں ۳۰ روپے فی فیٹ پر فروخت کردیتا ہے۔ جب کے منا فع نیچلے درجے کے ماربل۵ روپے فی فیٹ ملتاہے لیکن اعلیٰ کوالٹی کا ماربل جس میں پاکستان کا قیمتی پتھروائیٹ ا ور اٹلی سے آنے و الا پتھرگہرنائٹ پر۵۰ سے ۷۰ فی فیٹ تک منافع ہوتاہے۔پاکستان ماربل اسوسیشن کی رپورٹ کے مطابق چین پاکستان سے سب سے زیادہ ماربل کی درآمد کرتا ہے۔۷۵فیصد ماربل پاکستان کاچین برآمد کیاجاتاہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس پیشے سے وابستہ مزدوروں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ (100000)سے زائد ہے۔جن میں سے کچھ مزدور ماربل کی کانوں میں اور کچھ مزدور ماربل کی فیکٹریوں میں گھسائی اور ماربل کو چمکانے کا کام کرتے ہیں۔اسی طرح یہ پیشے حیدرآباد میں بھی تقریبا چار ہزار سے زائد لوگوں کے روزگار کا زریعہ ہے۔
پاکستان کے علاقے شمال مغرب معدنیات سے مالامال ہے۔بالخصوص فاٹا میں ماربل کے پہاڑ واسیع تعداد میں موجودہیں۔پاکستان کے پہاڑوں سے ماربل کاٹ کر اندرونِ ملک بھیجا جاتاہے پاکستان کے صوبوں اور شہروں میں فروخت کیاجاتاہے۔زیادہ تر ماربل پیشاور سے کراچی منتقل کیاجاتاہے۔جہاں ماربل کی درست طریقے سے تراشا جاتاہے پھر کراچی سے سندھ کے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی فروخت کے لیے لایاجاتاہے۔بات یہی ختم نہیں ہوتی پہاڑ کی کٹائی سے ماربل کی خوبصورت نقش ونگاری تک،کڑی دھوپ سے ماربل کی دھول تک،پہاڑ سے ایک بے جان پتھرکو قیمتی پتھر بنانے اور گھروں کی زینت بنانے تک جو شخص دن رات کام کرتا ہے وہ صرف مزدور ہی کہلاتاہے۔
سنگِ مرمر جوکے قدرتی طور پر ہمیں حاصل ہوجاتاہے۔لیکن تراشتے وقت احتیات کرنا بھی ضروری ہے۔کیونکہ ماربل کے زراعت سانس کے زریعے جسم کے اندر جانے سے مختلف امراض پیداہوتے ہیں۔ماربل کی کٹائی سے تراشنے تک جو دھول اُڑتی ہے وہ آنکھوں پر اثر کرتی ہے اسکے علاوہ اس دھول مٹی سے سانس کے امراض لاحق ہوتے ہیں ۔
حیدرآباد میں ماربل ماکیٹ سے منسلک مزدورں کا کہناہے کہ ہمیں تنخواہ صرف زندگی گزارنے کے لیے دی جاتی ہے۔ہماری اپنی محنت کی اجرت نہیں ہوتی ۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم ۲۵۰ روپے روز کی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ۔اگر کسی مزدور کی ماربل تراشتے وقت حالت خراب ہوجائے یا کسی مزدور کی موت واقعی ہوجائے تو اس غریب کے بچوں کی کفالت کی زمے داری کوئی اوٹھانے کی حامی نہیں بھر تا ۔
ماربل کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدور عابد علی کے مطابق جن کی عمر ۴۰ برس تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ماربل کی فیکٹری میں ۱۵ سال سے کام کررہاہوں میرے چھوٹے بچے بھی ہیں ۳۵ سال کی عمر سے ماربل کی مختلف اقسام کے نقش و نگاری میں کام کرنے اور ماربل کو خوبصورتی سے تراشنے والا آج تک میں مزدور ہی کہلاتاہوں۔اپنی غریبی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب میرے بچے رات دیر تک میرا انتظار کرتے ہیں کہ شاید میں ان کی پسند کی چیز لے کر گھر میں داخل ہونگالیکن ایسا نہیں ہوتا۔ روز کی دیہاڑی پر کام کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میرے ۳۰۰۰ روپے ہفتہ میں ہفتے کا راشن بھی مشکل سے پورا ہوتاہے یہ وجہ ہے کہ میں ایک روز بھی بیماری کے باعث کام نہ کروں تو میرے گھر میں فاکا کے حالت پیداہوجاتے ہیں۔مزدوروں کے لئے سہولیات فراہم کرنے اور حالتِ زار کو بہتر بنانے میں حکومت کوئی ٹھوس اقدام کرتی نظر نہیں آتی ۔ہم مزدور سے یکجہتی کا دن تو مناتے ہیں لیکن افسوس تلخ حقیقت ہے ۔مزدور سے یکجہتی کے دن ہی مزدور بھوکا سوتاہے۔
(د) منافع کی شرح:
آج کے دور میں ہر شخص اپنے منافع کے لئے محنت مزدوری کرتا رہتا ہے لیکن کچھ لوگ زیادہ منافعے کے لئے حدسے زیادہ بڑہ جاتے ہیں دوکاندار ہو یا تاجرہوفروخت کی جانے والی چیزواں میں ہیر پھیر کرہی دیتے ہیں پر ہرشخص کوہر چیز کی قیمت کا پتانہیں ہوتا اُسی سے اچھا منافع کمالیتے ہیں۔
ماربل انڈسٹری سے ماربل منگوایا جاتا ہے خاص کر کے پاکستان کا صوبہ خیبرپختون خان جہاں قصیر تعداد میں ماربل کے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں سے نکلنے والے ماربل کی قیمتیں یہ ہوتی ہیں ۔ ٹراوایرا ۳۵،بوٹی سینارائیل۳۴،زیارت وائٹ۷۵خان بادشاہ۷۲ اعلیٰ میں سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل گہرے نائٹ ہے۳۵۰ سے لے
حیدرآباد میں ماربل ماکیٹ سے منسلک مزدورں کا کہناہے کہ ہمیں تنخواہ صرف زندگی گزارنے کے لیے دی جاتی ہے۔ہماری اپنی محنت کی اجرت نہیں ہوتی ۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم ۲۵۰ روپے روز کی دیہاڑی پر کام کرتے ہیں اس کے علاوہ ہمیں حکومت کی طرف سے کسی قسم کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتی ۔اگر کسی مزدور کی ماربل تراشتے وقت حالت خراب ہوجائے یا کسی مزدور کی موت واقعی ہوجائے تو اس غریب کے بچوں کی کفالت کی زمے داری کوئی اوٹھانے کی حامی نہیں بھر تا ۔
ماربل کی فیکٹری میں کام کرنے والے ایک مزدور عابد علی کے مطابق جن کی عمر ۴۰ برس تھی ان کا کہنا تھا کہ میں ماربل کی فیکٹری میں ۱۵ سال سے کام کررہاہوں میرے چھوٹے بچے بھی ہیں ۳۵ سال کی عمر سے ماربل کی مختلف اقسام کے نقش و نگاری میں کام کرنے اور ماربل کو خوبصورتی سے تراشنے والا آج تک میں مزدور ہی کہلاتاہوں۔اپنی غریبی کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب میرے بچے رات دیر تک میرا انتظار کرتے ہیں کہ شاید میں ان کی پسند کی چیز لے کر گھر میں داخل ہونگالیکن ایسا نہیں ہوتا۔ روز کی دیہاڑی پر کام کرنا میری مجبوری ہے کیونکہ میرے ۳۰۰۰ روپے ہفتہ میں ہفتے کا راشن بھی مشکل سے پورا ہوتاہے یہ وجہ ہے کہ میں ایک روز بھی بیماری کے باعث کام نہ کروں تو میرے گھر میں فاکا کے حالت پیداہوجاتے ہیں۔مزدوروں کے لئے سہولیات فراہم کرنے اور حالتِ زار کو بہتر بنانے میں حکومت کوئی ٹھوس اقدام کرتی نظر نہیں آتی ۔ہم مزدور سے یکجہتی کا دن تو مناتے ہیں لیکن افسوس تلخ حقیقت ہے ۔مزدور سے یکجہتی کے دن ہی مزدور بھوکا سوتاہے۔
(د) منافع کی شرح:
آج کے دور میں ہر شخص اپنے منافع کے لئے محنت مزدوری کرتا رہتا ہے لیکن کچھ لوگ زیادہ منافعے کے لئے حدسے زیادہ بڑہ جاتے ہیں دوکاندار ہو یا تاجرہوفروخت کی جانے والی چیزواں میں ہیر پھیر کرہی دیتے ہیں پر ہرشخص کوہر چیز کی قیمت کا پتانہیں ہوتا اُسی سے اچھا منافع کمالیتے ہیں۔
ماربل انڈسٹری سے ماربل منگوایا جاتا ہے خاص کر کے پاکستان کا صوبہ خیبرپختون خان جہاں قصیر تعداد میں ماربل کے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں سے نکلنے والے ماربل کی قیمتیں یہ ہوتی ہیں ۔ ٹراوایرا ۳۵،بوٹی سینارائیل۳۴،زیارت وائٹ۷۵خان بادشاہ۷۲ اعلیٰ میں سے اعلیٰ کوالٹی کا ماربل گہرے نائٹ ہے۳۵۰ سے لے
کر ۱۰۰۰ فی فٹ پر دوکاندار ہول سیل کے ریٹ پر خرید تے ہیں اور دگنے دام میں گاہک کوفروخت کرتے ہیں۔اگر نیا خریدار جس کو ماربل کی مختلف اقسام اور ٹائیل کے بارے میں جان کاری نہیں ہوتی اُسے دوکاندار اچھی کوالٹی کے دام لے کر نیچلے درجے کی کوالٹی فرخت کردیتے ہیں اس کے علاوہ ان کا زیادہ تر زور منافع کمانے میں ہوتاہے اسی لئے وہ ماربل کے ناپ میں بھی ہیر پھیر کردیتے ہیں۔پاکستان ویسے تو معدنیات کے زخایر سے مالامال ہے ماربل جو کے قدرتی طور پر حاصل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی اُ نچی اقسام کا لیبل لگانے کے لئے بیرونے ممالک بھیجاجاتاہے اور وہی ماربل جرمنی یا چائنا کا لیبل لگ کرپاکستان میں دوگنی قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے۔
حیدرآباد مکی شاہ روڈکے دونوں اطراف میں ماربل مارکیٹ موجود ہیں جہاں پر حیدرآباد کے رہائشی او ر دوسرے دور دوراز کے علاقوں سے خریدکے لئے آنے والے لوگ زیادہ تر ماربل کی اعلیٰ اور نیچلی کوالٹی سے ناآشنا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ماربل فروخت کرنے والے دوکاندار منافع کے خاطرلوگوں کو دھوکا دیدتے ہیں ۔
عاطف میمن کے مطابق پیشہ کوئی بھی ہو اُس میں اونچ نیچ کرنا دوکاندار اپنا کاروبار سمجھتا ہیں۔ عمومن دوکانداروں کا دہان نفع پرہوتاہے۔دوکاندار اکثر گاہکوں کے ساتھ ماربل کی کوالٹی اور اسکے ناپ میں
عاطف میمن کے مطابق پیشہ کوئی بھی ہو اُس میں اونچ نیچ کرنا دوکاندار اپنا کاروبار سمجھتا ہیں۔ عمومن دوکانداروں کا دہان نفع پرہوتاہے۔دوکاندار اکثر گاہکوں کے ساتھ ماربل کی کوالٹی اور اسکے ناپ میں
اُنچ نیچ کر دتے ہیں۔ لحٰاظ ماربل کی خریدار کو ماربل کی مختلف اقسام کی واقفیت ہونی چاہیے ۔
(ہ)ماربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی بیماریاں،ڈاکٹر اور ماہرین کی رائے۔
ماربل کی گھسائی اور کٹنگ مشینو ں کی وجہ سے اس پیشے سے منسلک افراد مختلف بیماریو ں میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔جس میں ما ر بل کے ذرات کے باعث آنکھ ،سانس اور جلد کی بیماریوں کی مختلف اقسام شامل ہیں۔حیدرآباد میں مکی شاہ روڈ پرطویل عر صے سے ماربل ما رکیٹ قائم ہے۔جہاں پر دن بھر ماربل کی گھسائی اور کٹنگ کی جا تی ہے جس سے ہوا میں ماربل کے ذر ات کے باعث ماحول مکمل طور پر آلودہ ہوجاتا ہے۔وہاں موجود مزدوروں کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے اور گزرنے والے شہری بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
وہاں موجود مزدوروں سے بات کر نے پر پتہ چلا کہ مزدوروں کو کوئی طبی سہولیات نہیں ملتی ۔جہاں تک مزدوروں کے تحفظ کی بات ہے تو سندھ لیبرڈپارٹمنٹ نے اسے یقینی بنانے کے لیے اقدامات ناہو نے کے برابر ہیں۔
ہم نے جب اس سلسلے میں ڈاکٹر صائمہ اقبال سے بات کی تو انھوں نے ما ربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں مثلاً شدید کھانسی ،بخار،دمہ ،سینے میں درد اور پھیپھڑوں میں انفیکشن شامل ہیں۔ان سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔ڈاکٹر مدیحہ بلیغ اور ڈاکٹر صائمہ اقبالکا کہنا تھا کہ ورکرز کو اپنا چہرہ ، آنکھیں یا کان بچانے کے لیے ماسک ،چشمہ ،نوائز مفلر پہنے چاہیءں۔
ڈاکٹر مدیحہ بلیغ کے مطابق سانس کے ساتھ ساتھ ماربل کا غبار اندر لینے کے سے مزدوروں اور مقامی رہائشیوں میں آنکھ اور گلے کا انفیکشن بھی ہوسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گردوں کے مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ چونکہ ماربل کے غبار کے اندر کیلشیم کاربو نیٹ اور سلیکا کے ذرات پائے جاتے ہیں تو اس سے بچاؤ کے لیے نیبو لائز کرواتے رہناچاہیے اگر ان سب احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جا ئے تو مزید بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
پروفائل:
اصغر عباسی کے محنت کش والدین کی خواہش پوری نہیں ہوئی
جس شخص کا ذکر ہم کرنے لگے ہیں و ہ کوئی معروف شخصیت نہیں ،ایک مزدور ہے جو ماربل فیکٹری میں کام کرتا ہے۔علی اصغر کا تعلق محنت کش گھرانے سے ہے اور وہ حیدرآباد شہر کا رہائشی ہے۔علی اصغر اپنے گھر کا واحد کفیل اور ۵ بچوں کا باپ بھی ہے۔علی اصغر کے والد شو گر مل میں ملازمت کر تے تھے۔والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر اچھا انسان بنے ۔اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ جس طرح مزدوری کرتے ہیں ان کا بیٹا بھی ایسا ہی کرے اس لیے بیٹے کو آگے پڑھانے کے لئے اس کے والد شوگر مل کے بعد چھوٹا موٹا کام کاج کر لیتے تھے ۔ سستا زمانہ تھا۔
جب علی اصغر۱۲ سال کا ہوا تو والد کا انتقال ہو گیابہنوں اور ماں کے لئے اب یہ ہی سہارارہ گیا۔پڑھائی چھوٹ گئی پھر ایک دوست کے مشورے پر یہ ماربل کے کام کی طرف آگیا۔اور آج اسے کام میں تقریباًدود ہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ بقول اس کے یہ کام بڑی محنت کا کام ہے ۔ماربل کی گھسائی اور کٹائی کے دوران جو خاک اور ذرات ہوا میں اڑتے ہیں اس کی وجہ اسے پھیپھڑوں کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔آنکھیں بھی کمزور ہو گئیں ۲۵ سال اس صنعت کو دینے کے بعد بھی اسے کوئی علاج معالجے کی کو ئی سہولت نہیں ہے ۔اسی قلیل آمدنی میں اسے اپنے گھر اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کر نی ہوتی ہے ۔یہ علی اصغر ہی نہیں بلکہ دوسرے مزدور جو اس ماربل کے کام سے وابستہ ہیں وہ بھی ان ہی مسا ئل سے دوچار ہیں۔علی اصغر کے کہنے کے مطابق ہمیں کوئی فیکڑی مالکان یا سرکاری کوئی سرپرستی حاصل نہیں۔
لطیف آباد اور شہر حیدرآباد کے سنگم پر واقع ان ۳۰۰ سے ۳۵۰ دوکانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کوئی بینیفٹ نہیں۔صرف بڑے کارخانے ہی ملازمین کو میڈیکل اور دوسری سہولتیں مہیا کرتے ہیں مگر اتنی بڑ ی تعداد میں ماربلز کاکام کرنے والے مزدور اپنی زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے یہ آلودگی والا کام کرنے پر مجبور ہے۔
علی اصغر اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جنھیں وہ اپنے معاشرے میں عزت اور وقار دلانے کے لئے دن رات اس کام میں مصروف ہے۔
Marble industry of Hyderabad - Investigative Report
ماربل کی گھسائی اور کٹنگ مشینو ں کی وجہ سے اس پیشے سے منسلک افراد مختلف بیماریو ں میں مبتلا ہو جا تے ہیں۔جس میں ما ر بل کے ذرات کے باعث آنکھ ،سانس اور جلد کی بیماریوں کی مختلف اقسام شامل ہیں۔حیدرآباد میں مکی شاہ روڈ پرطویل عر صے سے ماربل ما رکیٹ قائم ہے۔جہاں پر دن بھر ماربل کی گھسائی اور کٹنگ کی جا تی ہے جس سے ہوا میں ماربل کے ذر ات کے باعث ماحول مکمل طور پر آلودہ ہوجاتا ہے۔وہاں موجود مزدوروں کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے اور گزرنے والے شہری بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔
وہاں موجود مزدوروں سے بات کر نے پر پتہ چلا کہ مزدوروں کو کوئی طبی سہولیات نہیں ملتی ۔جہاں تک مزدوروں کے تحفظ کی بات ہے تو سندھ لیبرڈپارٹمنٹ نے اسے یقینی بنانے کے لیے اقدامات ناہو نے کے برابر ہیں۔
ہم نے جب اس سلسلے میں ڈاکٹر صائمہ اقبال سے بات کی تو انھوں نے ما ربل کی گھسائی سے پیدا ہونے والی مختلف بیماریوں مثلاً شدید کھانسی ،بخار،دمہ ،سینے میں درد اور پھیپھڑوں میں انفیکشن شامل ہیں۔ان سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر بتائی ہیں۔ڈاکٹر مدیحہ بلیغ اور ڈاکٹر صائمہ اقبالکا کہنا تھا کہ ورکرز کو اپنا چہرہ ، آنکھیں یا کان بچانے کے لیے ماسک ،چشمہ ،نوائز مفلر پہنے چاہیءں۔
ڈاکٹر مدیحہ بلیغ کے مطابق سانس کے ساتھ ساتھ ماربل کا غبار اندر لینے کے سے مزدوروں اور مقامی رہائشیوں میں آنکھ اور گلے کا انفیکشن بھی ہوسکتا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ یہ گردوں کے مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ چونکہ ماربل کے غبار کے اندر کیلشیم کاربو نیٹ اور سلیکا کے ذرات پائے جاتے ہیں تو اس سے بچاؤ کے لیے نیبو لائز کرواتے رہناچاہیے اگر ان سب احتیاطی تدابیر کو اختیار کیا جا ئے تو مزید بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
پروفائل:
اصغر عباسی کے محنت کش والدین کی خواہش پوری نہیں ہوئی
جس شخص کا ذکر ہم کرنے لگے ہیں و ہ کوئی معروف شخصیت نہیں ،ایک مزدور ہے جو ماربل فیکٹری میں کام کرتا ہے۔علی اصغر کا تعلق محنت کش گھرانے سے ہے اور وہ حیدرآباد شہر کا رہائشی ہے۔علی اصغر اپنے گھر کا واحد کفیل اور ۵ بچوں کا باپ بھی ہے۔علی اصغر کے والد شو گر مل میں ملازمت کر تے تھے۔والدین کا اکلوتا ہونے کی وجہ سے ان کی شدید خواہش تھی کہ بیٹا پڑھ لکھ کر اچھا انسان بنے ۔اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ جس طرح مزدوری کرتے ہیں ان کا بیٹا بھی ایسا ہی کرے اس لیے بیٹے کو آگے پڑھانے کے لئے اس کے والد شوگر مل کے بعد چھوٹا موٹا کام کاج کر لیتے تھے ۔ سستا زمانہ تھا۔
جب علی اصغر۱۲ سال کا ہوا تو والد کا انتقال ہو گیابہنوں اور ماں کے لئے اب یہ ہی سہارارہ گیا۔پڑھائی چھوٹ گئی پھر ایک دوست کے مشورے پر یہ ماربل کے کام کی طرف آگیا۔اور آج اسے کام میں تقریباًدود ہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ بقول اس کے یہ کام بڑی محنت کا کام ہے ۔ماربل کی گھسائی اور کٹائی کے دوران جو خاک اور ذرات ہوا میں اڑتے ہیں اس کی وجہ اسے پھیپھڑوں کا عارضہ لاحق ہو گیا ہے۔آنکھیں بھی کمزور ہو گئیں ۲۵ سال اس صنعت کو دینے کے بعد بھی اسے کوئی علاج معالجے کی کو ئی سہولت نہیں ہے ۔اسی قلیل آمدنی میں اسے اپنے گھر اور بیوی بچوں کی دیکھ بھال کر نی ہوتی ہے ۔یہ علی اصغر ہی نہیں بلکہ دوسرے مزدور جو اس ماربل کے کام سے وابستہ ہیں وہ بھی ان ہی مسا ئل سے دوچار ہیں۔علی اصغر کے کہنے کے مطابق ہمیں کوئی فیکڑی مالکان یا سرکاری کوئی سرپرستی حاصل نہیں۔
لطیف آباد اور شہر حیدرآباد کے سنگم پر واقع ان ۳۰۰ سے ۳۵۰ دوکانوں پر کام کرنے والے مزدوروں کے لئے کوئی بینیفٹ نہیں۔صرف بڑے کارخانے ہی ملازمین کو میڈیکل اور دوسری سہولتیں مہیا کرتے ہیں مگر اتنی بڑ ی تعداد میں ماربلز کاکام کرنے والے مزدور اپنی زندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لئے یہ آلودگی والا کام کرنے پر مجبور ہے۔
علی اصغر اپنے والد کی طرح اپنے بچوں کو اپنی استطاعت کے مطابق تعلیم و تربیت دینے کو اپنا نصب العین سمجھتا ہے اس کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جنھیں وہ اپنے معاشرے میں عزت اور وقار دلانے کے لئے دن رات اس کام میں مصروف ہے۔
Marble industry of Hyderabad - Investigative Report
Comments
Post a Comment