Water crisis in Hyd Investigative Report
This topic was already covered by ur senior batch. I have posted link on Fb group.
Nahiha group: Water in Hyd: Nabeeha - 71, Waleed -105, Umul Banin – 108, Mubabeeha 65, Hamza Shaik 62.
No mention, who is group leader Intro is too long, not attractive, catchy,
We are more interested in water purification and filter plants condition, situation in Hyderabad,
Tanker Mafia portion is too weak, no figures facts
Diseases portion does not mention situation in Hyderabad. There have been some incidents, some reports about diseases in Hyd, which should have been referred or talked with some senior doctors to give situation about water borne diseases in Hyd.
Proper quotes, attributions and reference of reports are missing
تحقیقاتی رپورٹ:
حیدرآباد میں پانی کا بڑھتا بحران:
نگران ٹیچر: سر سہیل سانگی
گروپ ممبران:
۱۔ولیدبن خالد 2K17/MC/105 (الف)تعارف، پانی کے مسائل
۲۔نبیہا احمد 2K17/MC/71 (ب)فلٹر پلانٹ اور فلٹریشن کا عمل
۳۔امُ البنین108 2K17/MC/ (ج)ٹینکر مافیہ
۴۔مصبیحہ امتیاز 2K17/MC/68 (و) آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں
۵۔حمزہ شیخ 2K17/MC/62 (ہ)واسا سے بات چیت
تعارف:
ولید بن خالد
پانی کوانسانی زندگی کی سب سے اہم ضرورت، کہا جاتا ہے کہ ’پانی نہیں تو زندگی نہیں ‘ جس طرح زندہ رہنے کہ لئے آکسیجن ضروری ہے بلکل اس ہی طرح پانی بھی ضروری ہے۔پانی صبر اور ایثار کی علامت ہے۔آپ نے اپنے بزرگوں سے سُن رکھا ہوگا کہ اپنے مزاج میں پانی کی طرح ٹہراؤ پیدا کرو۔پانی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انسان کے جسم کا 60فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے۔اور روحِ ارضی کا بھی محض 30فیصد حصہ خشکی پر باقی 70فیصد پانی پر مشتمل ہے۔اگر کیمیائی ساخت کی بات کی جائے تو پانی 2ہائڈروجن اور 1آکسیجن کے ایٹمز سے مل کر بنتا ہے جسے ہم (H2O)کہتے ہیں۔
دنیا میں پانی اتنی زیادہ مقدارمیں ہونے کے باوجود بھی دنیامیں پانی کی قِلت عروج پر ہے اس کی بنیادی وجہ اس پانی کا قابل ِ استعمال نہ ہونا ہے کیونکہ یہ پانی سمندر کا ہے اور قابلِ استعمال نہیں ہے۔ پینے کا پانی ہمیں دریا، ندی نالوں، جھیلوں، آبشاروں اور گلیشئرز سے حاصل ہو تا ہے۔ جو کہ بڑھتی آبادی کے سبب تیزی سے کم ہورہا ہے جو کہ انسانی زندگی کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔جس کی وجہ سے اقوامِ متحدہ سے لے کر تمام عالمی و بین الاقوامی تنظیمیں تشویش کا شکار ہیں۔ مارچ 2018میں (IMF)کی رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کی اس دوڑ میں ہمارا ملک پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جہاں تقریباً 21millionلوگ صاف پانی سے محروم ہیں۔پاکستان کے مختلف شہروں کو پانی کے مختلف مسائل کا سامناہے مگر صوبہ سندھ کے دو بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد میں پانی کی صورتحال دن بہ دن بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے جس میں کراچی کا پہلا اور حیدرآباد کا دوسرا نمبر آتا ہے۔
حیدرآباد میں پانی کے مسائل:
حیدرآباد جو کہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباً 1.7ملین ہے جو کہ دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔مگر اس کے باجود پانی کے بحران کا شکار ہے۔حیدر آباد میں پانی کی صورتحال کراچی کے مقابلے خاصہ بہتر اس لئے ہے کہ یہاں پانی آتا ضرور ہے مگر اسے استعمال کرنا اپنی جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ حیدرآباد کے مختلف علاقے جن میں لطیف آباد، قاسم آباد، ریشم گلی، لیاقت کالونی، کوہسار شامل ہیں صاف پانی کی کمی کا شکار ہیں یہاں مختلف اوقات پر پانی کی فراہمی کی جاتی ہے کہیں روز پانی آتا ہے تو کہیں ایک دو دن چھوڑ کے،کہیں دن میں پانی آتا ہے تو کہیں آدھی رات میں اس کے ساتھ ساتھ کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں پانی کا نام و نشان نہیں اور عوام اپنے روز مرہ کے کاموں کیلئے مہنگے مہنگے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں۔کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پانی اس قدر صاف آتا ہے کہ لوگ پینے میں بھی استعمال کر سکتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ علاقوں میں استعمال کے لائق بھی پانی نہیں آتا۔تا حال یہ سنگین مسئلہ سرکاری عہدیداران کی عدم توجہی کا شکار ہے جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر علاقے میں پانی کا کاروبار عروج پر ہے کہیں ٹینکر مافیہ کا زور ہے تو کہیں پیوریفیکیشن پلانٹ کے نام پر عوام کی صحت سے کھیلا جا رہا ہے۔
(ب) فلٹر پلانٹز:
نبیہا احمد
حیدرآبا د میں اس وقت تقریبا چار فلٹر پلانٹ موجود ہیں جن میں جام شورو اور لطیف آباد نمبر ۴، ہالاناکہ، اور پریٹ آباد کے فلٹر پلانٹ شامل ہیں۔ ان واٹرپلانٹز کے ہونے کے باوجود حیدرآباد کی عوام صاف پانی سے محروم ہے کیونکہ ان فلٹر پلانٹز سے گھروں میں آنے والا پانی نہ صرف گندا بلکہ زہریلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔جس کی بنیادی وجہ پانی کی لائنوں کی ٹوٹ پھوٹ، زنگ آلود ہونا اور سیوریج کی لائنوں میں پانی کی لائنوں کا مل جانا ہے۔ یوں تو ہر کوئی پینے کے لئے پانی اپنی سہولت کے مطابق صاف کر کے استعمال کرتا ہے کوئی پانی ابال کر استعمال کرتا ہے، تو کوئی پھٹکری کے ذریعے پانی صاف کرکے، کوئی زیر زمین پانی کو بور کر کے، یا پھر بازار سے خرید کر جو کہ سب سے زیادہ عام ہے۔ ہر محلے اور گلی میں آپ کو پیوریفکیشن پلانٹ ضرور ملے گاجس سے پورا محلہ پانی خرید کر پیتا ہے یہ پانی گیلن کی صورت میں دستیاب ہوتا ہے جس کی قیمت ۰۲ سے ۰۵ روپے فی گیلن ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے یہ کام ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
پیوریفکیشن پلانٹ اور پانی صاف کرنے کا عمل:
عموما دو طرح کے پلانٹزنجی طور پر پانی صاف کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں
۱۔فلٹر پلانٹ
۲۔آ ر او پلانٹ
۱۔فلٹر پلانٹ: یہ پلانٹ پانی کو صاف کر کے ہر طرح کی آلودگی اور گندگی سے پاک اور گدلا پن دور کرتا ہے۔ یہ پلانٹ عام طور پر ہر محلے میں پایا جاتا ہے۔جوکہ دیکھنے میں صاف شفاف توہوتا ہے لیکن اس میں موجود تمام غلاظتیں صاف نہیں ہوتیں۔
۲۔ آراو واٹر پلانٹ: یہ پانی کی دنیا کی اب تک کی جدید ترین اور کچھ مہنگی ٹیکنا لوجی ہے۔اس میں تین مرحلوں سے گزار کر پانی کو صاف کیا جاتا ہے ہیں۔ اس عمل کہ پہلے مرحلے میں پانی کو ممبرین کے ذریعے ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزولو سولڈ) جو کہ سالٹز ہوتے ہیں انہیں زیرو پرلایا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں اس میں ڈبلیوایچ او کے متعین کردہ مقدار کے مطابق منرلز ملائے جاتے ہیں جن میں کیلشم، میگنیشم، سوڈیم اور پوٹیشیم وغیرہ شامل ہیں۔اس کے بعد آخری مرحلے میں یو وی لائٹ کے ذریعے اس میں موجود بیکٹیریا کو ختم کیا جاتا ہے اور پھر لیب میں ٹیسٹ کرنے کے بعد اسے بیچنے کے لئے گیلنوں میں بھر دیا جاتا ہے اور یوں یہ ہم عوام تک پہنچتا ہے۔
ٹینکر مافیہ:
ام البنین
حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں جب استعمال کا پانی کئی کئی دن ناپیدہو جاتا ہے تب عوام ٹینکرز کا رخ کرتے ہے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹینکر مافیا سر گرم ہوجاتا ہے اور ٹینکر من مانی قیمتوں پرفروخت کیا جاتا ہے کیونکہ اسے خریدنے کے علاوہ عوام کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا، جن میں لطیف آباد، حسین آباد، کوہسار کے علاقے شامل ہیں جہاں کئی کئی دن پانی نہیں آتا اور لوگ اپنی روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے ٹینکر کا استعمال کرتے ہیں جوکہ ۰۰۲۱ سے ۰۰۵۱ تک میں دستیاب ہوتا ہے اور کسی تہوار یا شدید گرمی کی صورت میں اسکے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ایک ٹینکرکا پانی عموما ۵ سے ۷ دن تک چلتا ہے۔صرف عام عوام ہی نہیں بلکہ پیوریفکیشن پلانٹ اور آر او پلانٹ کے مالکان سے بھی جب پوچھا کہ آپ پانی کہاں سے لیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹینکر خریدتے ہیں اور اس پانی کو صاف کرکے بیچتے ہیں۔اسی طرح جب ٹینکر مالکان سے پوچھا گیا کہ آپ پانی کہاں سے لیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ پانی دریا سے لیتے ہیں اور اجازت سے لیتے ہیں اور ہر ٹینکر پر کمیشن ادا کرتے ہیں۔
آلودہ پانی سے ہونے والی بیماریاں:
مصبیحہ امتیاز
شہر حیدرآبادکے شہری انتہائی آلودہ پانی کے استعمال اور پینے پر مجبور ہیں اور ان کے سبب لاحق ہونے والی بیماریوں کا مسلسل شکار ہورہے ہیں۔آلودہ پانی جسے پینے سے لوگ پیٹ کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کرپٹوسپورڈییم، ہیضہ، سائیکلورسپوریاس، ٹائیفائڈ، اور ہیپاٹائٹس ای سرِفہرست ہیں۔ یہ بیماریاں پانی میں موجود خطرناک جراثیم کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی کے سبب جوڑوں کا درد، اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں جو کہ پانی میں فلورائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کے سبب لاحق ہوتے ہیں۔ آنکھوں اور جلد کے بھی بہت سے مسائل کا تعلق آلودہ پانی سے ہی ہے۔ حیدرآباد میں سالانہ ڈائریا اور گیسٹرو کے ۲ لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے۔ گیسٹرو کے مریض آنتوں کی سوزش میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔گیسٹرو اور ڈائریا کے پریضوں میں زیادہ تعداد بچوں کی پائی جاتی ہے۔آلودہ پانی پولیو وائرس پھیلانے کا اہم ترین ذریعہ ہے جو کہ سیوریج کے پانی کی صاف پانی میں آمیزش کے باعث ہوتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ہسپتالوں میں ۰۲ سے ۰۳ فیصد اموات کی وجہ آلودہ پانی ہے۔آلودہ پانی گردے اور امراضِ قلب کے مریضوں کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ آبِ حیات زہر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔۰۴ فیصد کچی آبادی میں رہنے والی عوام کے لئے اپنے مالی حالات کے پیش نظر ممکن نہیں کہ وہ فلٹر شدہ پانی خرید کر پی سکیں۔صاف پانی صحت مند معاشرے کی اولین اور بنیادی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں پینے کے پانی کے حوالے سے کچھ تلخ حقائق منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ نعمت شہریوں کی صحت کے لئے غیر محفوظ تصور کی جارہی ہے۔جو پانی پینے کے لئے دستیاب ہے وہ صحت کے لئے انتہائی مضر ہے اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ شہر میں موجود پینے کے پانی کا نظام بہت پرانا ہوچکا ہے اور یہ کافی حد تک آلودہ بھی ہوچکا ہے۔ کثیر تعداد میں جوائنٹ، پرانے اور زنگ آلودپائپ لائن کی وجہ سے بیکٹیریا اور دوسرے جراثیم آسانی کے ساتھ اس پینے کے پانی میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔شہر میں پانی کے سٹوریج اور ٹینکوں کی صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی، پانی کی اکثر ڈسٹریبییوشن لائنز کا گزر گندی نالیوں سے یا نہروں سے ہوتا ہے۔پانی کی تقسیم کی پائپ لائنز میں بہت سے جگہوں سے لیک ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر اوقات بارش یا سیوریج کا پانی داخل ہوجاتا ہے اور اس کو مزید آلودہ بنا دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے گلے کی مختلف بیماریوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہورہاہے۔ جراثیمی بیماریاں بالخصوص آنتوں کی سوزش، جلد پر الرجی پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ گندا پانی ہے اس لئے نلکوں کے پانی کو خطرے سے خالی نا سمجھا جائے۔ آلودہ پانی انسانوں کا بہت بڑا قاتل ہے۔
واسا(واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی):
محمد حمزہ شیخ
واسا جوکہ و اٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی کا مخفف ہے جس سے مراد پانی اور نکاسی آب کا ادارہ ہے،یہ ۵۶۹۱ کی آئین کی شک کے مطابق ستمبر ۵۶۹۱ میں وجود میں آیاجس میں اسے پانی اور نکاسی آب کے تمام معاملات کا منتظم بنا دیا گیا۔
کام کرنے کا طریقہ:
جب ہم نے واسا کے آفس کا دورہ کیا توہمیں پتا لگا کہ یہ محکمہ پانی کی فراہمی کے لئے ایک مخصوص طریقے کو اپناتے ہیں۔جس کے تحت یہ پانی دریا سے حاصل کرتے ہیں اور پھر موٹرز کے ذریعے پانی آگے پمپنگ اسٹیشن تک پہنچایا جاتا ہے۔ جہاں سے اس پانی میں سے مختلف چیزیں جیسے بوتلیں، تھیلیاں اور دیگر غیر ضروری اور بیکار اشیاء ہوتی ہیں اس میں سے الگ کرلی جاتی ہیں اس عمل کے لئے بڑی لمبی چوڑی نالیا ں استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ یہی پانی بجلی بنانے میں بھی استعما ل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ پانی چھاننے کے عمل سے گزرتا ہے جو کہ فلٹریشن کہلاتا ہے۔جہاں دیگر غلاظتیں پانی سے صاف کی جاتی ہیں اس عمل سے پانی کی رنگت بھی کافی صاف ہوجاتی ہے۔ پر اس عمل سے مٹی تو مکمل طور پر صاف ہوجاتی ہے پر غلاظت مکمل طور پر صاف نہیں ہوتی۔
صفائی کا عمل:
ہدایات کے مطابق پانی کے چھاننے کے عمل میں جو مشینیں استعمال ہوتی ہیں انہیں ہر ۶ سے ۷ ماہ میں صاف ہونی چاہیں پر افسوس کے ساتھ یہ ۳ سے ۴ سال تک بغیر کس صفائی کے یونہی چلتی رہتی ہیں اور انہی کے ذریعے پانی کو آگے لوگوں تک پہنچا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے صفائی کا عمل اپنا معیار کھو دیتا ہے اور مختلف بیماریاں اسی سبب کی وجہ سے رونماہوتی ہیں یہ پانی پینے کے لائق بالکل بھی نہیں لیکن دیگر ضروریات میں استعمال کیا جا سکتا ہے مگر جو لوگ خرید کر پانی پینے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں مجبوری میں یہی پانی پینے کے لئے بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔
پانی کی فراہمی کو اوقات:
واسا کی جانب سے شہر بھر میں پانی کے فراہمی کے لئے دو اوقات مقرر کئے گئے ہیں۔
۱۔ صبح ۵ سے ۷ بجے تک
۲۔شام ۴ سے ۰۳:۵ تک
دورانِ فراہمی پانی کو دریا سے مختلف دوسرے چھوٹے اسٹیشنوں تک پہنچادیا جاتا ہے جہاں سے پانی کو علاقے کی ضرورت کے مطابق آگے فراہم کر دیا جاتا ہے۔یہ عمل مستقل طور پر چلتا رہتا ہے جب تک کوئی پریشانی رونما نہ ہو۔ اس عمل کے دوران تقریبا ۰۰۵ ملین گیلن پانی دریا سے شہر کے مختلف مقامات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔۵۰۰۲ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان میں رہنے والے ہر شخص کے لئے ۰۰۰۳ گیلن پانی موجود تھا۔جسکی شرح اب گھٹ کے صرف ۰۵۵ گیلن فی افراد رہ گئی ہے جو کہ بہت بڑے خطرے کے علامت ہے۔
پانی کی فراہمی کی مقدار:
واسا کے مطابق ۴ ایسے مقامات ہیں جہاں پر ۰۷۵ ملین گیلن پانی کی فراہمی کی جاتی ہے جو کہ درج ذیل ہیں۔
۱۔۰۰۴ ملین گیلن پانی نئے فلٹریشن پلانٹ پر
۲۔ ۰۷ ملین گیلن ہالاناکہ پر
۳۔۰۷ملین گیلن پریٹابادپر
۴۔۰۱ ملین گیلن لطیف آباد پر(بڑھتی ہوئی آبادی کے سبب یہاں پانی کی فراہمی کو بڑھا دیاگیا ہے)
پانی ضائع ہونے کی وجوہات:
۱۔ کھیتی باڑی:کھیتوں کو سرسبز اور ہرا بھرا رکھنے کے لئے کسان پانی کا اضافی استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے کہیں پانی زیادہ مقدار میں چلا جاتا ہے تو کہیں جا ہی نہیں پاتا اور دوسری وجہ جسکی لاٹھی اسکی بھینس والی مثال سے مماثلت رکھتی ہے کہ جاگیردار پانی کے رخ کو اپنی زمینوں
کی طرف موڑ دیتے ہیں اور دوسری طرف غریب کسان صرف گلہ ہی کرتا رہ جاتا ہے۔
۲۔ گھروں میں پانی کا ضیاع: پانی کی ایک بڑی مقدار ہم گھروں میں روزمرہ کے کام کرتے ہوئے بے دھیانی میں ضائع کردیتے ہیں جن میں پودوں کو پانی دینا، گھروں کی دھلائی جیسے کام شامل ہیں۔
۳۔پانی کی لائنوں کا سیوریج کے پانی سے مل جانااور پرانی لائنوں کا زنگ آلود ہونا:
پانی کی لائنوں کا سیوریج کے پانی سے مل جانااور پرانی لائنوں کا زنگ آلود ہونا اور لائنوں کا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا نہ صرف پانی ضائع ہونے کی بلکہ مختلف بیماریوں کی بھی بڑی وجہ ہے۔
Comments
Post a Comment