Hamza Hussain- BS III MC/98 Feature-REVISED ایک دن نوابشاہ میں

ایک دن نوابشاہ میں 

سید حمزہ حسین8 2K17/MC/9
REVISED FOR MAGZINE


آخر کا ر انتظار ختم ہوا اور وہ دن آہی گیا جس دن کا مجھے اور میرے گھر والوں کو بہت انتظار تھا جب سے ہم نے گھومنے کا پروگرام بنایا تھا اور پھر ہم نے رخ کیا نوابشاہ کا ۔ (اِس شہر کو اب شہید بے نظیر آباد بھی کہا جاتا ہے )۔ یہ شہر صوبہ سندھ کا درمیانی حصہ بھی کہلاتا ہے اور یہ شہر سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی گاؤں ہے اور یہاں کی مشہور چیز لاثانی لکڑی ہے جو پورے ملک میں نوابشاہ سے بھیجی جاتی ہے۔ یہاں ہمارے کچھ رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور یہ دن تھا جون کے مہینے کا جب سورج وہاں آگ برسارہا ہوتا ہے ۔ ہمارا اصل مقصد وہاں جانے کا حیدر آباد اور وہاں کے رہن سہن میں فرق دیکھنا تھا پھر ہم نے 7جون، صبح7بجے اس وقت اتنا حسین موسم ہورہا تھا کہ میں الفاظوں سے بیان نہیں کر سکتا اور پھر ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ راستے میں ہم نے بہت مزے کیے ، جگہ جگہ ٹھہرے اور تصاویر بھی لیں اور ہالا کے قریب ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا۔ ہالا شہر میں ہینڈی کرافٹس بنتے ہوئے دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوئے ۔ پھر ہم نے دوبارہ نوابشاہ کی طرف رُخ کیا اور سیدھے ہم اپنے ابو کے ماموں کے گھر پہنچے۔ وہاں تازہ دم ہوکر انکے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکل گئے۔ 


وہ ہمیں نوابشاہ کے مشہور ایچ ایم خواجہ لائبریری پارک لے گئے یہ پارک مہر علی خوجہ کہ بیٹے حاجی کے نام پر رکھا گیا تھاآپ بہت تعلیم یافتہ اور عظیم استاد بھی تھے آپ کا تعلق ضلع بدین سے تھا آپ نے تعلیم کے میدان میں بہت خدمات سر انجام دیئے اور بہت سے اسکو ل بھی آپ کے نام پر رکھے گئے آپ کو حکومتی ایوارڈ "تمغۂ خدمت"سے بھی نوازا گیا ۔ یہ پارک پہلے آپ کا رہائشی گھر تھا بعد میں اعزاز کے طور پر اس کو ایچ ایم خوجہ لائبریری اور پھر پارک میں تبدیل کر دیا گیااور 2008میں اس کی حدود میں ہی شہید بینظیر بھٹو میوزیم اور آرٹ گیلری بنادی گئی۔وہاں ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اوربہت مزے کیے پھر اس پارک میں موجود شہید بے نظیر بھٹو میوزیم اور آرٹ گیلری میں گئے جس میں مختلف لوگوں کے مجسمے رکھے تھے اور طرح طرح کے ہینڈی کرافٹس ۔ مختلف دور کے سکّے، سندھی کلچر کے کپڑے اور بی بی بھٹو کی یادگاری تصویر اور بی بی بھٹو کی یادگاری چیزیں بھی موجودہیں اوراس کے علاوہ بہت کچھ موجود تھا۔اور میوزیم میں ایک جگہ نوابشاہ کے ایک گاؤں "سن "کا کلچر بھی دکھایاجا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر میں اور میرے تمام گھر والے دنگ رہ گئے کہ یہاں یہ سب کچھ ہے جسے ہم گاؤں سمجھ رہے تھے ۔

 
ان تمام خوبصورت مقامات کو دیکھ کر ہماری دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ وقت کم تھا اور ہم نوابشاہ کے حوالے سے بے تحاشہ معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے تو اِس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہم نے وہاں کے مقامی لوگوں سے بات چیت کا آغاز کیا نوابشاہ کے لوگ بہت ہی سادہ اور ملنسار ہوتے ہیں اُن لوگوں سے گفتگو کرتے وقت ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ ہم اُن سے پہلی مرتبہ مل رہے ہیں بلکہ ایسا لگ رہا تھا جیسے صدیوں سے واقفیت ہو ایک نوجوان لڑکا آرٹ گیلری کے اندر ہی ملا جو وہاں کچھ عرصے سے وہاں کام کررہا تھا سلام دعا کے بعد میں نے اُس سے معلوم کیا کہ نوابشاہ کے حوالے سے کچھ معلومات مہیا کرے تو اُس لڑکے نے بتایا کہ اِس شہر کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ شہرقومی شاہراہ پر واقع ہے جو اِس ملک کے دیگر حصوں سے ملاتی ہے اِس کے علاوہ یہاں ایک ریلوے اسٹیشن اور ایک ہوائی اڈا بھی واقع ہے ہوائی اڈے کے بارے میں سن کر مجھے بہت حیرت ہوئی آرٹ گیلری سے باہر آکر میں نے اپنے ابو کے ماموں سے پوچھا کہ یہاں کا تعلیمی معیار کیسا ہے؟اس سوال پر پہلے تو تھوڑا مسکرائے اور پھر کہا کہ بیٹا!آپ حیدرآباد والے لوگ تو نوابشاہ کو گاؤں سمجھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نوابشاہ میں ایک جامعۂ بنام ’قائدعوام یونیورسٹی آف انجینیئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالاجی‘ واقع ہے۔ جو سندھ کے باوقار تعلیمی اداروں میں شمار ہوتا ہے ۔دوسرا معروف ادارہ’ پیپلزیونیورسٹی میڈیکل ہسپتال ‘جو خصوصی طور پر لڑکیوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔جہاں انھیں طب کی تعلیم دی جاتی ہے جلد ہی یہ ادارہ جامعہ کی حیثیت اختیار کرے گا۔بیٹا ! اِس کے علاوہ ایک اور یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے جس کا نام’ شہیدبے نظیریونیورسٹی ‘رکھا گیا ہے جہاں بزنس ،ایڈمنسٹریشن،سائنس،فزیکل ایجوکیشن جیسے اہم شعبوں میں تعلیم دی جاتی ہے۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ شہیدبے نظیریونیورسٹی ‘ آنے والے دور میں نوابشاہ اور سندھ کے دیگر طلبہ و طلبات کے لیے ایک اہم اور معیاری یونیورسٹی ہوگی اُن کی یہ باتیں سُن کر اور تعلیمی معیار جان کر میںیہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ یہاں اتنا سب کچھ ہے!! جسے ہم گاؤں سمجھ کے نظر انداز کردیتے تھے۔


اور مغرب ہوتے ہی ہم نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی ۔ پھر ہم وہاں سے نوابشاہ اسٹیشن کی طرف گئے اور یہ اسٹیشن قدیم زمانے کی عکاسی کر رہا تھا جہاں بہت سارے لوگ بیٹھے اپنی اپنی منزلوں کی طرف جانے کا انتظار کر رہے تھے اور پھر ہم نے واپسی میں نوابشاہ کی مشہور آئس کریم بھی کھائی اور وہاں سے گھر تک تانگے میں سفر کیا اور یہ سفر میرے لیے یادگار سفر تھا کیونکہ میں نے آج تک تانگے میں سفر نہیں کیا تھا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ حیدرآباد میں تانگے نہ ہونے کے برابر ہیں۔پھر گھر پہنچ کر رشتے داروں کے ساتھ کچہری کی اور مختلف گیمز کھیلے مثلاً ڈرافٹ ، لوڈو اور کیرم وغیرہ۔
پھر میں نے اپنے کزن سے پوچھا کہ یہاں کی کوئی مشہور چیز ؟اس نے کہا یہا ں کی مشہور رس ملائی ہے تو میں نے کہا کھانے چلیں اس نے اپنے والد صاحب سے اجازت لی اور پھر ہم رس ملائی کھانے گئے وہاں سے واپسی میں میں نے اس سے وہاں کے رہن سہن کے بارے میں پوچھاتو اس نے کہا یہاں بہت سکون ہے یہاں سب لوگ صبح سویرے اٹھتے ہیں اور رات کو جلدی سوجاتے ہیں یہاں کے لوگ بہت پر’ امن اور اعلیٰ اخلاق کے ہیں ایک دوسرے کے سب ہی کام آتے ہیں نہ ہی کسی چیز کے چوری ہونے کا ڈر رہتا ہے اتنی دیر میں ہم واپس گھر بھی پہنچ گئے اور پتہ ہی نہیں چلا اور گھر آکر ہم نے سونے کی تیاری کی۔
صبح ہوتے ہی ہم نے ناشتہ کیا اور واپسی حیدرآباد کے لیئے نکل گئے راستہ میں ہم نے نوابشاہ کے ایک گاؤں "کھنڈو"میں والد صاحب کے دوست کے گھر تھوڑی دیر وقفہ کیا۔اور پھر ہم ان کی زمینوں میں لگے ٹیوب ویل میں نہائے اور بہت مزہ آیا۔ پھر انھوں نے اپنی زمینوں کے پھل کھلائے اور ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی لیکن ہم نے معذرت کرلی کیونکہ اب ہمیں واپسی اپنے گھر کے لیے نکلناتھا۔ وہاں کے لوگوں نے ہمیں بہت متأثر کیا اور یہ سفر میرا اور میرے گھر والوں کے لیئے تاریخی سفر رہا۔

Courtesy-- photos are used for academic purpose
----------------------------------------------------------------------------------------------------------- REVISED

ایک دن نوابشاہ میں 
سید حمزہ حسین 2K17/MC/98

آخر کا ر انتظار ختم ہوا اور وہ دن آہی گیا جس کا مجھے اور میرے گھر والوں کو بہت انتظار تھا جب سے ہم نے گھومنے کا پروگرام بنایا تھا اور پھر ہم نے رخ کیا نوابشاہ کا ۔ (اس شہر کو اب شہید بے نظیر آباد بھی کہا جاتا ہے )۔ یہ شہر صوبہ سندھ کا درمیانی حصہ بھی کہلاتا ہے اور یہ شہر سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی گاؤں ہے اور یہاں کی مشہور چیز لاثانی لکڑی ہے جو پورے ملک میں نوابشاہ سے بھیجی جاتی ہے۔ یہاں ہمارے کچھ رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور یہ دن تھا جون کے مہینے کا جب سورج وہاں آگ برسارہا ہوتا ہے ۔ ہمارا اصل مقصد وہاں جانے کا حیدر آباد اور وہاں کے رہن سہن میں فرق دیکھنا تھا پھر ہم نے 7جون، صبح7بجے اس وقت اتنا حسین موسم ہورہا تھا کہ میں الفاظوں سے بیان نہیں کر سکتا اور پھر ہم نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ راستے میں ہم نے بہت مزے کیے ، جگہ جگہ ٹھہرے اور تصاویر بھی لیں اور ہالا کے قریب ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا۔ ہالا شہر میں ہینڈی کرافٹس بنتے ہوئے دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوئے ۔ پھر ہم نے دوبارہ نوابشاہ کی طرف رخ کیا اور سیدھا رشتے دار جو ابو کے ماموں لگتے تھے ان کے یہاں پہنچے۔ وہاں تازہ دم ہوکر انکے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکل گئے۔ 
وہ ہمیں نوابشاہ کے مشہور ایچ ایم خواجہ لائبریری پارک لے گئے یہ پارک مہر علی خوجہ کہ بیٹے حاجی کے نام پر رکھا گیا آپ بہت تعلیم یافتہ اور عظیم استاد بھی تھے آپ کا تعلق ضلع بدین سے تھا آپ نے تعلیم کے میدان میں بہت خدمات سر انجام دیئے اور بہت سے اسکو ل بھی آپ کے نام پر رکھے گئے آپ کو حکومتی ایوارڈ "تمغۂ خدمت"سے بھی نوازا گیا ۔ یہ پارک پہلے آپ کا رہائشی گھر تھا بعد میں اعزاز کے طور پر اس کو ایچ ایم خوجہ لائبریری اور پارک میں تبدیل کر دیا گیااور 2008میں اس کی حدود میں ہی شہید بینظیر بھٹو میوزیم اور آرٹ گیلری بنادی گئی۔

وہاں ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور مزے کیے پھر اس پارک میں موجود شہید بے نظیر بھٹو میوزیم اور آرٹ گیلری میں گئے جس میں مختلف لوگوں کے مجسمے رکھے تھے اور طرح طرح کے ہینڈی کرافٹس ۔ مختلف دور کے سکّے، سندھی کلچر کے کپڑے اور بی بی بھٹو کی یادگار تصویر اور ان کی یادگاری چیزیں اوراس کے علاوہ بہت کچھ موجود تھا۔ ایک جگہ "سن "کا کلچر بھی دکھا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر میں اور میرے گھر والے دنگ رہے گئے کہ یہاں یہ سب کچھ ہے جسے ہم گاؤں سمجھ رہے تھے اور مغرب ہوتے ہی ہم نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی ۔ پھر ہم وہاں سے نوابشاہ اسٹیشن کی طرف گئے اور یہ اسٹیشن قدیم زمانے کی عکاسی کر رہا تھا جہاں بہت سارے لوگ بیٹھے اپنی اپنی منزلوں کی طرف جانے کا انتظار کر رہے تھے اور پھر ہم نے واپسی میں نوابشاہ کی مشہور آئس کریم بھی کھائی اور وہاں سے گھر تک تانگے میں سفر کیا اور یہ سفر میرے لیے یادگار سفر تھا کیونکہ میں نے آج تک تانگے میں سفر نہیں کیا تھا۔ پھر گھر پہنچ کر رشتے داروں کے ساتھ کچہری کی اور مختلف گیمز کھیلے مثلاً ڈرافٹ ، لوڈو اور کیرم وغیرہ۔
پھر میں نے اپنے کزن سے پوچھا کہ یہاں کی کوئی مشہور چیز ؟اس نے کہا یہا ں کی مشہور رس ملائی ہے تو میں نے کہا کھانے چلیں اس نے اپنے والد صاحب سے اجازت لی اور پھر ہم رس ملائی کھانے گئے وہاں سے واپسی میں میں نے اس سے وہاں کے رہن سہن کے بارے میں پوچھاتو اس نے کہا یہاں بہت سکون ہے یہاں سب لوگ صبح سویرے اٹھتے ہیں اور رات کو جلدی سوجاتے ہیں یہاں کے لوگ بہت پر’ امن اور اعلیٰ اخلاق کے ہیں ایک دوسرے کے سب ہی کام آتے ہیں نہ ہی کسی چیز کے چوری ہونے کا ڈر رہتا ہے اتنی دیر میں ہم واپس گھر بھی پہنچ گئے اور پتہ ہی نہیں چلا اور گھر آکر ہم نے سونے کی تیاری کی۔
صبح ہوتے ہی ہم نے ناشتہ کیا اور واپسی حیدرآباد کے لیئے نکل گئے راستہ میں ہم نے نوابشاہ کے ایک گاؤں "کھنڈو"میں والد صاحب کے دوست کے گھر تھوڑی دیر وقفہ کیا۔اور پھر ہم ان کی زمینوں میں لگے ٹیوب ویل میں نہائے اور بہت مزہ آیا۔ پھر انھوں نے اپنی زمینوں کے پھل کھلائے اور ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی لیکن ہم نے معذرت کرلی کیونکہ اب ہمیں واپسی اپنے گھر کے لیے نکلناتھا۔ وہاں کے لوگوں نے ہمیں بہت متاثر کیا اور یہ سفر میرا اور میرے گھر والوں کے لیئے تاریخی سفر رہا۔
Referred back

ایک دن نوابشاہ میں 

سید حمزہ حسین 2K17/MC/98

نواب شاہ تک خود کو محدود رکھیں۔ نواب شاہ گاؤن نہیں۔ا نٹرو چینج کرو مزیدار نہیں۔ ایچ ایم خوجہ لائبرری پارک کی وضاحت کرو کہ کس کے نام سے ہے یہاں کیا ہے۔ہر شہر کی کوئی نہ کوئی خصوصیت ہوتی ہے۔ نواب شاہ کی کیا خصوصیت ہے؟ کیا چیز مشہور ہے؟ کسی سے کوئی بات چیت نہیں۔ اور منظر کشی بھی نہیں۔ 

اب انتظار ختم ہوا اس دن کا جس دن کا انتظار مجھے اور میرے گھر والوں کو بہت ستا رہا تھا۔ کیونکہ ہمیں گاؤں کی زندگی اور رہن سہن دیکھنے کا بہت شوق تھا اور پھر ہم نے رخ کیا نوابشاہ کا ۔ (اس شہر کو اب شہید بے نظیر آباد بھی کہا جاتا ہے )۔ یہ شہر صوبہ سندھ کا درمیانی حصہ بھی کہلاتا ہے اور یہ شہر سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا آبائی گاؤں ہے اور یہاں کی مشہور چیز لاثانی لکڑی ہے جو پورے ملک میں نوابشاہ سے بھیجی جاتی ہے۔ جہاں ہمارے کچھ رشتہ دار بھی رہتے ہیں اور یہ دن تھا جون کے مہینے کا جب سورج وہاں آگ برسارہا ہوتا ہے ۔ ہمارا اصل مقصد وہاں جانے کا حیدر آباد اور وہاں کے رہن سہن میں فرق دیکھنا تھا پھر ہم نے 7جون، صبح 8بجے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ راستے میں ہم نے بہت مزے کیے ، جگہ جگہ ٹھہرے اور تصاویر بھی لیں اور ہالا کے قریب ایک ہوٹل پر ناشتہ کیا۔ ہالا شہر میں ہینڈی کرافٹس بنتے ہوئے دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوئے ۔ پھر ہم نے دوبارہ نوابشاہ کی طرف رخ کیا اور سیدھا رشتے دار جو ابو کے ماموں لگتے تھے ان کے یہاں پہنچے۔ وہاں تازہ دم ہوکر انکے ساتھ سیر و تفریح کے لیے نکل گئے۔ 

وہ ہمیں نوابشاہ کے مشہور ایچ ایم خواجہ لائبریری پارک لے گئے وہاں ہم سب نے مل کر کھانا کھایا اور مزے کیے پھر اس پارک میں موجود شہید بے نظیر بھٹو میوزیم اور آرٹ گیلری میں گئے جس میں مختلف لوگوں کے مجسمے رکھے تھے اور طرح طرح کے ہینڈی کرافٹس ۔ مختلف دور کے سکّے، سندھی کلچر کے کپڑے اور بی بی بھٹو کی یادگار تصویر اور ان کی یادگاری چیزیں اوراس کے علاوہ بہت کچھ موجود تھا۔ ایک جگہ "سن "کا کلچر بھی دکھا رہا تھا۔ جسے دیکھ کر میں اور میرے گھر والے دنگ رہے گئے کہ یہاں یہ سب کچھ ہے جسے ہم گاؤں سمجھ رہے تھے اور مغرب ہوتے ہی ہم نے یہاں سے نکلنے کی کوشش کی ۔ پھر ہم وہاں سے نوابشاہ اسٹیشن کی طرف گئے اور یہ اسٹیشن قدیم زمانے کی عکاسی کر رہا تھا جہاں بہت سارے لوگ بیٹھے اپنی اپنی منزلوں کی طرف جانے کا انتظار کر رہے تھے اور پھر ہم نے واپسی میں نوابشاہ کی مشہور آئس کریم بھی کھائی اور وہاں سے گھر تک تانگے میں سفر کیا اور یہ سفر میرے لیے یادگار سفر تھا کیونکہ میں نے آج تک تانگے میں سفر نہیں کیا تھا۔ پھر گھر پہنچ کر رشتے داروں کے ساتھ کچہری کی اور مختلف گیمز کھیلے مثلاً ڈرافٹ ، لوڈو اور کیرم وغیرہ اور پھر ہم نے صبح کا پروگرام بنایا اور سونے کی تیاری کی۔ 

اب ہم صبح ہوتے ہی اپنے مقصد کے حصول کے لیے نکل گئے جو کہ "گاؤں کا رہن سہن "دیکھنا تھا۔ اب ہم پہنچے نوابشاہ کے ایک گاؤں "کھنڈو"اور وہاں کے لوگوں کے ساتھ ناشتہ کیا اور ان سے بہت ساری بات چیت کی اور وہاں کے رہن سہن کے بارے میں دریافت کیا ۔ پھر ہم وہاں کی زمینوں میں لگے ٹیوب ویل میں نہائے اور بہت مزہ آیا۔ پھر انھوں نے اپنی زمینوں کے پھل کھلائے اور ہمیں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی لیکن ہم نے معذرت کرلی کیونکہ اب ہمیں واپسی اپنے گھر کے لیے نکلناتھا۔ وہاں کے لوگوں نے ہمیں بہت متاثر کیا ۔

درج ذیل پیراگراف اضافی ہے نکال دیں۔

(اب آئیے ہم گاؤں اور شہر کے رہن سہن پر بات کرتے ہیں۔ گاؤں کا رہن سہن بہت سادہ ہے اور وہاں کے لوگ بھی بہت ملنسار اور اچھے اخلاق والے ہوتے ہیں۔ کسی کو کھلائے پلائے بغیر واپسی نہیں لوٹاتے اور مہمانوں کو عزت دیتے ہیں ۔ جب کہ شہر کے لوگوں میں یہ چیزیں بہت کم پائی جاتی ہیں اور اگر ہم کھانے کی بات کریں تو وہاں لوگ ساری اصلی چیزیں کھارہے ہیں چاہے وہ دودھ ہو، سبزی ہو، پھل ہو یا کچھ بھی ہو ۔ جبکہ شہر کے لوگ ساری ملاوٹ والی چیزوں پر گزارا کر رہے ہیں۔ ) 

حیدر آباد اور نوابشاہ کے لوگوں میں ہم نے بہت فرق محسوس کیا وہاں کے لوگ بہت پر امن اور سکون سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ حیدر آباد کے لوگ اپنی زندگی افراتفری میں گزار رہے ہیں ۔ وہاں رات کو سڑکوں پر بہت کم لوگ دکھتے ہیں اور صبح ہوتے ہی سارا شہر کام پر نکل جاتا ہے جبکہ حیدر آباد میں اس کے برعکس ہے یہی وجہ ہے کہ مجھے اس سفر نے وہاں کے لوگوں سے بہت متاثر کیا۔
(فرق واضح نہیں ہو رہا دو تین لوگوں سے بات کرو)

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised