Kashan Sikandar - BS III MC/51 Feature-REVISED


REVISED
سوشل میڈیا کے معاشرے پر بر’ے اثرات
کاشان سکندر 2K17/MC/51

ٹیب، موبائل، کمپیوٹر یا پھر پلے اسٹیشن 
اپنی سمجھ سے باہر ہے یہ انٹرنیٹ جنریشن 
رات کو اس کا دن چڑھتا ہے
سارے کام ہیں جھوٹے
فجر اذانیں سن کر سوئے
مغرب سن کر اٹھے
LoLہے ان کا ہنسنا
OMGہے رونا
سب سے مشکل کام ہے اسکرین سے نظر اٹھانا
نہ دیکھے منہ کدھر ہے کان میں جائے کھانا
نظروں کوحیران کردینے والی سائنسی تجلیات آج زندگی کے ہر شعبے پر حکمرانی کر رہی ہے جس کی حیرت انگیز ایجادات سے استفادہ کرنا دورِ حاضر میں انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس کی برق رفتار ترقی نے تمام روایتی علوم رابطہ عامہ کے قدیم طریقے کو تبدیل کرکے ایک نیا رابطہ عامہ جنم دیا ہے جسے ہم اور آپ سوشل میڈیا کہتے ہیں۔ 
اگر آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جو سوشل میڈیا کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تو مبارک ہو "آپ کا شمار بھی پاگلوں میں ہوتا ہے"۔ 
سوشل میڈیا میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ مثلاًواٹس ایپ، ٹیوٹر، فیس بک ، یوٹیوب وغیرہ شامل ہیں۔ سوشل میڈیا دورِ حاضر میں اپنی تمام تر سہولیات کو پسِ پشت ڈال کر ہماری زندگیوں پر منفی اثرات بھی مرتب کر رہا ہے جہاں سوشل میڈیا نے دور دراز رہنے والوں کو قریب کیا ہے وہیں ہمیں اپنوں سے دور بھی کیا ہے۔ کیونکہ ہم سوشل میڈیا کے دنیا میں اس طرح کھوتے جارہے ہیں کہ ہم اپنے گھر والوں سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ کل کی ہی بات ہے کہ میرے گھر میں انٹر نیٹ بند ہوگیا تو میں نے کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ گزارا تو سب گھر والے حیرت میں پڑ گئے کہ آج سورج شاید مغرب سے طلوع ہوا ہے کہ ہمارا بیٹا ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا نوش فرمار ہا ہے۔ یہی نہیں ایک دفعہ تو اس سوشل میڈیا سے تنگ آکر میں رات کو جلدی سوگیا تو گھر والے پریشان ہوگئے اور مجھے ہسپتال لے جانے پر اسرار کرنے لگے کہ بیٹے کی طبیعت شاید ناساز ہے۔ جہاں اس سوشل میڈیا نے دور کے رابطے آسان کرکے دور بیٹھے دوستوں سے قریب کردیا ہے وہیں اپنے گھر والوں سے دور کردیا ہے۔ 
سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے واقعات بھی زور پکڑ رہے ہیں جہاں نوجوان فیک آئی ڈی بناکر لڑکیوں سے دوستی کرکے اپنے جعل میں پھساتے ہیں ایسے ہی ایک متاثرہ لڑکی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ عدنان نامی شخص جس نے فیک آئی ڈی بنا کر مجھ سے پہلے دوستی کی اور دوستی کی آڑ میں میری تصویر اور ویڈیوز منگوائی اور کچھ عرصے بعد مجھے ان تصویر کا سوشل میڈیا کا اپلوڈ کرنے کی دھمکی دیتا رہا اور بلیک میل کرنے لگا اورپیسے مانگنے لگا جس سے ڈر کر میں نے گھر پر چوری بھی کی اور کچھ رقم عدنان کے حوالے کی جس سے اس کا موں بند ہوگیا۔ہمارے معاشرے میں اس جیسی کتنی ہی بی بی حواکی لڑکیاں ان حوث کے پوجاریوں کا شکا ر بن رہی ہیں ۔
اس سوشل میڈیا کا برا اثر میرے دوست عثمان پر بھی پڑا اور وہ بھی اس برائی کا عادی ہوگیا جب میں نے اس سے اس کی مصروفیات کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہا یہی تھا کہ اتنا وقت میں اپنے گھر والوں کو نہیں دیتا جتنا میں فیس بک اور واٹس اپ استعمال کرتا ہوں جس کی وجہ سے بعض اوقات میرا موبائل میرے گھر والوں نے چھین بھی لیا ہے پر میں اس کااتنا عادی ہوچکا ہوں کہ نیٹ کیفے پر جاکر فیس بک اور اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر تا ہوں ۔ اس طرح کے کتنے ہی نوجوان اس برائی کا شکار بنتے جارہے ۔
اگر سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے تو نوجوان نسل کو اس ایجاد کے مثبت استعمال کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے اور ان منفی سرگرمیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ جو وقت اور صلاحیت کے قومی ضیاء کا باعث بن رہے ہیں۔ 




Revised . Before editing see note  below on first version of his feature

plz follow instructions. u again sent file with incorrect name. U did not follow the instruction marked in ur first version
سوشل میڈیا کے معاشرے پر بر’ے اثرات
فیچر کاشان سکندر 2K17/MC/51


ٹیب، موبائل، کمپیوٹر یا پھر پلے اسٹیشن 

اپنی سمجھ سے باہر ہے یہ انٹرنیٹ جنریشن 
رات کو اس کا دن چڑھتا ہے
سارے کام ہیں جھوٹے
فجر اذانیں سن کر سوئے
مغرب سن کر اٹھے
LoLہے ان کا ہنسنا
OMGہے رونا
سب سے مشکل کام ہے اسکرین سے نظر اٹھانا
نہ دیکھے منہ کدھر ہے کان میں جائے کھانا

نظروں کوحیران کردینے والی سائنسی تجلیات آج زندگی کے ہر شعبے پر حکمرانی کر رہی ہے جس کی حیرت انگیز ایجادات سے استفادہ کرنا دورِ حاضر میں انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس کی برق رفتار ترقی نے تمام روایتی علوم رابطہ عامہ کے قدیم طریقے کو تبدیل کرکے ایک نیا رابطہ عامہ جنم دیا ہے جسے ہم اور آپ سوشل میڈیا کہتے ہیں۔ 

اگر آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جو سوشل میڈیا کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تو مبارک ہو "آپ کا شمار بھی پاگلوں میں ہوتا ہے"۔ 

سوشل میڈیا میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ مثلاًواٹس ایپ، ٹیوٹر، فیس بک ، یوٹیوب وغیرہ شامل ہیں۔ سوشل میڈیا دورِ حاضر میں اپنی تمام تر سہولیات کو پسِ پشت ڈال کر ہماری زندگیوں پر منفی اثرات بھی مرتب کر رہا ہے جہاں سوشل میڈیا نے دور دراز رہنے والوں کو قریب کیا ہے وہیں ہمیں اپنوں سے دور بھی کیا ہے۔ کیونکہ ہم سوشل میڈیا کے دنیا میں اس طرح کھوتے جارہے ہیں کہ ہم اپنے گھر والوں سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ کل کی ہی بات ہے کہ میرے گھر میں انٹر نیٹ بند ہوگیا تو میں نے کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ گزارا تو سب گھر والے حیرت میں پڑ گئے کہ آج سورج شاید مغرب سے طلوع ہوا ہے کہ ہمارا بیٹا ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا نوش فرمار ہا ہے۔ یہی نہیں ایک دفعہ تو اس سوشل میڈیا سے تنگ آکر میں رات کو جلدی سوگیا تو گھر والے پریشان ہوگئے اور مجھے ہسپتال لے جانے پر اسرار کرنے لگے کہ بیٹے کی طبیعت شاید ناساز ہے۔ جہاں اس سوشل میڈیا نے دور کے رابطے آسان کرکے دور بیٹھے دوستوں سے قریب کردیا ہے وہیں اپنے گھر والوں سے دور کردیا ہے۔ 
سوشل میڈیا کی وجہ سے معاشرے میں لڑکیوں کو بلیک میل کرنے کے واقعات بھی زور پکڑ رہے ہیں جہاں نوجوان فیک آئی ڈی بناکر لڑکیوں سے دوستی کرکے اپنے جعل میں پھساتے ہیں ایسے ہی ایک متاثرہ لڑکی سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ عدنان نامی شخص جس نے فیک آئی ڈی بنا کر مجھ سے پہلے دوستی کی اور دوستی کی آڑ میں میری تصویر اور ویڈیوز منگوائی اور کچھ عرصے بعد مجھے ان تصویر کا سوشل میڈیا کا اپلوڈ کرنے کی دھمکی دیتا رہا اور بلیک میل کرنے لگا اورپیسے مانگنے لگا جس سے ڈر کر میں نے گھر پر چوری بھی کی اور کچھ رقم عدنان کے حوالے کی جس سے اس کا موں بند ہوگیا۔ہمارے معاشرے میں اس جیسی کتنی ہی بی بی حواکی لڑکیاں ان حوث کے پوجاریوں کا شکا ر بن رہی ہیں ۔
اس سوشل میڈیا کا برا اثر میرے دوست عثمان پر بھی پڑا اور وہ بھی اس برائی کا عادی ہوگیا جب میں نے اس سے اس کی مصروفیات کے بارے میں پوچھا تو اس کا کہا یہی تھا کہ اتنا وقت میں اپنے گھر والوں کو نہیں دیتا جتنا میں فیس بک اور واٹس اپ استعمال کرتا ہوں جس کی وجہ سے بعض اوقات میرا موبائل میرے گھر والوں نے چھین بھی لیا ہے پر میں اس کااتنا عادی ہوچکا ہوں کہ نیٹ کیفے پر جاکر فیس بک اور اپنا اسٹیٹس اپ ڈیٹ کر تا ہوں ۔ اس طرح کے کتنے ہی نوجوان اس برائی کا شکار بنتے جارہے ۔
اگر سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے تو نوجوان نسل کو اس ایجاد کے مثبت استعمال کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے اور ان منفی سرگرمیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ جو وقت اور صلاحیت کے قومی ضیاء کا باعث بن رہے ہیں۔ 


Kashan Sikandar, Feature

-------------------------------------------------
Topic not narrowed down.
No primary data and no reporting, its written in article style not in feature format
 plz refer lecture and notes
Referred back send again on Sunday Feb 3
سوشل میڈیا کے برے اثرات
کاشان سکندر 2K17/MC/51

ٹیب، موبائل، کمپیوٹر یا پھر پلے اسٹیشن 
اپنی سمجھ سے باہر ہے یہ انٹرنیٹ جنریشن 
رات کو اس کا دن چڑھتا ہے
سارے کام ہیں جھوٹے
فجر اذانیں سن کر سوئے
مغرب سن کر اٹھے
LoLہے ان کا ہنسنا
OMGہے رونا
سب سے مشکل کام ہے اسکرین سے نظر اٹھانا
نہ دیکھے منہ کدھر ہے کان میں جائے کھانا

نظروں کوحیران کردینے والی سائنسی تجلیات آج زندگی کے ہر شعبے پر حکمرانی کر رہی ہے جس کی حیرت انگیز ایجادات سے استفادہ کرنا دورِ حاضر میں انتہائی ناگزیر ہوگیا ہے۔ اس کی برق رفتار ترقی نے تمام روایتی علوم رابطہ عامہ کے قدیم طریقے کو تبدیل کرکے ایک نیا رابطہ عامہ جنم دیا ہے جسے ہم اور آپ سوشل میڈیا کہتے ہیں۔ 
اگر آپ کا شمار بھی ان لوگوں میں ہے جو سوشل میڈیا کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتے تو مبارک ہو "آپ کا شمار بھی پاگلوں میں ہوتا ہے"۔ 
سوشل میڈیا میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ مثلاًواٹس ایپ، ٹیوٹر، فیس بک ، یوٹیوب وغیرہ شامل ہیں۔ سوشل میڈیا دورِ حاضر میں اپنی تمام تر سہولیات کو پسِ پشت ڈال کر ہماری زندگیوں پر منفی اثرات بھی مرتب کر رہا ہے جہاں سوشل میڈیا نے دور دراز رہنے والوں کو قریب کیا ہے وہیں ہمیں اپنوں سے دور بھی کیا ہے۔ کیونکہ ہم سوشل میڈیا کے دنیا میں اس طرح کھوتے جارہے ہیں کہ ہم اپنے گھر والوں سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ کل کی ہی بات ہے کہ میرے گھر میں انٹر نیٹ بند ہوگیا تو میں نے کچھ وقت گھر والوں کے ساتھ گزارا تو سب گھر والے حیرت میں پڑ گئے کہ آج سورج شاید مغرب سے طلوع ہوا ہے کہ ہمارا بیٹا ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا نوش فرمار ہا ہے۔ یہی نہیں ایک دفعہ تو اس سوشل میڈیا سے تنگ آکر میں رات کو جلدی سوگیا تو گھر والے پریشان ہوگئے اور مجھے ہسپتال لے جانے پر اسرار کرنے لگے کہ بیٹے کی طبیعت شاید ناساز ہے۔ جہاں اس سوشل میڈیا نے دور کے رابطے آسان کرکے دور بیٹھے دوستوں سے قریب کردیا ہے وہیں اپنے گھر والوں سے دور کردیا ہے۔ 
سوشل میڈیا نے جھوٹی اور من گھڑت اطلاعت کا ایک سمندر تخلیق کردیا ہے جو کسی حکومتی کنٹرول سے ماورا ہونے کے سبب نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ واقعات کی غلط تعبیر، کہیں کی خبر کو کہیں چسپاں کرنا، تصویروں کو فوٹو شاپ میں اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنا اور انہیں میڈیا پر اپلوڈ کردینا افراد اور اداروں کے اسکینڈل تراشنا ان کے ذریعے جھوٹی اطلاعت کو عام کرنا۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں اور افواہوں نے ہمیں ڈپریشن کا مریض بنادیا ہے ۔ روز بروز سوشل میڈیا پر نئی نئی افواہیں گردش کر رہی ہوتی ہیں جیسے ایک افواہ نے ملک کے نوجوانوں پریشان کردیا ویلنٹائن ڈے کو سسٹر ڈے بنانے کی خبر دل پھینک عاشقوں نے سنی تو ان کے جذبات ریزہ ریزہ ہوگئے ۔ جو عاشق ویلنٹائن ڈے پر گلاب اور چاکلیٹ کا نظرانہ اپنے محبوب کو پیش کرتے تھے وہ اب اپنی بہنوں کو تحفے میں عبایا دیں گے۔ افواہوں کی بات چل رہی ہے تو ایک اور افواہ نے ملکی ترقی کا نقشہ اس طرح پیش کیا کہ جو امریکن ڈالر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے وہ ایک رات میں زمین پر آگرا اور محض 76روپے فی ڈالر ہوگیا۔ اس افواہ نے جہاں لوگوں کو حیرت اور خوشی میں ڈالا کہ نئے پاکستان کی شروعات ہے وہیں کاروباری شخصیات کو پریشان کردیا۔ 
عموماً دیکھنے میں آرہا ہے کہ بہت زیادہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے حقیقی سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے اجتناب کرنے لگتے ہیں وہ سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی کو سماجی میل ملاپ کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور عزیزوں سے دن بدن جسمانی طور پر دور ہوتے جاتے ہیں۔ 
اس کی عکاسی کچھ اس طرح سے کرنے کی کوشش کی ہے کہ ایک میت پر چند لوگ موجود ہیں اور ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا ہے کہ اس کے فیس بک فرینڈ تو ہزاروں میں تھے لیکن میت پر چند لوگ ہی پہنچ پائے ہیں۔ اسی طرح ایک تصویر سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی جس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک خاتون کے پوتے پوتیاں اور بیٹے بیٹیاں اس سے ملاقات کے لئے گھر پر آتے ہیں لیکن ہر شخص اس خاتون کے سامنے بیٹھا ہونے کے باوجود اپنے موبائل فون پر مصروفِ عمل ہے اور خاتون اکیلی بیٹھی انہیں دیکھ رہی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی میڈیم بذاتِ خود برا یا اچھا نہیں ہوتا صرف اور اس کا استعمال اس کے نتائج مرتب کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اگر غیر ضروری استعمال کو ترک کرکے سوشل میڈیا کا ضرورت کے مطابق ایک مخصوص وقت میں استعمال کیا جائے تو بہت ساری قباحتوں سے بچا جاسکتا ہے۔ 
سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت فراہم کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے تو نوجوان نسل کو اس ایجاد کے مثبت استعمال کی طرف راغب کیا جاسکتا ہے اور ان منفی سرگرمیوں سے بچایا جاسکتا ہے۔ جو وقت اور صلاحیت کے قومی ضیاء کا باعث بن رہے ہیں۔ 

Feature- Kashan Sikandar- BS III (2k17/MC/51)

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised