Arham khan MC18 Article-revised

revised
شہر میں بھی عطائی ڈاکٹر کیوں 
ارحم خان 
roll no:18-mc-2k17 


حکومت سند ھ کا جعلی طبیب اور غیر مستند ڈاکٹر ز کی روک تھا م کا فیصلہ معاشرے کے لئے بہتر نتائج کا حامل ہے اور اس ضمن کا متقاضی ہے کہ اس پر مزید غور و خوض کیا جائے کیونکہ دیہات کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی اچھے اور مستند ڈاکٹر ز سے علاج مہنگا ہونے کے باعث سستے غیر مستند ڈاکٹرز نے جڑ پکڑ لی ہے ۔ حکو مت دیہاتی اور شہرکے غریب لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لئے منظم نظام بنانے میں ناکام ہے ۔ پالیسی میکر بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود غریب مریضوں کی زندگی میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے ۔دیہاتوں اور شہرکے کچی آبادی میں عطائی ڈاکٹر ز مریضوں کو ابتدائی طبی مدد دیا کرتے تھے لیکن اب "ماہرٍ جلد "،"ماہرفزیشن" "ماہر سرجن" " معالجٍ کینسر" جسے دعوے کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔اسے معالج غریب عوام کی ہی حمایت سے پنپتے نظر آتے ہیں۔
"عطائی کے کلینک پر دورانٍ آپریشن نو مولود جاں بحق "ماں کی حالات خراب" " عطائی ڈاکٹر کی نااہلی سے خاتون ہلاک" " غیر مستند ڈاکٹر کے غلط انجکشن سے بچہ معذور ہوگیا" " میڈیکل اسٹور کے سل مین کی دوائی سے بوڑھا شخص چل بسا"،" نام نہاد لیڈی ڈاکٹر نے ماں بچے کی جان لے لی" اور اسی طرح کی خبر یں آئے دن ہم اخبارات اور ٹیلویژن پر دیکھتے ہیں ۔ محض پیسوں کے خاطر انسانی صحت اور زندگی سے کھیل جاتے ہیں ۔ اسے معالج نہ تو میڈیکل کی تعلیم یا سند رکھتے ہیں ۔نہ ہی ان کا تجربہ اس معیار کا ہوتا ہے نہ ہی یہ کسی مستند میڈیکل ،انسٹیٹوٹ یا ادارے سے رجسٹر ڈ ہوتے ہیں۔اسے معالج کو عرف عام میں "عطائی" ((quack کہاجاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسیشن کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ۲ لاکھ عطائی ڈاکٹر ز کے کلینک سندھ بھر میں موجود ہیں۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صرف حیدرآباد میں ۸۹ ۳ عطائی ڈاکٹر کے کلینک کا م کر ر ہے تھے جن میں سے ۷۰ ا عطائیت کی منڈیوں کو سیل کیا جا چکا ہے لیکن۱۹ ۲ عطائیت کے اڈے اب بھی چل رہے ہیں۔ جو کے لیاقت کالونی ، ہیرآباد ،پریٹ آباد ، پھلیلی ، مکرانی پاڑا اور حیدرآباد سائٹ ایریا میں موجود ہیں ۔
ماہر فزیشن "ڈاکٹر محمد ادریس باوانی " کے مطابق کئی عطائی اڈے حیدرآباد شہر میں کا م کررہے ہیں جن میں کم تجربہ کار نرسیس ، ڈسپینسر نہ تجربہ کا ر فارمیسی ڈسپینسر اور حکیم ،ہومیوپیتھک ڈاکٹرز جو کے الوپیتھک معالج بن کر کلینک چلارہے ہیں۔
مجھے اس بات پر شدید حیرت ہے کہ یہ کس طرح کے عطائی ہیں اور انہیں انسانی جانوں سے کھیلنے کا سرٹیفکیٹ کس نے دیاہے۔عطائی ڈاکٹر ز کے علاج سے زیادہ ان کے آلات بڑی بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں خاص طور پر سڑکوں اور پارکوں میں بیٹھے نام نہاد داندن ساز ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے خطرناک امراض کے پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ اسی طرح ٹوٹی ہڈیا جوڑنے والے جراح بھی مریضوں کو معذور بنادیتے ہیں ۔ یہ کسی عطائیت ہے جو انسانی صحت کو داؤ پر لگا دیتی ہے ۔یہ عطا ان عطائیوں کو کہاں سے عطا ہوتی ہے ۔ "عطا" تو ایک پاکیزہ اور معتبر لفظ ہے۔ جو اللہ تعالٰی کی جانب سے خاص عنایت کے لئے استعمال ہے ۔چونکہ ان معا لجین کا علاج سستا ہوتا ہے ۔ لہٰذ ا غریب مریض ان کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔المیہ یہ ہے کہ لوگ ان کے نتائج سے نہ اشنا ہو کر" عقیدے " ا ور ہاتھ میں "شفا " جسے لفظ استعمال کرکے انھی عطائیوں کے کلینک کا تقاضا کر تے نظر آتے ہیں ۔ چونکہ عطائیت دیہات کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی جڑ پکڑچوکی ہے اسی لیے کوگوں کو غیر مستند معالج کے علاج سے خوفناک نتائج سے واقف کرانا بے حد ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ا یسی حکمتٍ عملی اپنانی چاہیے ۔جوکہ سر کاری ہسپتالوں کی حا لاتٍ زار، علاج کے طریقہ کا ر اور ادویات کی فراہمی کے نظام میں بہتر ثابت ہو ۔جس سے لوگوں کا اعتماد سرکاری ہسپتالوں کی طرف راغب ہو۔ 

ارحم خان 
roll no: 18-mc-2k17 


Revised 
Mind spelling and word space. 
Do not put unnecessary inverted commas 


شہر میں بھی عطائی ڈاکٹر کیوں
ارحم خان
roll no:18-mc-2k17
حکومت سند ھ کا جعلی طبیب اور غیر مستند ڈاکٹر ز کی روک تھا م کا فیصلہ معاشرے کے لئے بہتر نتائج کا حامل ہے اور اس ضمن کا متقاضی ہے کہ اس پر مزید غور و خوض کیا جائے کیونکہ دیہات کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی اچھے اور مستند ڈاکٹر ز سے علاج مہنگا ہونے کے باعث "سستے" غیر مستند ڈاکٹرز نے جڑ پکڑ لی ہے ۔ حکو مت دیہاتی اور شہرکے غریب لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لئے منظم نظام بنانے میں ناکام ہے ۔ پالیسی میکر بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود غریب مریضوں کی زندگی میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے ۔دیہاتوں اور شہرکے کچی آبادی میں عطائی ڈاکٹر ز مریضوں کو ابتدائی طبی مدد دیا کرتے تھے لیکن اب "ماہرٍ جلد "،"ماہر فیزیشن" ، "ماہر سرجن" " معالجٍ کینسر" جسے دعوے کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔اسے معالج غریب عوام کی ہی حمایت سے پنپتے نظر آتے ہیں۔
"عطائی کے کلینک پر دورانٍ آپریشن نو مولود جاں بحق "،ماں کی حالات خراب"،" عطائی ڈاکٹر کی نااہلی سے خاتون ہلاک" ،" غیر مستند ڈاکٹر کے غلط انجکشن سے بچہ معذور ہوگیا"،" میڈیکل ا سٹور کے سیل مین کی دوائی سے بوڑھا شخص چل بسا"،" نام نہاد لیڈی ڈاکٹر نے ماں بچے کی جان لے لی" ،اور اسی طرح کی خبر یں آئے دن ہم اخبارات اور ٹیلویژن پر دیکھتے ہیں ۔ محض پیسوں کے خاطر انسانی صحت اور زندگی سے کھیل جاتے ہیں ۔ اسے معالج نہ تو میڈیکل کی تعلیم یا سند رکھتے ہیں ۔نہ ہی ان کا تجربہ اس معیار کا ہوتا ہے نہ ہی یہ کسی مستند میڈیکل ،انسٹیٹوٹ یا ادارے سے رجسٹر ڈ ہوتے ہیں۔اسے معالج کو عرف عام میں "عطائی" ((quack کہاجاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسیشن کی رپورٹ کے مطابق تقریباً ۲ لاکھ عطائی ڈاکٹر ز کے کلینک سندھ بھر میں موجود ہیں۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال صرف حیدرآباد میں ۸۹ ۳ عطائی ڈاکٹر کے کلینک کا م کر ر ہے تھے جن میں سے ۷۰ ا عطائیت کی منڈیوں کو سیل کیا جا چکا ہے لیکن۱۹ ۲ عطائیت کے اڈے اب بھی چل رہے ہیں۔ جو کے لیاقت کالونی ، ہیرآباد ،پریٹ آباد ، پھلیلی ، مکارانی پاڑا اور حیدرآباد سائٹ ایریا میں موجود ہیں ۔
ماہر فیزیشن "ڈاکٹر محمد ادریس باوانی " کے مطابق کئی عطائی اڈے حیدرآباد شہر میں کا م کر رہے ہیں جن میں کم تجربہ کار نرسیس ، ڈیسپنسر، نہ تجربہ کا ر فارمیسی ڈیسپینسر اور حکیم ،ہومیوپیتک ڈاکٹرز جو کے الوپیتک معالج بن کر کلینک چلارہے ہیں۔
مجھے اس بات پر شدید حیرت ہے کہ یہ کس طرح کے عطائی ہیں اور انہیں انسانی جانوں سے کھیلنے کا سرٹیفکیٹ کس نے دیاہے۔عطائی ڈاکٹر ز کے علاج سے زیادہ ان کے آلات بڑی بیماریوں کا باعث بن رہے ہیں خاص طور پر سڑکوں اور پارکوں میں بیٹھے نام نہاد داندن ساز ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے خطرناک امراض کے پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ اسی طرح ٹوٹی ہڈیا جوڑنے والے جراح بھی مریضوں کو معذور بنادیتے ہیں ۔ یہ کسی عطائیت ہے جو انسانی صحت کو داؤ پر لگا دیتی ہے ۔یہ عطا ان عطائیوں کو کہاں سے عطا ہوتی ہے ۔ "عطا" تو ایک پاکیزہ اور معتبر لفظ ہے۔ جو اللہ تعالٰی کی جانب سے خاص عنایت کے لئے استعمال ہے ۔چونکہ ان معا لجین کا علاج سستا ہوتا ہے ۔ لہٰذ ا غریب مریض ان کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔المیہ یہ ہے کہ لوگ ان کے نتائج سے نہ آشنا ہو کر" عقیدے " ا ور ہاتھ میں "شفا " جسے لفظ استعمال کرکے انھی عطائیوں کے کلینک کا تقاضا کر تے نظر آتے ہیں ۔ چونکہ عطائیت دیہات کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی جڑ پکڑچوکی ہے اسی لیے کوگوں کو غیر مستند معالج کے علاج سے خوفناک نتائج سے واقف کرانا بے حد ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ا یسی حکمتٍ عملی اپنانی چاہیے ۔جوکہ سر کاری ہسپتالوں کی حا لاتٍ زار، علاج کے طریقہ کا ر اور ادویات کی فراہمی کے نظام میں بہتر ثابت ہو ۔جس سے لوگوں کا اعتماد سرکاری ہسپتالوں کی طرف راغب ہو۔

ارحم خان
roll no: 18-mc-2k17 

---------------------------------------------------------------------------------------------------
Ur topic is why quacks are in cities also, but u did not mention it. Reasons???
It needs some expert opinion, Reports of Pakistan Medical Association etc
Who are these quacks? How they develop? 
Try to improve and refile by March 4


شہر میں بھی عطائی ڈاکٹر کیوں
ارحم خان
roll no:18-mc-2k17


دیہات کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی عطائی ڈاکٹر ز کیوں ہیں؟ ۔ حکو مت دیہاتی اور شہرکے غریب لوگوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لئے منظم نظام بنانے میں ناکام ہے ۔ پالیسی میکر بڑے بڑے دعوے کرنے کے باوجود غریب مریضوں کی زندگی میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے ۔دیہاتوں اور شہروں میں عطائی ڈاکٹر ز مریضوں کو ابتدائی طبی مدد دیا کرتے تھے لیکن اب "ماہرٍ جلد "،"ماہر فیزیشن" ، "ماہر سرجن" " معالجٍ کینسر" جسے دعوے کرتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ دیہا ت تو دیہات شہر میں بھی لو گ عقیدے کی بنیاد پر ان" عطائیوں "کا تقاضا کر تے نظر آتے ہیں ۔

"عطائی کے کلینک پر دورانٍ آپریشن نو مولود جاں بحق "،ماں کی حالات خراب"،" عطائی ڈاکٹر کی نااہلی سے خاتون ہلاک" ، غیر مستند ڈاکٹر کے غلط انجکشن سے بچہ معذور ہوگیا"،" میڈیکل سٹور کے سیل مین کی دوائی سے بوڑھا شخص چل بسا"،" نام نہاد لیڈی ڈاکٹر نے ماں بچے کی جان لے لی" ،اور اسی طرح کی خبر یں آئے دن ہم اخبارات اور ٹیلویژن پر دیکھتے ہیں ۔ محض پیسوں کے خاطر انسانی صحت اور زندگی سے کھیلتے ہیں ۔ اسے معالج نہ تو میڈیکل کی تعلیم یا سند رکھتے ہیں ۔نہ ہی ان کا تجربہ اس معیار کا ہوتا ہے نہ ہی یہ کسی مستند میڈیکل ،انسٹیٹوٹ یا ادارے سے رجسٹر ڈ ہوتے ہیں۔اسے معالج کو عرف عام میں "عطائی "((quack کہاجاتا ہے
مجھے اس بات پر شدید حیرت ہے کہ یہ کس طرح کے عطائی ہیں اور انہیں انسانی جانوں سے کھیلنے کا سرٹیفکیٹ کس نے دیاہے۔خاص طور پر سڑکوں اور پارکوں میں بیٹھے نام نہاد داندن ساز ایڈز اور ہیپاٹائٹس جیسے خطرناک امراض کے پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں ۔ اسی طرح ٹوٹی ہڈیا جوڑنے والے جراح بھی مریضوں کو معذور بنادیتے ہیں ۔
یہ کسی عطائیت ہے جو انسانی صحت کو داؤ پر لگا دیتی ہے ۔یہ عطا ان عطائیوں کو کہاں سے عطا ہوتی ہے ۔ "عطا" تو ایک پاکیزہ اور معتبر لفظ ہے۔ جو اللہ تعالٰی کی جانب سے خاص عنایت کے لئے استعمال ہے ۔چونکہ ان معا لجین کا علاج سستا ہوتا ہے ۔ لہٰذ ا غریب لوگ اور مریض ان کے پاس جانے پر مجبور ہیں۔المیہ یہ ہے کہ لوگ ان کے نتائج سے نہ آشنا ہو کر" عقیدے " ا ور ہاتھ میں "شفا " جسے لفظ استعمال کرکے انھی عطائیوں کے کلینک کا تقاضا کر تے نظر آتے ہیں ۔

محکمہ صحت کے مطابق گذشتہ سال ۱۷۰ عطائی ڈاکٹر ز ڈیسپینسریز سیل کی جا چکی ہیں ۔اس وقت حیدرآبادمیں ۲۱۹ عطائی ڈاکٹر ز کلینک چل رہے ہیں جو کہ لیاقت کالونی ، ہیرآباد ، مکارانی پاڑا اور حیدرآباد سائٹ ایریا میں موجود ہیں ۔یہ کلینک محکمہ صحت کی نظروں سے دور ہیں ۔ان عطائی منڈیوں کو بھی کھوج لگا کر بند کیا جائے ۔ چونکہ عطائیت دیہات کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی جڑ پکڑ چکی ہے اسی لیے کوگوں کو غیر مستند معالج کے علاج سے خوفناک نتائج سے واقف کرانا بے حد ضروری ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو اسی حکمتٍ عملی آپنانی چاہیے ۔جوکہ سر کاری ہسپتالوں کی حا لاتٍ زار، علاج کے طریقہ کا ر اور ادوایات کی فراہمی کے نظام میں بہتر ثابت ہو ۔جس سے لوگوں کا اعتماد سرکاری ہسپتالوں کی طرف راغب ہو۔

ارحم خان
roll no: 18-mc-2k17 

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised