Faisal Rehman-BS-III-MC 29 Article-urdu-revised

revised
نام فیصل الرحمان

رول نمبر 2K17-MC-29

آبی بحران سے دو چار بدین کے کاشتکار
جس طرح ملک کے کئی علاقے آبی بحران اور خشک سالی کاشکار ہیں اس طرح بدین کے کاشتکار بھی پانی سے محروم ہیں ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے وسیع رقبے پر اراضی تباہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ضلع بدین کو سلانہ فصلوں کے لئے تقریبا ۱۹ ہزار کیوسک پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے صرف ۳۰ فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے جو کہ اراضی کے لئے نا کافی ہے ۔آبی مسائل کی وجہ سے بڑے رقبے پر محیط زرخیز زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔اب تک پانی کی کمی کی وجہ سے تقریبا ۹۰ ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ بنجر ہو چکا ہے ۔جس کی وجہ سے بہت سے مقامی لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ۔پانی کے اس بحران کی وجہ سے نہ صرف ایک طرف زمینیں بنجر ہو رہی ہیں بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ اس پیشے سے وابستہ ہیں بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
پانی کی کمی کی اک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے بارش نہ ہونے کے سبب کئی تلاب اور گڑھے سوکھ گئے ہیں جو کچھ نہ کچھ حد تک پانی کی کمی کو دور کر دیتے تھے،بدین جو کہ اب تک چاول کی پیداوارکی وجہ سے جانا جاتا ہے آج پانی کی قلت کی وجہ سے چاول کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔ضلع بدین کے ایک کاشتکاراقبال آرائیں کا کہنا ہے کہ اس بار پانی کی کمی اور پانی کے دیر سے ملنے کی وجہ سے فصل اتنے پیمانے پر کا شت نہی ہو سکی ،اور جو فصل لگائی بھی گئی ہے دیر سے لگنے کی وجہ سے ۱۵ سے ۲۰ من تک اوسطا فی ایکڑ میں کی ہوئی ہے۔
بدین کے ایک اور کاشتکار محمد اکرم کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جو تھوڑا بہت پانی دیا جاتا ہے اسے کچھ سیاسی لوگوں کے قریبی ساتھی یا پھر جو بڑہے کا شتکار ہیں وہ ناجائز طریقے سے نہروں سے مشین کے زریعے پانی چوری کرتے ہیں۔جس سے غریب اور چھوٹے کا شتکاروں تک پانی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور ان کے حصے کا پانی بڑے کاشکار استعمال کر لیتے ہیں۔
بدین کے کا شتکار ایک عرصے سے پانی کی قلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراتے رہے رہیں۔ جب چوہدری افتخار محمد چیف جسٹس پاکستان تھے، بدین کے کاشتکار احتجاج ریکارڈ کرانے اسلام آباد بھی گئے تھے۔ لیکن انھیں صرف کئی یقین دہانیاں ہی ملی ،پانی نہیں مل سکا۔ گزشتہ روز کی رپورٹ کے مطابق امام واہ میں پانی کی شدید قلت ہے ۔اس کینال میں دس ماہ سے جاری پانی کی قلت کے خلاف کاشتکار اور دیگر رہائشیوں نے گزشتہ روز احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ دس ماہ سے پانی نہ پہنچنے کے بعد علاقے میں قحط کی صورتحال ہے ۔پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے مویشی پیاسے مر رہے ہیں۔زراعت مکمل طور پر تباہ ہے ۔ لوگ پچاس روپے گیلن کے حساب سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں ۔اس کینال میں صرف دو ماہ کے لیے پانی دیا جاتا ہے۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ آبپاشی عملہ صرف با اثر اور پیسے ادا کرنے والوں کو پانی مہیا کرتا ہے ۔ مسلسل قحط کا شکار کاشتکاروں کے پاس اب پیسے بھی نہیں رہے کہ وہ آبپاشی کے عملے کو دے کر پانی خرید سکیں ۔
بدین ضلع کے کاشتکاروں نے اس بار ایک انوکھا احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے چھ گز سفید کپرے پر کاشکاروں ، دکانداروں اور دیگر لوگوں سے دستخط لینا شروع کئے ہیں یہ درخواست سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کی جائے گی۔
بدین کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کے اس معاملے پر کئی مرتبہ مقامی سطح پر بھی احتجاج کر چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔جب کہ دوسری جانب حیدرآباد کے ڈویزنل کمشنر محمد عباس بلوچ کی جانب سے ۰۴ جنوری کو اجلاس میں ڈپٹی کمشنر بدین حفیظ احمد سیال کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے اور پانی کی منصفانہ تقسیم اور پانی کی چوری کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا حکم دیا اورمذید کہا کہ نہروں سے ناجائز طریقے سے پانی چوری کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروئی کی جائے،اور نہروں کے بلکل آخر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے پانی کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ پانی کے اس بحران سے بچنے کے لیے کوئی مستقل لاہ عمل تیار کیاجائے تا کہ آنے والے وقت میں پانی کی کمی کے اس بحران سے بچا جا سکے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔


Revised 


آبی بحران سے دو چار بدین کے کاشتکار
فیصل الرحمان
رول نمبر 2K17-MC-29
جس طرح ملک کے کئی علاقے آبی بحران اور خشک سالی کاشکار ہیں اس طرح بدین کے کاشتکار بھی پانی سے محروم ہیں ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے وسیع رقبے پر اراضی تباہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ضلع بدین کو سلانہ فصلوں کے لئے تقریبا ۱۹ ہزار کیوسک پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے صرف ۳۰ فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے جو کہ اراضی کے لئے نا کافی ہے ۔آبی مسائل کی وجہ سے بڑے رقبے پر محیط زرخیز زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔اب تک پانی کی کمی کی وجہ سے تقریبا ۹۰ ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ بنجر ہو چکا ہے ۔جس کی وجہ سے بہت سے مقامی لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ۔پانی کے اس بحران کی وجہ سے نہ صرف ایک طرف زمینیں بنجر ہو رہی ہیں بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ اس پیشے سے وابستہ ہیں بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
پانی کی کمی کی اک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے بارش نہ ہونے کے سبب کئی تلاب اور گڑھے سوکھ گئے ہیں جو کچھ نہ کچھ حد تک پانی کی کمی کو دور کر دیتے تھے،بدین جو کہ اب تک چاول کی پیداوارکی وجہ سے جانا جاتا ہے آج پانی کی قلت کی وجہ سے چاول کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔ضلع بدین کے ایک کاشتکاراقبال آرائیں کا کہنا ہے کہ اس بار پانی کی کمی اور پانی کے دیر سے ملنے کی وجہ سے فصل اتنے پیمانے پر کا شت نہی ہو سکی ،اور جو فصل لگائی بھی گئی ہے دیر سے لگنے کی وجہ سے ۱۵ سے ۲۰ من تک اوسطا فی ایکڑ میں کی ہوئی ہے۔
بدین کے ایک اور کاشتکار محمد اکرم کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جو تھوڑا بہت پانی دیا جاتا ہے اسے کچھ سیاسی لوگوں کے قریبی ساتھی یا پھر جو بڑہے کا شتکار ہیں وہ ناجائز طریقے سے نہروں سے مشین کے زریعے پانی چوری کرتے ہیں۔جس سے غریب اور چھوٹے کا شتکاروں تک پانی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور ان کے حصے کا پانی بڑے کاشکار استعمال کر لیتے ہیں۔
بدین کے کا شتکار ایک عرصے سے پانی کی قلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراتے رہے رہیں۔ جب چوہدری افتخار محمد چیف جسٹس پاکستان تھے، بدین کے کاشتکار احتجاج ریکارڈ کرانے اسلام آباد بھی گئے تھے۔ لیکن انھیں صرف کئی یقین دہانیاں ہی ملی ،پانی نہیں مل سکا۔ امام واہ میں پانی کی شدید قلت ہے ۔اس کینال میں دس ماہ سے جاری پانی کی قلت کے خلاف کاشتکار اور دیگر رہائشیوں نے گزشتہ روز احتجاج کیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ دس ماہ سے پانی نہ پہنچنے کے بعد علاقے میں قحط کی صورتحال ہے ۔پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے مویشی پیاسے مر رہے ہیں۔زراعت مکمل طور پر تباہ ہے ۔ لوگ پچاس روپے گیلن کے حساب سے پانی خریدنے پر مجبور ہیں ۔اس کینال میں صرف دو ماہ کے لیے پانی دیا جاتا ہے۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ آبپاشی عملہ صرف با اثر اور پیسے ادا کرنے والوں کو پانی مہیا کرتا ہے ۔ مسلسل قحط کا شکار کاشتکاروں کے پاس اب پیسے بھی نہیں رہے کہ وہ آبپاشی کے عملے کو دے کر پانی خرید سکیں ۔
بدین ضلع کے کاشتکاروں نے اس بار ایک انوکھا احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے چھ گز سفید کپرے پر کاشکاروں ، دکانداروں اور دیگر لوگوں سے دستخط لینا شروع کئے ہیں یہ درخواست سندھ اسمبلی کے اسپیکر کو پیش کی جائے گی۔
بدین کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کے اس معاملے پر کئی مرتبہ مقامی سطح پر بھی احتجاج کر چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔جب کہ دوسری جانب حیدرآباد کے ڈویزنل کمشنر محمد عباس بلوچ کی جانب سے ۰۴ جنوری کو اجلاس میں ڈپٹی کمشنر بدین حفیظ احمد سیال کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے اور پانی کی منصفانہ تقسیم اور پانی کی چوری کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا حکم دیا اورمذید کہا کہ نہروں سے ناجائز طریقے سے پانی چوری کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروئی کی جائے،اور نہروں کے بلکل آخر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے پانی کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ پانی کے اس بحران سے بچنے کے لیے کوئی مستقل لاہ عمل تیار کیاجائے تا کہ آنے والے وقت میں پانی کی کمی کے اس بحران سے بچا جا سکے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

 فیصل الرحمان
رول نمبر 2K17-MC-29 

---------------------------- ---------------------------------------------  ---------  ---------  ----------------------------------------------------------------------
Referred back
add this para
بدین کے کاشکار ایک عرصے سے پانی کی قلت کے خلاف احتجاج ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔ جب چوہدری افتخارمحمد چیف جسٹس تھے، بدین کے کاشتکار احتجاج ریکارڈ کرانے اسلام آباد بھی گئے تھے۔ لیکن انہیں صرف کئی یقین دہانیاں ہی ملی، پانی نہیں مل سکا۔ گزشتہ روز کی رپورت کے مطابق امام واہ میں پانی کی شدید قلت ہے۔ اس کینال میں دس ماہ سے جاری قلت کے خلاف احتجاج کاشتکار اور دیگر رہائشیوں نے گزشتہ روز احتجاج کیا۔ مظارہین کا کہنا ہے کہ دس ماہ سے پانی نہ پہنچنے کے بعد علاقے میں قحط کی صورتحال ہے۔ پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے مویشی پیاسے مر رہے ہیں۔ زراعت مکمل طور پر تباہ ہے۔ لوگ پچاس روپے گیلن کے حساب سے پانی خرید کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کینال میں صرف دو ماہ کے لئے پانی دیا جاتا ہے۔ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ آبپاشی عملہ صرف بااثر اور پیسے ادا کرنے والوں کو پانی مہیا کرتا ہے۔ مسلسل قحط کا شکار کاشتکاروں کے پاس اب پیسے بھی نہیں رہے کہ وہ آبپاشی عملے کو دے کرپانی خرید کر سکیں۔ 
بدین ضلع کے کاشتکاروں نے ایک انوکھا احتجاج کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ انہوں نے چھ گز سفید کپڑے پر کاشتکاروں، دوکانداروں اور دیگر لوگوں سے دستخط لینا شروع کئے ہیں یہ درخواست سندھ اسمبلی کے اسپکیر کو پیش کی جائے گی۔
---------------------------  -------------------------------  --------  --------  --------------------------- ---------------------------
نام فیصل الرحمان
رول نمبر ۲۹
آبی بحران سے دو چار بدین کے کاشتکار
جس طرح ملک کے کئی علاقے آبی بحران اور خشک سالی کاشکار ہیں اس طرح بدین کے کاشتکار بھی پانی سے محروم ہیں ۔ پانی کی کمی کی وجہ سے وسیع رقبے پر اراضی تباہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق ضلع بدین کو سلانہ فصلوں کے لئے تقریبا ۱۹ ہزار کیوسک پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے صرف ۳۰ فیصد پانی دستیاب ہوتا ہے جو کہ اراضی کے لئے نا کافی ہے ۔آبی کی وجہ سے بڑے رقبے پر محیط زرخیز زمین بنجر ہوتی جا رہی ہے۔اب تک پانی کی کمی کی وجہ سے تقریبا ۹۰ ہزار ایکڑ سے زائد رقبہ بنجر ہو چکا ہے ۔جس کی وجہ سے بہت سے مقامی لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ۔پانی کے اس بحران کی وجہ سے نہ صرف ایک طرف زمینیں بنجر ہو رہی ہیں بلکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو کہ اس پیشے سے وابستہ ہیں بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے۔
پانی کی کمی کی اک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی بھی ہے بارش نہ ہونے کے سبب کئی تلاب اور گڑھے سوکھ گئے ہیں جو کچھ نہ کچھ حد تک پانی کی کمی کو دور کر دیتے تھے،بدین جو کہ اب تک چاول کی پیداوارکی وجہ سے جانا جاتا ہے آج پانی کی قلت کی وجہ سے چاول کی پیداوار میں خاطر خواہ کمی آ چکی ہے۔ضلع بدین کے ایک کاشتکاراقبال آرائیں کا کہنا ہے کہ اس بار پانی کی کمی اور پانی کے دیر سے ملنے کی وجہ سے فصل اتنے پیمانے پر کا شت نہی ہو سکی ،اور جو فصل لگائی بھی گئی ہے دیر سے لگنے کی وجہ سے ۱۵ سے ۲۰ من تک اوسطا فی ایکڑ میں کی ہوئی ہے۔
بدین کے ایک اور کاشتکار محمد اکرم کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے جو تھوڑا بہت پانی دیا جاتا ہے اسے کچھ سیاسی لوگوں کے قریبی ساتھی یا پھر جو بڑہے کا شتکار ہیں وہ ناجائز طریقے سے نہروں سے مشین کے زریعے پانی چوری کرتے ہیں۔جس سے غریب اور چھوٹے کا شتکاروں تک پانی کی رسائی ممکن نہیں ہوتی اور ان کے حصے کا پانی بڑے کاشکار استعمال کر لیتے ہیں۔
بدین کے کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کے اس معاملے پر کئی مرتبہ احتجاج بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔جب کہ دوسری جانب حیدرآباد کے ڈویزنل کمشنر محمد عباس بلوچ کی جانب سے ۰۴ جنوری کو اجلاس میں ڈپٹی کمشنر بدین حفیظ احمد سیال کو اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے اور پانی کی منصفانہ تقسیم اور پانی کی چوری کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کا حکم دیا اورمذید کہا کہ نہروں سے ناجائز طریقے سے پانی چوری کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروئی کی جائے،اور نہروں کے بلکل آخر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے پانی کی رسائی کو یقینی بنایا جائے۔
حکومت کو چاہیے کہ پانی کے اس بحران سے بچنے کے لیے کوئی مستقل لاہ عمل تیار کیاجائے تا کہ آنے والے وقت میں پانی کی کمی کے اس بحران سے بچا جا سکے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جا سکے۔

نام فیصل الرحمان
رول نمبر ۲۹

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised