Nabiha Ahmed-Article -ہم بدلنا تو چاہتے ہیں

Revised -- Selected for Magazine 

ہم بدلنا تو چاہتے ہیں لیکن دوسروں کو۔۔۔!

تحریر۔ نبیہا احمد رول نمبر۔۷۱
ٓآرٹیکل 
ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں ہمیں روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی سے واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے ۔ ہر انسان اپنے اندر طرح طرح کی مختلف خوبیا ں اور خامیاں لئے ہوتا ہے ، ہم میں سے ہر ایک دوسرے کی شخصیت کو شعوری و لا شعوری طور پر جج کر رہے ہوتے ہیں ، یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے آپ کو کم اور دوسروں کو زیادہ تنقیدی نگاہوں سے دیکھتا ہے ۔ اپنے تئیں وہ ہر کام صحیح کر رہے ہوتے ہیں لیکن اگر وہی کام دوسرا کرے تو ہمیں اس میں خامیاں نظر آنے لگتی ہے۔

یہ ہی حال عوام اور حکومت کا بھی ہے ہم حکومت پر تنقید کا کوئی پہلو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور خود کو سب چیزوں سے ماورا رکھ کے ہر الزام حکومت کہ سر رکھ دیتے ہیں حالانکہ جس مسئلے کی وجہ ہم حکومت کو ٹہرا کر خود ہر چیز سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں اگر ہم غور کریں تو اکثر اوقات ہم عوام حکومت سے زیادہ غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کا ثبوت دیتی ہے ہر مسئلہ جب تک اژدھے کی صورت اختیار نہیں کرجاتا ہم اس پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھتے ۔

حیدرآباد کے ہی اگر چند بڑے مسائل کی بات کی جائے جس کے بڑھنے کے سبب میں سرکاری اداروں سے زیادہ عوام کا ہاتھ نظر آتا ہے تو ان میں سب سے بڑی مثال بجلی چوری کی ہے ۔ مجموعی طور پر ہر سال اربوں روپے کی بجلی چوری کی جاتی ہے پھر جب حکومت لوڈشیڈنگ کرتی ہے تو عوام اس کے خلاف مغلظات بکتی نظر آتی ہے ۔ جب کہ اسی بجلی چوری میں پورے پورے علاقے ملوث ہوتے ہیں اور جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا یہ اقدام غیر قانونی ہے تو ان کا کہنا ہوتا ہے کہ کیا کریں مجبوری ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ چوری نہیں بھی کرتے وہ بھی انکی روک تھام کے لئے کچھ نہیں کرتے حالانکہ حکومت کی جانب سے کمپلین نمبر بھی جاری کئے جاتے ہیں کہ اگر آپ کسی کو بجلی چوری کرتے دیکھیں تو اس نمبر پر اطلاع دیں ، ایسے میں اگر قصوروار ہم عوام نہیں تو پھر کون ہے؟

اس کے بعد اگر بات کی جائے دوسرے بڑے مسئلے کی تو پانی کی کمی ہمارے بڑے مسئلوں میں سے ایک ہے ۔ آئی ایم ایف(انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ) کے مطابق دنیا میں پانی کی شدید حدتک کمی کو پہنچنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے جبکہ یو این ڈی پی(یونائیٹڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام اور پی سی آر ڈبلییوآر( پاکستان کاؤنسل آف ریسرچ اینڈ واٹر ریسورسز) کے مطابق۲۰۲۵ میں پاکستا ن میں پانی ختم ہوجائیگا۔ایسے میں آپکو پانی کی کمی کا رونا روتا ہر شہری نظر آئے گالیکن جیسے ہی ان کے گھر پانی آتا ہے تو وہی شہری پائپ لگا کر آپکو گاڑی دھوتے، پودوں کو پائپ لگا کر پانی دیتے اور سرِعام پانی کا ضیاع کرتے بھی نظر آئیں گے۔ ایف پی سی سی آئی (فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری)کے مطابق پاکستان میں ۱۰۰۰۰ ٹریلین گیلن پانی سالانہ ضائع ہوتا ہے۔کیا یہ ہماری لاپرواہی اور خود غرضی کا منہ بولتا ثبوت نہیں ؟

اسی طرح اگر بات کی جائے ملک کی خوبصورتی کی تو کسی بھی ملک کی سڑکیں اور دیواریں اس ملک کا خاصہ ہوتی ہیں ۔بیرونِ ملک میں دیواروں پر مختلف قسم کی نقش و نگاری کی جاتی ہیں، اور سڑک پر کچرا پھینکنے پرباقائدہ پابندی ہے جن میں امریکہ، سنگاپور، شمالی کوریا، ہانگ کانگ اور برطانیہ سرِ فہرست ہیں۔لیکن افسوس کے ساتھ ہمارے یہاں چلتی گاڑیوں سے کچرا پھینکنا سب سے عام ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ہمار ا قومی ٹرینڈ بن چکا ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ ہم پاکستانیوں کا خاصہ ہے کہ ہم صرف اپنے گھر کو گھر سمجھتے ہیں اسی لئے صفائی کا خیال بھی صرف اپنے گھر کا ہی کرتے ہیں اس کے علاوہ مصروف ترین شاہراہیں ہوں یا تفریحی پارکس یا پھرتجارتی مرکز سب ہی آپ کو ماحولیاتی آلودگی کی دکان کا منظر پیش کریں گی حالانکہ کچرے دان اور کوڑے دان قریب ہی موجود ہوں گے ،جب کہ کچرے کی روک تھام لے لئے شہر میں باقائدہ طور پر یو سی بنائی گئی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق حیدرآباد میں رو زکے حساب سے ۴ ہزار ٹن کچرا پھینکا جاتا ہے۔

اسی طرح وال چاکنگ بھی ہمارے یہاں اتنی عام ہے کہ شاید ہی آپکو شہر کی کوئی در و دیوار اس سے خالی ملے ،جیسے یہ دیوار نہیں کسی تشہیری مہم کا سرچشمہ ہوں، ہر دیوار آپکو کسی دواخانہ کا پتہ ، کسی عامل کی کرامات کا ذکر یا کسی میرج بیورو کا پتہ بتاتی ملیں گی جیسے ہمارا قومی مسئلہ یہی ہو۔ غرض اگر آپکو اگر کوئی بھی کاروبار شروع کرنا ہو توباقائدہ اشتہار پر پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے ملک کی دیواریں بھی تو اپنی ہیں نہ ایسے میں حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی ’کلین اینڈ گرین‘ جیسی مہم بھی کیا اثر کر سکتی ہیں۔ ۲۰۱۶ کی ڈان نیوز کے مطابق سندھ کی صوبائی وزارتِ داخلہ کی جانب سے ۸۲۵۲۵ کیسز وال چاکنگ کے خلاف درج ہوئیں جس میں ۵۴۶ پر فردِ جرم عائد ہوئیں اور فیصلہ صرف ۴۷ کیسز پر ہوا ۔ حیدرآباد میں درج ذیل کیسز کی تعداد ۵۱ تھی جس میں۸۷ مشتبہ افراد گرفتار ہوئے تاہم سزا کسی بھی کیس پر نہیں سنائی گئی۔

اسی پیرائے میں جب حکمرانوں پر نظر ڈالتے ہیں تو جب وہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو حکومتِ وقت میں ہزاروں عیب نکالتے ہیں ۔ان پر کرپشن ، اقرباء پروری اور بیرونی دوروں پر بڑی تنقیدکرتے ہیں مگر جب یہ خود صاحبِ اقتدار ہوجاتے ہیں تو انہی سب باتوں پر عمل کرنے میں کوئی عارنہیں سمجھتے جو پچھلی حکومتیں کیا کرتی تھیں ۔ 

شیکسپےئر کہتا ہے کہ:

’جو ملک سے محبت نہیں کرتا،وہ کسی چیز سے محبت نہیں کرتا‘ 
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شخص اپنا احتساب خود کرے نہ کہ دوسروں کا کہ آیا میں کتنا دوسروں کے لئے فائدے مند ہوں، میری ذات سے کسی کونقصان یاضرر تو نہیں پہنچ رہا ہے ، میرے کرداروگفتار سے کوئی نالاں تو نہیں۔ ورنہ اگر ہم یونہی کرتے رہے اور اسی طرح معاشی اور سماجی بگاڑ کا حصہ بنے رہے اور دوسروں کو مورودِالزام ٹہراتے رہے تو ہم شاید اپنا تمام وقار کھو دیں ۔ اس لئے خود احتسابی کو ہر معاملے میں آگے رکھیں اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کی بھی اصلاح کیلئے بھی مخلصانہ کوشش کریں ، باہمی تعاون سے نہ صرف یہ کہ ان مسائل کا حل نکالیں بلکہ ایمانداری سے اپنی اپنی ذمہ داری کو پورا کریں حکومت پہ صرف الزام تراشی کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کریں اور ملک کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔اس سے نا صرف معاشرے میں سدھار آئے گا بلکہ آپس میں یکجہتی ، محبت اور ہم آہنگی بھی بڑھے گی۔ 

487  words????.
This is not article, it needs soem facts, example, reference. These are supposed to be ur impression
Nothing is current, relevant made in it
ہم بدلنا تو چاہتے ہیں لیکن دوسروں کو۔۔۔!

تحریر: نبیہا احمدرول نمبر۔۷۱

ہر ایک یہ سوچ کر بڑا ہوتا ہے کہ میں بڑا ہو کہ دنیابدل دوں گا ۔آج بھی ہر ایک یہی چاہتا ہے کہ دنیا بدل دوں لیکن المیہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ تو اپنے حالات بھی نہیں بدل پاتے اس کی وجہ ان کے اس جملے میں ہی پوشیدہ ہے جس میں ہر ایک صرف دنیا بدلنا چاہتا ہے خود کی طرف تو اس کا دھیان ہی نہیں جاتاپھر اسی طرح ہم خود کو سب چیزوں سے ماورا رکھ کے ہر الزام دوسروں پہ رکھ دیتے ہیں یہ تقریباً ہر ایک کا شیوہ بن چکا ہے جس طرح ہم ہر مسئلے کی وجہ حکومت کو ٹہرا کر خودکو ہر چیز سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر ہم غور کریں تو اکثر اوقات ہم عوام حکومت سے زیادہ غیر ذمہ داری اور لاپرواہی کا ثبوت دیتی ہے ہر مسئلہ جب تک اژدھے کی صورت اختیار نہیں کرجاتا ہم اس پر دھیان دینا ضروری نہیں سمجھتے ۔

حکومت کے کام نہ کرنے کا رونا لے کر ہم نے جتنی تباہی کی شاید ہی کسی ملک کے عوام نے ایسا کیا ہو پھر چاہے وہ ہڑتال کے دوران مشتعل ہو کر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا ہو یا پانی کی لائنز میں بوریاں ڈال کر انہیں بلاک کرنا اور پھر وہی پانی مہنگے داموں عوام کو ترسا ترساکر دینا، یا پھر پارکس کو کچرے کا ڈھیر بنا دینا ، سی ویو اور ہاکس بے جیسی تفریح گاہوں کو ما حولیاتی آلودگی کی دکان بنادینا یا پھر سرکاری اسکولوں کو شادی ہال یا بھینسوں کے باڑے میں تبدیل کر دینا غر ض کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی جسے تباہ کرنے میں ہم نے کوئی کمی چھوڑی ہو۔غیر قانونی زمینوں پر قبضے کی بات کی جائے تواس کی حالیہ مثال ان ہی دنوں میں دیکھنے میں آئی جب سپریم کورٹ کے آرڈر پر شروع ہونے والے غیر قانونی تجاوزات کو مسمار کرنے کے لئے شروع ہونے والے آپریشن میں ’کے ایم سی(کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن) ‘ کے مطابق ۲۵۰۰ سے زائد دکانیں مسمار کی گئیں۔

شیکسپےئر کہتا ہے کہ: ’جو ملک سے محبت نہیں کرتا،وہ کسی چیز سے محبت نہیں کرتا‘ 
اس پیرائے میں اگر ہم خود کو دیکھیں تو شاید جان پائیں کہ اگر ہم اب بھی خود کو نہ بدل سکے اور اسی طرح معاشی اور سماجی بگاڑ کا حصہ بنے رہے اور دوسروں کو مورودِالزام ٹہراتے رہے تو ہم شاید اپنا تمام وقار کھو دیں۔اس وقت ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم باہمی تعاون سے نہ صرف یہ کہ ان مسائل کا حل نکالیں بلکہ ایمانداری سے اپنی اپنی ذمہ داری کو پورا کریں حکومت پہ صرف الزام تراشی کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کریں اور ملک کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔
Nabiha

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised