Waleed Bin Khalid-BS Part-III- 105 Article-revised
revised
تعلیم نسواں ضروری مگر
ولید بن خالد2k17-MC-105
تعلیم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر لازم ہے۔ ترقی صرف وہ ہی قوم کر سکتی ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیوں اس تعلیم کے بغیر انسان جاہل ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازم ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے خواہ اس کے لئے دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا سمندرہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہو سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں نکھارصرف علم سے ہی آ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے تعلیم عورتوں کے لئے بھی اتنی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے ہے اگر ایک پہیا خراب ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔
بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کی پرورش اچھے حالات میں ہوتی ہے۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں ہی اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہوں گی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔آبادی کا تقریباً نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جن کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی جو کہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
باہرممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالع کرتی ہے اُن کا ماننا ہے کہ اس عمل سے بچہ کے دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے اور اٗس کی تعلیم کا صلصلہ ماں کی گووھ ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔
تعلیم جیسے لڑکوں کے لیے ضروری ہے ایسے ہی آجکل کے جدید دور میں لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم بہت ضروری ہے۔ہمارے ملک میں غربت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور مشاہدے سے معلوم ہوتاہے کہ ایک آمدنی سے گھر کے اخراجات مکمل نہیں ہوتے ایسے حالات میں تعلیمِ نسواں ہی ہے جومرد کی کفالت کرتی ہے او رعورتوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ مرد کے شانہ بہ شانہ گھر کو سمبھال سکتی ہے۔مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی اس جدید دور میں بھی ہمارے ملک میں نصف سے زائد خاندان تعلیمِ نسواں کے خلاف دکھائی دیتے ہیں اور اپنی بہن بیٹیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے یا زیادہ سے زیادہ بارہویں جماعت تک پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں جو آج کے دور میں بے معنیٰ ہے۔اور صرف بارہ جماعتیں پڑھ لینے سے کوئی بھی لڑکی ملک کی خدمت اور ترقی میں حصہ نہیں لے سکتی ۔
حال ہی کی بات ہے کہ ایک پڑوسی نے اپنی بیٹی کی بارہویں کے امتحانات سے پہلے ہی شادی کردی اور یہ بات واضح ہے کہ وہ اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔یہ محض ایک ہی مثال ہے مگر ایسی بہت سی مثالیں ہمیں اپنے ارد گرد دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جن کی کو ئی روک تھام نہیں ہے۔ مگر اس کہ ساتھ کم ہی سہی مگر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جونہ صرف اپنی بہن بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اِس بات کی ترغیب دیتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کو بھی چاہیئے کہ تعلیمِ نسواں کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کریں تا کہ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی اس ملک کی ترقی میں برابر کی شرکت کر سکیں اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔
Its too general. make it current relevant. It does not show when it was written.
Some figures, reports etc. Otherwise its essay.
Narrow down topic. as we discussed.
Rferred back, refile till Feb 18
تعلیم نسواں ضروری مگر
ولید بن خالد2k17-MC-105
تعلیم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر لازم ہے۔ ترقی صرف وہ ہی قوم کر سکتی ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیوں اس تعلیم کے بغیر انسان جاہل ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازم ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے خواہ اس کے لئے دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا سمندرہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہو سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں نکھارصرف علم سے ہی آ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے تعلیم عورتوں کے لئے بھی اتنی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے ہے اگر ایک پہیا خراب ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔
بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کی پرورش اچھے حالات میں ہوتی ہے۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں ہی اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہوں گی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔آبادی کا تقریباً نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جن کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی جو کہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہے۔ہمارے ہاں تو عورتوں کی بڑی تعداد بنیادی تعلیم تک سے محروم ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے میں بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں۔
۱۔: گرلزسکول کی کمی ہے۔بہت سے دیہاتوں میں اول تو گرلز سکول نہیں اگر سکول ہیں بھی تو وہ صرف پرائمری لیول تک ہیں۔
۲۔: ان پڑھ والدین بچیوں کو پڑھانے کے حق میں نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے گھر جا کر انہوں نے گھر میں ہی رہنا ہے کونسا نوکری کرنی ہے۔جس کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کو پرائمری تک تعلیم دلوا کر اپنے گھر کی چار دیواری میں قید کرلیتے ہیں۔
۳۔: غریب لوگ اپنی غربت کی وجہ سے بھی بچیوں کو تعلیم نہیں دلواتے۔
۴۔ : دور دراز سکول ہونے کی وجہ سے بھی لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم محروم رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی بچیوں کو حصول تعلیم کے لیے دوسرے شہر بھیجتے ہیں تو وہ آجکل کے بے حیائی اورغیر اخلاقی حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور مجبوراً بچیوں کو اپنے گھر بیٹھا لیتے ہیں۔
تعلیم جیسے لڑکوں کے لیے ضروری ہے ایسے ہی آجکل کے جدید دور میں لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم بہت ضروری ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کے لیے شہر شہر، گاؤں گاؤں ا سکول بنائے اور جن دیہاتوں میں پرائمر ی یا مڈل سکول ہیں وہاں ہائیر سیکنڈری یا کالج بنائے تاکہ ہمارے مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اپنے گھر سے ابتدائی تعلیم اور اخلاقی تعلیم حاصل کرکے میدان زندگی میں قدم رکھیں۔
حکومت والدین کے لیے قانون سازی کرے کہ وہ اپنی بچیوں کو ہر حال میں سکول داخل کرائیں اور جو والدین داخل نہیں کراتے انہوں جرمانہ کیا جائے۔
ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ سکولز میں بچوں اور بچیوں کو وہ تعلیم وتربیت نہیں دی جاتی جس کا یہ بچے حق رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام سکولز میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر دیہاتوں کے سکولوں میں دیکھا ہے کہ اساتذہ کی نااہلی کی وجہ سے بچے ادھر تعلیم حاصل کرنے کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔حکومت کو اپنے گورنمنٹ اسکول اور کالج پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے تا کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروا سکے۔
اس جدید دور میں بچیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں اپنی اولاد کی بہتر تربیت کر سکتی ہے اور وقت پڑنے پر اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے۔ تعلیم عورت کو خوداعتمادی عطا کرتی ہے اور اسے خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے۔ اب معاشرے میں ایک تبدیلی دیکھی جار ہی ہے کہ لوگ اپنی بچیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ خواتین میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس، تجارت، بینکاری اور صحافت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں کارنامے سرانجام دیتی نظر آرہی ہیں۔ایک بات جو بہت اہم ہے کہ مرد کی تعلیم تو صرف مرد کو فائدہ دیتی مگر عورت کی تعلیم اسکے ساتھ ساتھ نسلوں تک کو سنوار دیتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ ہم بچیوں کی تعلیم کے لئے کوشاں ہی نہ رہیں بلکہ ان کی تعلیم کو ضروری سمجھتے ہوئے اپنے فرائض میں شامل کرلیں اور صرف حکومت ہی نہیں یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم خود بھی اپنی بچیوں اور بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں اور ان لوگوں کو بھی ترغیب دیں جو بچیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں۔
تعلیم نسواں ضروری مگر
ولید بن خالد2k17-MC-105
تعلیم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر لازم ہے۔ ترقی صرف وہ ہی قوم کر سکتی ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیوں اس تعلیم کے بغیر انسان جاہل ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازم ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے خواہ اس کے لئے دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا سمندرہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہو سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں نکھارصرف علم سے ہی آ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے تعلیم عورتوں کے لئے بھی اتنی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے ہے اگر ایک پہیا خراب ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔
بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کی پرورش اچھے حالات میں ہوتی ہے۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں ہی اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہوں گی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔آبادی کا تقریباً نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جن کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی جو کہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
باہرممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالع کرتی ہے اُن کا ماننا ہے کہ اس عمل سے بچہ کے دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے اور اٗس کی تعلیم کا صلصلہ ماں کی گووھ ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔
تعلیم جیسے لڑکوں کے لیے ضروری ہے ایسے ہی آجکل کے جدید دور میں لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم بہت ضروری ہے۔ہمارے ملک میں غربت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور مشاہدے سے معلوم ہوتاہے کہ ایک آمدنی سے گھر کے اخراجات مکمل نہیں ہوتے ایسے حالات میں تعلیمِ نسواں ہی ہے جومرد کی کفالت کرتی ہے او رعورتوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ مرد کے شانہ بہ شانہ گھر کو سمبھال سکتی ہے۔مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی اس جدید دور میں بھی ہمارے ملک میں نصف سے زائد خاندان تعلیمِ نسواں کے خلاف دکھائی دیتے ہیں اور اپنی بہن بیٹیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے یا زیادہ سے زیادہ بارہویں جماعت تک پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں جو آج کے دور میں بے معنیٰ ہے۔اور صرف بارہ جماعتیں پڑھ لینے سے کوئی بھی لڑکی ملک کی خدمت اور ترقی میں حصہ نہیں لے سکتی ۔
حال ہی کی بات ہے کہ ایک پڑوسی نے اپنی بیٹی کی بارہویں کے امتحانات سے پہلے ہی شادی کردی اور یہ بات واضح ہے کہ وہ اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔یہ محض ایک ہی مثال ہے مگر ایسی بہت سی مثالیں ہمیں اپنے ارد گرد دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جن کی کو ئی روک تھام نہیں ہے۔ مگر اس کہ ساتھ کم ہی سہی مگر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جونہ صرف اپنی بہن بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اِس بات کی ترغیب دیتے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کو بھی چاہیئے کہ تعلیمِ نسواں کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کریں تا کہ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی اس ملک کی ترقی میں برابر کی شرکت کر سکیں اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔
Its too general. make it current relevant. It does not show when it was written.
Some figures, reports etc. Otherwise its essay.
Narrow down topic. as we discussed.
Rferred back, refile till Feb 18
تعلیم نسواں ضروری مگر
ولید بن خالد2k17-MC-105
تعلیم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر لازم ہے۔ ترقی صرف وہ ہی قوم کر سکتی ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیوں اس تعلیم کے بغیر انسان جاہل ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازم ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے خواہ اس کے لئے دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا سمندرہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہو سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں نکھارصرف علم سے ہی آ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے تعلیم عورتوں کے لئے بھی اتنی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے ہے اگر ایک پہیا خراب ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔
بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کی پرورش اچھے حالات میں ہوتی ہے۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں ہی اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہوں گی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔آبادی کا تقریباً نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جن کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی جو کہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔عورت کی تعلیم پورے خاندان کی تعلیم ہے۔ہمارے ہاں تو عورتوں کی بڑی تعداد بنیادی تعلیم تک سے محروم ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں لڑکیوں کو تعلیم دلوانے میں بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں۔
۱۔: گرلزسکول کی کمی ہے۔بہت سے دیہاتوں میں اول تو گرلز سکول نہیں اگر سکول ہیں بھی تو وہ صرف پرائمری لیول تک ہیں۔
۲۔: ان پڑھ والدین بچیوں کو پڑھانے کے حق میں نہیں ہوتے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے گھر جا کر انہوں نے گھر میں ہی رہنا ہے کونسا نوکری کرنی ہے۔جس کی وجہ سے لوگ اپنی بچیوں کو پرائمری تک تعلیم دلوا کر اپنے گھر کی چار دیواری میں قید کرلیتے ہیں۔
۳۔: غریب لوگ اپنی غربت کی وجہ سے بھی بچیوں کو تعلیم نہیں دلواتے۔
۴۔ : دور دراز سکول ہونے کی وجہ سے بھی لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم محروم رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی بچیوں کو حصول تعلیم کے لیے دوسرے شہر بھیجتے ہیں تو وہ آجکل کے بے حیائی اورغیر اخلاقی حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور مجبوراً بچیوں کو اپنے گھر بیٹھا لیتے ہیں۔
تعلیم جیسے لڑکوں کے لیے ضروری ہے ایسے ہی آجکل کے جدید دور میں لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم بہت ضروری ہے۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بچیوں کی تعلیم کے لیے شہر شہر، گاؤں گاؤں ا سکول بنائے اور جن دیہاتوں میں پرائمر ی یا مڈل سکول ہیں وہاں ہائیر سیکنڈری یا کالج بنائے تاکہ ہمارے مستقبل کی باگ دوڑ سنبھالنے والے اپنے گھر سے ابتدائی تعلیم اور اخلاقی تعلیم حاصل کرکے میدان زندگی میں قدم رکھیں۔
حکومت والدین کے لیے قانون سازی کرے کہ وہ اپنی بچیوں کو ہر حال میں سکول داخل کرائیں اور جو والدین داخل نہیں کراتے انہوں جرمانہ کیا جائے۔
ہماری بدقسمتی یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ سکولز میں بچوں اور بچیوں کو وہ تعلیم وتربیت نہیں دی جاتی جس کا یہ بچے حق رکھتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تمام سکولز میں ایسا ہی ہوتا ہے مگر دیہاتوں کے سکولوں میں دیکھا ہے کہ اساتذہ کی نااہلی کی وجہ سے بچے ادھر تعلیم حاصل کرنے کی بجائے پرائیویٹ سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔حکومت کو اپنے گورنمنٹ اسکول اور کالج پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے تا کہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروا سکے۔
اس جدید دور میں بچیوں کی تعلیم بہت ضروری ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں اپنی اولاد کی بہتر تربیت کر سکتی ہے اور وقت پڑنے پر اپنے بچوں کی کفالت کر سکتی ہے۔ تعلیم عورت کو خوداعتمادی عطا کرتی ہے اور اسے خود پر بھروسہ کرنا سکھاتی ہے۔ اب معاشرے میں ایک تبدیلی دیکھی جار ہی ہے کہ لوگ اپنی بچیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ خواتین میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس، تجارت، بینکاری اور صحافت سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں کارنامے سرانجام دیتی نظر آرہی ہیں۔ایک بات جو بہت اہم ہے کہ مرد کی تعلیم تو صرف مرد کو فائدہ دیتی مگر عورت کی تعلیم اسکے ساتھ ساتھ نسلوں تک کو سنوار دیتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ ہم بچیوں کی تعلیم کے لئے کوشاں ہی نہ رہیں بلکہ ان کی تعلیم کو ضروری سمجھتے ہوئے اپنے فرائض میں شامل کرلیں اور صرف حکومت ہی نہیں یہ ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم خود بھی اپنی بچیوں اور بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں اور ان لوگوں کو بھی ترغیب دیں جو بچیوں کی تعلیم کے حق میں نہیں۔
Comments
Post a Comment