Ahsan nizamani profile urdu ماروی شیخ revised
Revised
--------------- --------------------------------- ---------------------------
She is progressive and political activist, this aspect has not been properly highlighted.
What inspired her to become so? what made her?
Some comparison and contrast with other activists etc.
ماروی شیخ
احسن نظامانی۔
رول نمبر: 7۔
بی ایس پارٹ 3 ۔
مس ماروی شیخ عورتوں کو اُن کے حق سے اآگاہی فراہم کرنے کی علمبردار۔
میڈم ماروی شیخ جامع سندھ کے انگلش شعبہ کی ایک قابل لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اُن کے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی علمبردار ہیں۔ کہا جاتاہے وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ لیکن ہمارے معاشرے میں کئی جگہ عورتوں کو اُن کے حق سے محروم رکھنا اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنا جا بجا دکھائی دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تولوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور اس بارے میں بہت کم ہی آواز اُٹھائی جاتی ہے ۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہو ئی سندھ اور اندورن سندھ کی پستی ہوئی عورت جو ظلم وزیادتی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھی تھی 249 اُس عورت کو حق دلوانے اور اُسے معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے اور ہمت فراہم کرنے کے لیے مس ماروی شیخ نے سندھ میں قدم بڑھایا۔
گوری رنگت 249 خوبصورت چہرہ 249 خوش شکل 249خوش مزاج 249 عزم ہمت کی جیتی جاگتی تصویر 249بلند حوصلے کی زندہ مثال مس ماروی شیخ 5جولائی 1990میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک مہذب شیخ خاندان میں آنکھ کھولی 249 ابتدائی تعلیم اولڈ کمپس موڈل ہا ئی اسکول حیدرآباد سے حاصل کی جب کے چھٹی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کا انتخاب کیا ۔ تعلیم کے سفر کو آگے بڑھایا اور نزرتھ گرلزکالج سے ایف اے کیا 249 اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 249انگریزی ادب میں جامع سندھ سے بیچلر کیا۔
تعلیم کے اس سفر کو انھوں نے توسیع دی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا جس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے مہران یونیوورسٹی جامشورو میں تربیت حاصل کی پھر پاک ترک اسکول کالج کراچی میں چندھ سال استاد کے فرائض سر انجام دیئے کچھ عرصے کے لیے نمل یونیورسٹی اور پیٹارو کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا 2007 میں جامعہ سندھ جامشورو کے شعبہ انگلش میں لیکچرار کی حیثیت سے فائز ہوئیں ۔
مس ماروی شیخ کے مطابق عورت ہونے کی حیثیت سے زندگی کے ہر میدان اُنھیں بہت سے خراب ذہنیت کے افراد اور اُن پر اُٹھتی بُری نظروں کا سامنا کرنا پڑا مگر اُن کے اندر موجود ہمت اور اعتماد کی وجہ سے انھوں نے ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے سوچا کہ عورت کی فلاح کے لیے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سماجی کام شروع کرنا ضروری ہے۔سب سے پہلے کچھ دوستوں کی مدد سے سندھ کا پہلا رعورتوں کے حوالے سے میگزین شائع کیا جس کا نام (ناری وادھ)تھا اس کا مقصد عورتوں اور لڑکیوں میں اُن کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔
مس ماروی کے چند جاننے والوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ایک بہت ہی خوش آئندقدم ہے جس کا مقصد سندھ میں عورت کو آزاد کرنا ہے اُن لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ جس طرح خود ایک با اعتماد خاتون ہیں اس طرح وہ ہر عورت کو ظلم وستم کے دلدل سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔
مس ماروی شیخ نے بتایا کہ اُن کے اور اُن کے ساتھ قریبی لوگوں کی محنت بہت حد تک رنگ لائی ہے جس کے ایک مثال وومن ڈیموکریٹک فرنٹ (یہ کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی ہم فنڈ لیتے ہیں ) قائم کرنا ہے یہ 8 مارچ 2018کو اسلام آباد میں ایک سماجی تنظیم کی صورت میں اُجاگر ہوئی جو اب پاکستان کے کئی شہروں میں کا م کر رہی ہے ۔ جس کا مقصد عورت کو خودمختار بنانا ہے۔
ان کے شاگردوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ ایک با صلاحیت با عتماد اور خوش اخلاق استاد ہیں جوہر قدم پر ہمیں مستقبل کے حوالے سے مفید مشورے فراہم کرتی ہیں ۔
مس ماروی کے مخالف لوگوں کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کی وجہ سے عورت خود سُر ہوتی جارہی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے لڑکیوں میں بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
مس ماروی کا اپنے مخالفین کے بارے میں صرف اتنا کہنا تھا کہ ہر اچھے کام کے پیچھے بہت سے لوگ باتیں بناتے ہیں لیکن ہم اس طرح کی کسی بات پر دھیان نہیں دیتے بلکہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں۔
مس ماروی شیخ کا کہنا ہے کے ہم اپنے اس مشن میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ہمارا مقصد سندھ کی عورت کو گھریلو ظلم سے آزاد کرکے خودمختار بنانا ہے کیونکہ کے جب تک عورت اپنے حو کے لیے خود آواز نہیں اٹھائے گی کوئی بھی قوت اُس کو انصاف نہیں دلوا سکتی ۔
مستقبل ہمارے اس تنظیم کا روشن ہے اور ہم اپنے مقاصد کو بہت جلد حاصل کرلیں گے ۔
ماروی شیخ خواتین کے حقوق کی علمبردار
ماروی شیخ جامع سندھ کے انگلش شعبہ کی ایک قابل لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اُن کے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی علمبردار ہیں۔ کہا جاتاہے وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ لیکن ہمارے معاشرے میں کئی جگہ عورتوں کو اُن کے حق سے محروم رکھنا اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنا جا بجا دکھائی دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تولوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور اس بارے میں بہت کم ہی آواز اُٹھائی جاتی ہے ۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہو ئی سندھ اور اندورن سندھ کی پستی ہوئی عورت جو ظلم وزیادتی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھی تھی 249 اُس عورت کو حق دلوانے اور اُسے معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے اور ہمت فراہم کرنے کے لیے مس ماروی شیخ نے سندھ میں قدم بڑھایا۔
گوری رنگت 249 خوبصورت چہرہ 249 خوش شکل 249خوش مزاج 249 عزم ہمت کی جیتی جاگتی تصویر 249بلند حوصلے کی زندہ مثال مس ماروی شیخ 5جولائی 1990میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک مہذب شیخ خاندان میں آنکھ کھولی 249 ابتدائی تعلیم اولڈ کمپس موڈل ہا ئی اسکول حیدرآباد سے حاصل کی جب کے چھٹی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کا انتخاب کیا ۔ تعلیم کے سفر کو آگے بڑھایا اور نزرتھ گرلزکالج سے ایف اے کیا 249 اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 249انگریزی ادب میں جامع سندھ سے بیچلر کیا۔
تعلیم کے اس سفر کو انھوں نے توسیع دی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا جس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے مہران یونیوورسٹی جامشورو میں تربیت حاصل کی پھر پاک ترک اسکول کالج کراچی میں چندھ سال استاد کے فرائض سر انجام دیئے کچھ عرصے کے لیے نمل یونیورسٹی اور پیٹارو کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا 2007 میں جامعہ سندھ جامشورو کے شعبہ انگلش میں لیکچرار کی حیثیت سے فائز ہوئیں ۔
ماروی شیخ کے مطابق عورت ہونے کی حیثیت سے زندگی کے ہر میدان اُنھیں بہت سے خراب ذہنیت کے افراد اور اُن پر اُٹھتی بُری نظروں کا سامنا کرنا پڑا دن بہ دن وہ معاشرے کے ان کم عقل 249 دقیانوسی سوچ رکھنے والے لوگ اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں پدر شاہت مطلب والد کی طرف سے بیٹی کے لیے حکمرانہ سوچ رکھنے کی وجہ سے وہ اس بات پر آمادہ ہوئیں بلکہ مجبور ہوئیں کہ عورت کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیئے اس بات نے انھیں غور و غور میں مبتلا کیا اور وہ انھوں نے سوچا کہ اُن کے اندر موجود ہمت اور اعتماد کی وجہ سے انھوں نے ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے سوچا کہ عورت کی فلاح کے لیے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سماجی کام شروع کرنا ضروری ہے۔سب سے پہلے کچھ دوستوں کی مدد سے سندھ کا پہلا رعورتوں کے حوالے سے میگزین شائع کیا جس کا نام (ناری وادھ)تھا اس کا مقصد عورتوں اور لڑکیوں میں اُن کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔
ماروی کے چند جاننے والوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ایک بہت ہی خوش آئندقدم ہے جس کا مقصد سندھ میں عورت کو آزاد کرنا ہے اُن لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ جس طرح خود ایک با اعتماد خاتون ہیں اس طرح وہ ہر عورت کو ظلم وستم کے دلدل سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔
ماروی شیخ نے بتایا کہ اُن کے اور اُن کے ساتھ قریبی لوگوں کی محنت بہت حد تک رنگ لائی ہے جس کے ایک مثال وومن ڈیموکریٹک فرنٹ (یہ کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی ہم فنڈ لیتے ہیں ) قائم کرنا ہے یہ 8 مارچ 2018کو اسلام آباد میں ایک سماجی تنظیم کی صورت میں اُجاگر ہوئی جو اب پاکستان کے کئی شہروں میں کا م کر رہی ہے ۔ جس کا مقصد عورت کو خودمختار بنانا ہے یہ تنظیم صرف سماجی حیثیت سے کام نہیں کررہی بلکہ پہلی ایسی سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد عورت کو خود مختار بنانا ہے ۔مس ماروی شیخ اس مناسبت سے نہ صرف سماجی بلکہ سیاسی طور پر بھی بہت زیادہ کام کررہی ہیں۔
اگر ماروی شیخ کا موازنہ دوسرے سماجی تنظموں کے ممبران یا سربراہان سے کریں تو وہ اُن سے اس طرح سے زیادہ نمایاں ہیں کیونکہ اُن کا اہم مقصد معاشرے میں عورت کو ہر طرح سے مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑا کرنا ہے پدر شاہت اور غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانا ہے جس کے لیے انھوں نے یہ قدم اٹھایا عورت کو خود مختار بنانا ہے۔
ان کے شاگردوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ ایک با صلاحیت با عتماد اور خوش اخلاق استاد ہیں جوہر قدم پر ہمیں مستقبل کے حوالے سے مفید مشورے فراہم کرتی ہیں ۔
ماروی کے مخالف لوگوں کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کی وجہ سے عورت خود سُر ہوتی جارہی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے لڑکیوں میں بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
مس ماروی کا اپنے مخالفین کے بارے میں صرف اتنا کہنا تھا کہ ہر اچھے کام کے پیچھے بہت سے لوگ باتیں بناتے ہیں لیکن ہم اس طرح کی کسی بات پر دھیان نہیں دیتے بلکہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں۔
ماروی شیخ کا کہنا ہے کے ہم اپنے اس مشن میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ہمارا مقصد سندھ کی عورت کو گھریلو ظلم سے آزاد کرکے خودمختار بنانا ہے کیونکہ کے جب تک عورت اپنے حو کے لیے خود آواز نہیں اٹھائے گی کوئی بھی قوت اُس کو انصاف نہیں دلوا سکتی ۔
مستقبل ہمارے اس تنظیم کا روشن ہے اور ہم اپنے مقاصد کو بہت جلد حاصل کرلیں گے ۔
ماروی شیخ جامع سندھ کے انگلش شعبہ کی ایک قابل لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اُن کے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی علمبردار ہیں۔ کہا جاتاہے وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ لیکن ہمارے معاشرے میں کئی جگہ عورتوں کو اُن کے حق سے محروم رکھنا اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنا جا بجا دکھائی دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تولوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور اس بارے میں بہت کم ہی آواز اُٹھائی جاتی ہے ۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہو ئی سندھ اور اندورن سندھ کی پستی ہوئی عورت جو ظلم وزیادتی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھی تھی 249 اُس عورت کو حق دلوانے اور اُسے معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے اور ہمت فراہم کرنے کے لیے مس ماروی شیخ نے سندھ میں قدم بڑھایا۔
گوری رنگت 249 خوبصورت چہرہ 249 خوش شکل 249خوش مزاج 249 عزم ہمت کی جیتی جاگتی تصویر 249بلند حوصلے کی زندہ مثال مس ماروی شیخ 5جولائی 1990میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک مہذب شیخ خاندان میں آنکھ کھولی 249 ابتدائی تعلیم اولڈ کمپس موڈل ہا ئی اسکول حیدرآباد سے حاصل کی جب کے چھٹی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کا انتخاب کیا ۔ تعلیم کے سفر کو آگے بڑھایا اور نزرتھ گرلزکالج سے ایف اے کیا 249 اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 249انگریزی ادب میں جامع سندھ سے بیچلر کیا۔
تعلیم کے اس سفر کو انھوں نے توسیع دی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا جس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے مہران یونیوورسٹی جامشورو میں تربیت حاصل کی پھر پاک ترک اسکول کالج کراچی میں چندھ سال استاد کے فرائض سر انجام دیئے کچھ عرصے کے لیے نمل یونیورسٹی اور پیٹارو کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا 2007 میں جامعہ سندھ جامشورو کے شعبہ انگلش میں لیکچرار کی حیثیت سے فائز ہوئیں ۔
ماروی شیخ کے مطابق عورت ہونے کی حیثیت سے زندگی کے ہر میدان اُنھیں بہت سے خراب ذہنیت کے افراد اور اُن پر اُٹھتی بُری نظروں کا سامنا کرنا پڑا دن بہ دن وہ معاشرے کے ان کم عقل 249 دقیانوسی سوچ رکھنے والے لوگ اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں پدر شاہت مطلب والد کی طرف سے بیٹی کے لیے حکمرانہ سوچ رکھنے کی وجہ سے وہ اس بات پر آمادہ ہوئیں بلکہ مجبور ہوئیں کہ عورت کے حقوق کے حوالے سے آواز بلند کرنی چاہیئے اس بات نے انھیں غور و غور میں مبتلا کیا اور وہ انھوں نے سوچا کہ اُن کے اندر موجود ہمت اور اعتماد کی وجہ سے انھوں نے ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے سوچا کہ عورت کی فلاح کے لیے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سماجی کام شروع کرنا ضروری ہے۔سب سے پہلے کچھ دوستوں کی مدد سے سندھ کا پہلا رعورتوں کے حوالے سے میگزین شائع کیا جس کا نام (ناری وادھ)تھا اس کا مقصد عورتوں اور لڑکیوں میں اُن کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔
ماروی کے چند جاننے والوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ایک بہت ہی خوش آئندقدم ہے جس کا مقصد سندھ میں عورت کو آزاد کرنا ہے اُن لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ جس طرح خود ایک با اعتماد خاتون ہیں اس طرح وہ ہر عورت کو ظلم وستم کے دلدل سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔
ماروی شیخ نے بتایا کہ اُن کے اور اُن کے ساتھ قریبی لوگوں کی محنت بہت حد تک رنگ لائی ہے جس کے ایک مثال وومن ڈیموکریٹک فرنٹ (یہ کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی ہم فنڈ لیتے ہیں ) قائم کرنا ہے یہ 8 مارچ 2018کو اسلام آباد میں ایک سماجی تنظیم کی صورت میں اُجاگر ہوئی جو اب پاکستان کے کئی شہروں میں کا م کر رہی ہے ۔ جس کا مقصد عورت کو خودمختار بنانا ہے یہ تنظیم صرف سماجی حیثیت سے کام نہیں کررہی بلکہ پہلی ایسی سیاسی تنظیم ہے جس کا مقصد عورت کو خود مختار بنانا ہے ۔مس ماروی شیخ اس مناسبت سے نہ صرف سماجی بلکہ سیاسی طور پر بھی بہت زیادہ کام کررہی ہیں۔
اگر ماروی شیخ کا موازنہ دوسرے سماجی تنظموں کے ممبران یا سربراہان سے کریں تو وہ اُن سے اس طرح سے زیادہ نمایاں ہیں کیونکہ اُن کا اہم مقصد معاشرے میں عورت کو ہر طرح سے مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑا کرنا ہے پدر شاہت اور غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروانا ہے جس کے لیے انھوں نے یہ قدم اٹھایا عورت کو خود مختار بنانا ہے۔
ان کے شاگردوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ ایک با صلاحیت با عتماد اور خوش اخلاق استاد ہیں جوہر قدم پر ہمیں مستقبل کے حوالے سے مفید مشورے فراہم کرتی ہیں ۔
ماروی کے مخالف لوگوں کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کی وجہ سے عورت خود سُر ہوتی جارہی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے لڑکیوں میں بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
مس ماروی کا اپنے مخالفین کے بارے میں صرف اتنا کہنا تھا کہ ہر اچھے کام کے پیچھے بہت سے لوگ باتیں بناتے ہیں لیکن ہم اس طرح کی کسی بات پر دھیان نہیں دیتے بلکہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں۔
ماروی شیخ کا کہنا ہے کے ہم اپنے اس مشن میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ہمارا مقصد سندھ کی عورت کو گھریلو ظلم سے آزاد کرکے خودمختار بنانا ہے کیونکہ کے جب تک عورت اپنے حو کے لیے خود آواز نہیں اٹھائے گی کوئی بھی قوت اُس کو انصاف نہیں دلوا سکتی ۔
مستقبل ہمارے اس تنظیم کا روشن ہے اور ہم اپنے مقاصد کو بہت جلد حاصل کرلیں گے ۔
--------------- --------------------------------- ---------------------------
She is progressive and political activist, this aspect has not been properly highlighted.
What inspired her to become so? what made her?
Some comparison and contrast with other activists etc.
ماروی شیخ
احسن نظامانی۔
رول نمبر: 7۔
بی ایس پارٹ 3 ۔
مس ماروی شیخ عورتوں کو اُن کے حق سے اآگاہی فراہم کرنے کی علمبردار۔
میڈم ماروی شیخ جامع سندھ کے انگلش شعبہ کی ایک قابل لیکچرار ہونے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو اُن کے حقوق کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے کی علمبردار ہیں۔ کہا جاتاہے وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ لیکن ہمارے معاشرے میں کئی جگہ عورتوں کو اُن کے حق سے محروم رکھنا اور اُن کے ساتھ زیادتی کرنا جا بجا دکھائی دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تولوگ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں اور اس بارے میں بہت کم ہی آواز اُٹھائی جاتی ہے ۔ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہو ئی سندھ اور اندورن سندھ کی پستی ہوئی عورت جو ظلم وزیادتی کو اپنا مقدر سمجھ بیٹھی تھی 249 اُس عورت کو حق دلوانے اور اُسے معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے اور ہمت فراہم کرنے کے لیے مس ماروی شیخ نے سندھ میں قدم بڑھایا۔
گوری رنگت 249 خوبصورت چہرہ 249 خوش شکل 249خوش مزاج 249 عزم ہمت کی جیتی جاگتی تصویر 249بلند حوصلے کی زندہ مثال مس ماروی شیخ 5جولائی 1990میں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ایک مہذب شیخ خاندان میں آنکھ کھولی 249 ابتدائی تعلیم اولڈ کمپس موڈل ہا ئی اسکول حیدرآباد سے حاصل کی جب کے چھٹی جماعت سے لے کر دسویں جماعت تک گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کا انتخاب کیا ۔ تعلیم کے سفر کو آگے بڑھایا اور نزرتھ گرلزکالج سے ایف اے کیا 249 اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے 249انگریزی ادب میں جامع سندھ سے بیچلر کیا۔
تعلیم کے اس سفر کو انھوں نے توسیع دی اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا جس کے لیے سب سے پہلے انھوں نے مہران یونیوورسٹی جامشورو میں تربیت حاصل کی پھر پاک ترک اسکول کالج کراچی میں چندھ سال استاد کے فرائض سر انجام دیئے کچھ عرصے کے لیے نمل یونیورسٹی اور پیٹارو کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا 2007 میں جامعہ سندھ جامشورو کے شعبہ انگلش میں لیکچرار کی حیثیت سے فائز ہوئیں ۔
مس ماروی شیخ کے مطابق عورت ہونے کی حیثیت سے زندگی کے ہر میدان اُنھیں بہت سے خراب ذہنیت کے افراد اور اُن پر اُٹھتی بُری نظروں کا سامنا کرنا پڑا مگر اُن کے اندر موجود ہمت اور اعتماد کی وجہ سے انھوں نے ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ان تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے انھوں نے سوچا کہ عورت کی فلاح کے لیے اور ان میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی سماجی کام شروع کرنا ضروری ہے۔سب سے پہلے کچھ دوستوں کی مدد سے سندھ کا پہلا رعورتوں کے حوالے سے میگزین شائع کیا جس کا نام (ناری وادھ)تھا اس کا مقصد عورتوں اور لڑکیوں میں اُن کے حقوق کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا تھا۔
مس ماروی کے چند جاننے والوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ ایک بہت ہی خوش آئندقدم ہے جس کا مقصد سندھ میں عورت کو آزاد کرنا ہے اُن لوگوں کا مزید کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ جس طرح خود ایک با اعتماد خاتون ہیں اس طرح وہ ہر عورت کو ظلم وستم کے دلدل سے باہر نکالنا چاہتی ہیں۔
مس ماروی شیخ نے بتایا کہ اُن کے اور اُن کے ساتھ قریبی لوگوں کی محنت بہت حد تک رنگ لائی ہے جس کے ایک مثال وومن ڈیموکریٹک فرنٹ (یہ کوئی این جی او نہیں ہے اور نہ ہی ہم فنڈ لیتے ہیں ) قائم کرنا ہے یہ 8 مارچ 2018کو اسلام آباد میں ایک سماجی تنظیم کی صورت میں اُجاگر ہوئی جو اب پاکستان کے کئی شہروں میں کا م کر رہی ہے ۔ جس کا مقصد عورت کو خودمختار بنانا ہے۔
ان کے شاگردوں کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ مس ماروی شیخ ایک با صلاحیت با عتماد اور خوش اخلاق استاد ہیں جوہر قدم پر ہمیں مستقبل کے حوالے سے مفید مشورے فراہم کرتی ہیں ۔
مس ماروی کے مخالف لوگوں کا کہنا تھا کہ اس تنظیم کی وجہ سے عورت خود سُر ہوتی جارہی ہے اور اس طرح کے لوگوں کی وجہ سے لڑکیوں میں بہت سی معاشرتی برائیاں جنم لے رہی ہیں۔
مس ماروی کا اپنے مخالفین کے بارے میں صرف اتنا کہنا تھا کہ ہر اچھے کام کے پیچھے بہت سے لوگ باتیں بناتے ہیں لیکن ہم اس طرح کی کسی بات پر دھیان نہیں دیتے بلکہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر دن رات محنت کرتے ہیں۔
مس ماروی شیخ کا کہنا ہے کے ہم اپنے اس مشن میں کافی حد تک کامیاب ہوگئے ہیں ہمارا مقصد سندھ کی عورت کو گھریلو ظلم سے آزاد کرکے خودمختار بنانا ہے کیونکہ کے جب تک عورت اپنے حو کے لیے خود آواز نہیں اٹھائے گی کوئی بھی قوت اُس کو انصاف نہیں دلوا سکتی ۔
مستقبل ہمارے اس تنظیم کا روشن ہے اور ہم اپنے مقاصد کو بہت جلد حاصل کرلیں گے ۔
Comments
Post a Comment