Ahsan Nizamani Feature - Magazine سو شل میڈیا ’’محلے کی خالہ‘‘
For magazine
Written by Ahsan Nizamani -Edited by Waleed Bin Khalid
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Seems ok, but needs to be reporting based
سو شل میڈیا ’’محلے کی خالہ‘‘
احسن نظامانی
رول نمبر: 7۔
بی ایس پارٹ :3۔
کسی با ت کا ڈھول پیٹنا یا بات کا بتنگڑ بنانا یہ دونوں محاورات تو سب نے سنیں ہونگے آج کل یہ دونوں کام ہمارے یہا ں کا مشغلہ بن گئے ہیں ارے! لیکن یہ کام تو صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔
بدلتے وقت کے ساتھ جہاں دوسری چیزوں میں تبدیلی آئی تو اس کام میں بھی تو تبدیلی آنی ہی تھی ۔
کسی زمانے میں یہ کام بے چارے قاصد کیا کرتے تھے بے چارے اس صورت میں اگر حضور کو خبر پسند آئی یا حضور سلامت کے مزاج اچھے ہوئے تو قاصد کو مال کی صورت میں تحفہ دیا جاتا لیکن اگر حضور سلامت کو خبر پسند نہ آئی یا اُس خبر سے حضور سلامت کے مزاج بگڑ گئے تو بچارے قاصد کو حضور کے حکم پر موت کا تحفہ دے دیا جا تا اور قاصد کو ایسی جگہ بھیج دیا جاتا جہاں سے وہ کوئی خبر نہ لاسکتا نہ دے سکتا۔
اسی بات کی وجہ سے قاصد اکثر اوقات اپنی جان بچانے یا انعام کی لالچ میں چھوٹی سی بات کو مرچ مصالہ لگا کر بڑھا چڑھا کے پیش کرتا 249پھر کیا وہاں کے قبیلے یا گلیوں میں ہررہائشی کی زبان پہ یہی بات ہوتی249 ارے میاں !سنا تم نے دربار سے خبر آئی ہے کے حضور سلامت دوسرے بادشاھ سے جنگ کرنے جارہے ہیں ۔ ارے! میاں کیا کہے رہے ہو249 ہاں ہاں میاں! تمہیں نہیں پتا کیا یہاں تو ہر کسی کو یہ خبر ہے۔
جب قاصد کا دور ختم ہوا تو اُن کی کمی ڈھول بجانے والوں نے پوری کردی 249 ڈھول بجانے والا ہر گلی محلے میں زور زور سے آواز دیتا 249 اطلاع ! اطلاع عام! بس پھر کیا ہوتا لوگ اپنا گھر کا کام چھوڑ کر اُس اعلان کی طرف متوجہ ہوجاتے کہ شاید کوئی خاص خبر ہوگی اور جہاں تک وہ ڈھول کی آواز نہیں پہنچ پاتی تو وہاں تک لوگ بات پہنچاتے پھر جتنے منہ اُتنی باتیں ۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے ان لوگوں کا جو اسپیکر کے ذریعے اپنی بات عوام تک پہنچا تے ہیں۔لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں تاکہ تمام لوگ ان کی بات سنیں وہ سب کی توجہ حاصل کرنے کیلئے ایک گاڑی کا انتظام کرتے ہیں اس میں ایک بندہ ایسا ہوتا ہے جو بولنے والا ہوتا ہے وہ اسپیکر میں اعلان کر رہا ہوتا ہے اور یہ گاڑی ہر گلی، محلے، سڑک،عام و خاص شا ہر اؤں سے گزر رہی ہوتی ہے اسپیکر کی تیز آواز کی وجہ سے لوگ اپنا کام چھوڑ کر ان کی طرف یا اس اعلان کو سننے کیلئے بیتاب ہوجاتے ہیں کہ شاید کوئی خاص بات ہے جو ان سے رہ نہ جائے ۔وقت تھوڑا سا بدلا اور یہ ٹھیکا محلے کی خالا نے لے لیا ۔
ہر محلے میں ایک ایسی خاتون ضرور ہوتی ہیں جو ہر محلے کی خالہ کہلاتی ہیں 249 جن کا کام پورے محلے کی خبریں رکھنا ہوتا ہے249 کس کے گھر شادی ہورہی ہے249کس کی طلاق ہوگئی ہے یا پھر کس کی طلاق ہونے والی ہے 249 سب خبر ہوتی ہے اگرکوئی خبر پھیلانی ہو تو اُنکو بتادو اور ساتھ میں یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کے کسی کو نہیں بتانا بس پھر وہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے لیکن افسوس آج یہ خالہ ناپید ہوگئی ہے کیونکہ ان کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے سوشل میڈیا اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ ہر خاص و عام سوشل میڈیا سے واقفیت رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے چھوٹی سے چھوٹی بات کچھ ہی لمحوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
اب کسی کے ساتھ بھی کوئی مسئلہ یا پھر کوئی معمولی سی بھی بات ہوجائے تو وہ موصوف فوراً سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لگا دیتے ہیں۔بس پھر کیا !زرا سی بات راتو ں رات ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔پھر تو جناب ایسے ایسے دستور منظرِ عام پر آتے ہیں اور نَت نئے مشوروں سے نوازتے ہیں کہ پوچھیے ہی مت!یہ ہی نہیں بلکہ اب تو سوشل میڈیا نے رشتے کروانے کی بھی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر ہی لے لی ہے دوسری طرف ہر دوسرے دن ہی سوشل میڈیا کی وجہ سے میڈیا میں خبر آرہی ہوتی ہے پاکستانی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو کر کوئی دوشیزہ چین سے شادی کرنے پاکستان آگئی تو کبھی دوسرے ملک سے ۔آج ایِسی سوشل میڈیا کی وجہ سے پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے۔مگر لوگ زیادہ ترسوشل میڈیا کو بات کا بتنگڑ بنانے اورڈھول پیٹنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔ان سماجی ویب سائٹ میں سب سے زیادہ کارآمد اور کسی بھی خبر کو بنا تحقیق کے پھیلا دینا اور وائرل کرنے میں زیادہ ہاتھ فیس بُک، یوٹیوب ،انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیرہ کا ہے۔ لوگ سوشل میڈیا کو عام طور پر کسی کی نجی زندگی میں مداخلت کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں پھر کسی نامور شخصیت کی زرا سی خبرکو بغیر کسی تصدیق کے لمبا چوڑا کر کے اس طرح دیکھاتے ہیں جس کا علم اُس شخصیت کو بھی نہیں ہوتا بس پھر کیا!کوئی بھی خبر وائرل ہونے کے بعد اس قدر مشہور ہو جاتی ہے کہ ہر خاص و عام کہ زباں پر انہیں کا نام ہوتا ہے اور اس کے بعد سوشل میڈیا سائٹس پر ایک نہ تھمنے والاکیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں اس کی ایک مثال ملتی ہے کہ مشہور گلوکار عطا ء اللہ خان عیسا خیلوی کی موت کی خبر وائرل ہوگئی ۔ یہی نہیں بلکہ ان کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوگئی جس میں انہیں ایسے دیکھایا گیا جیسے واقعی ان کا انتقال ہوگیا ہے بلوگرز اور تمام سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والے لوگ حر کت میں آئے اور افسوس کے لمبے لمبے کمنٹس اور پوسٹ لگانے لگے اب عطا ء اللہ خان عیساخیلوی صاحب کے علم میں بھی یہ بات نہیں کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں اس خبر کے وائرل ہونے کے بعد الیکٹرونک میڈیا پر مختلف چینلز نے اس بات کی نفی کی اور تصدیق کی کے یہ خبر صرف جھوٹ ہے حقیقت اس کے بلکل بر عکس ہے ۔
اس کے علاوہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے ایک طالب علم راجادیپک سے ان کی رائے معلوم کی تو انہوں نے بتایاکہ ہولی کی تقریب منانے پر پندرہ دن کے لیے ریسٹیکیٹ کر دیا گیا تھا اس بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اور اپنا حق پانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیاگیا تھا۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ سے تہلکا مچ گیا ہر کوئی اس بات میں دلچسپی لینے لگا اور یہ بات اتنی آگے پہنچی کہ انڈیا کے ایک اخبار کا حصہ بن گئی ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی بدولت ہی ایک چھوٹی سی بات اتنی بڑی بن گئی جس کے بعد فوری ایکشن لیا گیا اور ہمیں آگے تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھنے کا موقع بھی ملا اور موجودہ سال ہم نے تمام طالبعلموں کے ساتھ ہولی کے رنگ بھی بکھیرے۔
ایک اور واقعہ کا جائزہ لیتے ہوئے جب لوگوں سے ان کی رائے معلوم کی تو انگلش ڈپارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات نے اس حوالے بتایا کہ پچھلے دنوں فیسٹول میں اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے ساتھ بھی پیش آیا کہ جب ہم نے ہند و عظم کے حوالے سے فیسٹول میں اپنا اسٹال، کھانا ، کپڑے اور پورا موضوع اسی لحاظ سے تشکیل دیا اس کے بعد کچھ لڑکے کراچی سے اس فیسٹول کو دیکھنے آئے تھے جن کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا شروع کیا اور اس بات کا شور مچایا کے ہمارے مذہب کی توہین کی گئی ہے اور یہ بات راتوں رات اس قدر آگے بڑھی کے پاکستان کے سب سے بڑے پیچ پر یہ خبر پوسٹ ہوگئی تھی اورہمارے اس فیسٹول کے موضوع پر اتنا بڑا مسئلہ بن گیا ۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوگیا ہے اور جب جیسے جہاں چاہیں وہ ایک کلک پر اپنی بات لوگوں پہنچا سکتے اور یہ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت مشہور ہونے کا ایک سنہری موقع الگ مل جاتا ہے لیکن سوشل میڈیاکا منفی استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے بلکہ اسکے ذریعے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
احسن نظامانی ۔
رول نمبر: 7۔
بی ایس پارٹ :3۔
Written by Ahsan Nizamani -Edited by Waleed Bin Khalid
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Seems ok, but needs to be reporting based
سو شل میڈیا ’’محلے کی خالہ‘‘
احسن نظامانی فیچر
کسی با ت کا ڈھول پیٹنا یا بات کا بتنگڑ بنانا یہ دونوں محاورات تو سب نے سنیں ہونگے آج کل یہ دونوں کام ہمارے یہا ں کا مشغلہ بن گئے ہیں ارے! لیکن یہ کام تو صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔
بدلتے وقت کے ساتھ جہاں دوسری چیزوں میں تبدیلی آئی تو اس کام میں بھی تو تبدیلی آنی ہی تھی ۔
کسی زمانے میں یہ کام بچارے قاصد کیا کرتے تھے بچارے اس صورت میں اگر حضور کو خبر پسند آئی یا حضور سلامت کے مزاج اچھے ہوئے تو قاصد کو مال کی صورت میں تحفہ دیا جاتا لیکن اگر حضور سلامت کو خبر پسند نہ آئی یا اُس خبر سے حضور سلامت کے مزاج بگڑ گئے تو بچارے قاصد کو حضور کے حکم پر موت کا تحفہ دے دیا جا تا اور قاصد کو ایسی جگہ بھیج دیا جاتا جہاں سے وہ کوئی خبر نہ لاسکتا نہ دے سکتا۔
اسی بات کی وجہ سے قاصد اکثر اوقات اپنی جان بچانے یا انعام کی لالچ میں چھوٹی سی بات کو مرچ مصالہ لگا کر بڑھا چڑھا کے پیش کرتا 249پھر کیا وہاں کے قبیلے یا گلیوں میں ہررہائشی کے موہ پے یہی بات ہوتی249 ارے میاں !سنا تم نے دربار سے خبر آئی ہے کے حضور سلامت دوسرے بادشاھ سے جنگ کرنے جارہے ۔ ارے! میاں کیا کہے رہے ہو249 ہاں ہاں میاں! تمہیں نہیں پتا کیا یہاں تو ہر کسی کو کسی کو یہ خبر ہے۔
جب قاصد کا دور ختم ہوا تو اُن کی کمی ڈھول بجانے والوں نے پوری کردی 249 ڈھول بجانے والا ہر گلی محلے میں زور زور سے آواز دیتا 249 اطلاع ! اطلاع عام! بس پھر کیا ہوتا لوگ اپنا گھر کا کام چھوڑ کر اُس اعلان کی طرف متوجہ ہوجاتے کہ شاید کوئی خاص خبر ہوگی اور جہاں تک وہ ڈھول کی آواز نہیں پہنچ پاتی تو وہاں تک لوگ بات پہنچاتے پھر جتنے منہ اُتنی باتیں ۔ وقت تھوڑا سا بدلا اور یہ ٹھیکا محلے کی خالا نے لے لیا ۔
ہر محلے میں ایک ایسی خاتون ضرور ہوتی ہیں جو ہر محلے کی خالہ کہلاتی ہیں 249 جن کا کام پورے محلے کی خبریں رکھنا ہوتا ہے249 کس کے گھر شادی ہورہی ہے249کس کی طلاق ہوگئی ہے یا پھر کس کی طلاق ہونے والی ہے 249 سب خبر ہوتی ہے اگرکوئی خبر پھیلانی ہو تو اُنکو بتادو اور ساتھ میں یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کے کسی کو نہیں بتانا بس پھر وہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے لیکن افسوس آج یہ خالہ ناپید ہوگئی ہے کیونکہ ان کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے سوشل میڈیا اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ ہر خاص و عام سوشل میڈیا سے واقفیت رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے چھوٹی سے چھوٹی بات کچھ ہی لمحوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
اب کسی کے ساتھ بھی کوء مسئلہ یا پھر کوئی معمولی سی بھی بات ہوجائے تو وہ موصوف فوراً سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لگا دیتے ہیں۔بس پھر کیا !زرا سی بات راتو ں رات ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔پھر تو جناب ایسے ایسے دستور منظرِ عام پر آتے ہے اور نَت نئے مشوروں سے نوازتے ہے کہ پوچھیے ہی مت!یہ ہی نہیں بلکہ اب تو سوشل میڈیا نے رشتے کروانے کی بھی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر ہی لے لی ہے دوسری طرف ہر دوسرے دن ہی سوشل میڈیا کی وجہ سے میڈیا میں خبر آرہی ہوتی ہے پاکستانی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو کر کوئی دوشیزہ چین سے شادی کرنے پاکستان آگئی تو کبھی دوسرے ملک سے ۔آج ایِسی سوشل میڈیا کی وجہ سے پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے۔مگر لوگ زیادہ ترسوشل میڈیا کو بات کا بتنگڑ بنانے اورڈھول پیٹنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔ان سماجی ویب سائٹ میں سب سے زیادہ کارآمد اور کسی بھی خبر کو بنا تحقیق کے پھیلا دینا اور وائرل کرنے میں زیادہ ہاتھ فیس بُک، یوٹیوب ،انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیرہ ہے۔ لوگ ساشل میڈیا کو عام طور پر کسی کی نجی زندگی میں مداخلت کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں پھر کسی نامور شخصیت کی زرا سی خبر بغیر کسی تصدیق کے لمبا چوڑا کر کے اس طرح دیکھاتے ہے جس کا علم اُس شخصیت کو بھی نہیں ہوتا بس پھر کیا!کوئی بھی خبر وائرل ہونے کے بعد اس قدر مشہور ہو جاتی ہے کہ ہر خاص و عام کہ زباں پر انہیں کا نام ہوتا ہے اور اس کے بعد سوشل میڈیا سائٹس پر ایک نہ تھمنے والاکیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس حوالے سے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے ایک طالب علم راجادیپک سے ان کی رائے معلوم کی تو انہوں نے بتایاکہ ہولی کی تقریب منانے پر پندرہ دن کے لیے ریسٹیکیٹ کر دیا گیا تھا ایسی بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اور اپنا حق پانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ سے تہلکا مچ گیا ہر کوئی اس بات میں دلچسپی لینے لگا اور یہ بات اتنی آگے پہنچی کہ انڈیا کے ایک اخبار کا حصہ بن گئی ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی بدولت ہی ایک چھوٹی سی بات اتنی بڑی بن گئی جس کے بعد فوری ایکشن لیا گیا اور ہمیں آگے تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھنے کا موقع مل گیا۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوگیا ہے اور جب جیسے جہاں چاہیں وہ ایک کلک پر اپنی بات لوگوں پہنچا سکتے اور یہ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت مشہور ہونے کا ایک سنہری موقع الگ مل جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا کا زیادہ طور پر منفی نہ کیا جائے بلکہ اس ذریعے فائدہ اُٹھایا جائے۔
احسن نظامانی ۔
رول نمبر: 7۔
بی ایس پارٹ :3۔
احسن نظامانی فیچر
کسی با ت کا ڈھول پیٹنا یا بات کا بتنگڑ بنانا یہ دونوں محاورات تو سب نے سنیں ہونگے آج کل یہ دونوں کام ہمارے یہا ں کا مشغلہ بن گئے ہیں ارے! لیکن یہ کام تو صدیوں سے چلا آرہا ہے ۔
بدلتے وقت کے ساتھ جہاں دوسری چیزوں میں تبدیلی آئی تو اس کام میں بھی تو تبدیلی آنی ہی تھی ۔
کسی زمانے میں یہ کام بچارے قاصد کیا کرتے تھے بچارے اس صورت میں اگر حضور کو خبر پسند آئی یا حضور سلامت کے مزاج اچھے ہوئے تو قاصد کو مال کی صورت میں تحفہ دیا جاتا لیکن اگر حضور سلامت کو خبر پسند نہ آئی یا اُس خبر سے حضور سلامت کے مزاج بگڑ گئے تو بچارے قاصد کو حضور کے حکم پر موت کا تحفہ دے دیا جا تا اور قاصد کو ایسی جگہ بھیج دیا جاتا جہاں سے وہ کوئی خبر نہ لاسکتا نہ دے سکتا۔
اسی بات کی وجہ سے قاصد اکثر اوقات اپنی جان بچانے یا انعام کی لالچ میں چھوٹی سی بات کو مرچ مصالہ لگا کر بڑھا چڑھا کے پیش کرتا 249پھر کیا وہاں کے قبیلے یا گلیوں میں ہررہائشی کے موہ پے یہی بات ہوتی249 ارے میاں !سنا تم نے دربار سے خبر آئی ہے کے حضور سلامت دوسرے بادشاھ سے جنگ کرنے جارہے ۔ ارے! میاں کیا کہے رہے ہو249 ہاں ہاں میاں! تمہیں نہیں پتا کیا یہاں تو ہر کسی کو کسی کو یہ خبر ہے۔
جب قاصد کا دور ختم ہوا تو اُن کی کمی ڈھول بجانے والوں نے پوری کردی 249 ڈھول بجانے والا ہر گلی محلے میں زور زور سے آواز دیتا 249 اطلاع ! اطلاع عام! بس پھر کیا ہوتا لوگ اپنا گھر کا کام چھوڑ کر اُس اعلان کی طرف متوجہ ہوجاتے کہ شاید کوئی خاص خبر ہوگی اور جہاں تک وہ ڈھول کی آواز نہیں پہنچ پاتی تو وہاں تک لوگ بات پہنچاتے پھر جتنے منہ اُتنی باتیں ۔ وقت تھوڑا سا بدلا اور یہ ٹھیکا محلے کی خالا نے لے لیا ۔
ہر محلے میں ایک ایسی خاتون ضرور ہوتی ہیں جو ہر محلے کی خالہ کہلاتی ہیں 249 جن کا کام پورے محلے کی خبریں رکھنا ہوتا ہے249 کس کے گھر شادی ہورہی ہے249کس کی طلاق ہوگئی ہے یا پھر کس کی طلاق ہونے والی ہے 249 سب خبر ہوتی ہے اگرکوئی خبر پھیلانی ہو تو اُنکو بتادو اور ساتھ میں یہ کہہ دینا کافی ہوتا ہے کے کسی کو نہیں بتانا بس پھر وہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے لیکن افسوس آج یہ خالہ ناپید ہوگئی ہے کیونکہ ان کی جگہ سوشل میڈیا نے لے لی ہے سوشل میڈیا اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ ہر خاص و عام سوشل میڈیا سے واقفیت رکھتا ہے ۔ اسی وجہ سے چھوٹی سے چھوٹی بات کچھ ہی لمحوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔
اب کسی کے ساتھ بھی کوء مسئلہ یا پھر کوئی معمولی سی بھی بات ہوجائے تو وہ موصوف فوراً سوشل میڈیا پر اسٹیٹس لگا دیتے ہیں۔بس پھر کیا !زرا سی بات راتو ں رات ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہے۔پھر تو جناب ایسے ایسے دستور منظرِ عام پر آتے ہے اور نَت نئے مشوروں سے نوازتے ہے کہ پوچھیے ہی مت!یہ ہی نہیں بلکہ اب تو سوشل میڈیا نے رشتے کروانے کی بھی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر ہی لے لی ہے دوسری طرف ہر دوسرے دن ہی سوشل میڈیا کی وجہ سے میڈیا میں خبر آرہی ہوتی ہے پاکستانی لڑکے کی محبت میں گرفتار ہو کر کوئی دوشیزہ چین سے شادی کرنے پاکستان آگئی تو کبھی دوسرے ملک سے ۔آج ایِسی سوشل میڈیا کی وجہ سے پوری دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہو گئی ہے۔مگر لوگ زیادہ ترسوشل میڈیا کو بات کا بتنگڑ بنانے اورڈھول پیٹنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں ۔ان سماجی ویب سائٹ میں سب سے زیادہ کارآمد اور کسی بھی خبر کو بنا تحقیق کے پھیلا دینا اور وائرل کرنے میں زیادہ ہاتھ فیس بُک، یوٹیوب ،انسٹاگرام اور واٹس ایپ وغیرہ ہے۔ لوگ ساشل میڈیا کو عام طور پر کسی کی نجی زندگی میں مداخلت کرنے کے لیئے استعمال کرتے ہیں پھر کسی نامور شخصیت کی زرا سی خبر بغیر کسی تصدیق کے لمبا چوڑا کر کے اس طرح دیکھاتے ہے جس کا علم اُس شخصیت کو بھی نہیں ہوتا بس پھر کیا!کوئی بھی خبر وائرل ہونے کے بعد اس قدر مشہور ہو جاتی ہے کہ ہر خاص و عام کہ زباں پر انہیں کا نام ہوتا ہے اور اس کے بعد سوشل میڈیا سائٹس پر ایک نہ تھمنے والاکیاس آرائیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اس حوالے سے میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کے ایک طالب علم راجادیپک سے ان کی رائے معلوم کی تو انہوں نے بتایاکہ ہولی کی تقریب منانے پر پندرہ دن کے لیے ریسٹیکیٹ کر دیا گیا تھا ایسی بات کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اور اپنا حق پانے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ سے تہلکا مچ گیا ہر کوئی اس بات میں دلچسپی لینے لگا اور یہ بات اتنی آگے پہنچی کہ انڈیا کے ایک اخبار کا حصہ بن گئی ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کی بدولت ہی ایک چھوٹی سی بات اتنی بڑی بن گئی جس کے بعد فوری ایکشن لیا گیا اور ہمیں آگے تعلیم کا سلسلہ برقرار رکھنے کا موقع مل گیا۔
سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگوں کو آزادی رائے کا حق حاصل ہوگیا ہے اور جب جیسے جہاں چاہیں وہ ایک کلک پر اپنی بات لوگوں پہنچا سکتے اور یہ ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی بدولت مشہور ہونے کا ایک سنہری موقع الگ مل جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا کا زیادہ طور پر منفی نہ کیا جائے بلکہ اس ذریعے فائدہ اُٹھایا جائے۔
احسن نظامانی ۔
رول نمبر: 7۔
بی ایس پارٹ :3۔
Comments
Post a Comment