kashan sikandar profile urdu magzine

REVISED FOR MAGZINE
کا شان سکندر

((
2k17/MC/51

(BS-PIII)
پروفائل(Revised)
بیر بیچنے والامعذور عرفان قریشی
روزِازل سے لے کر آج تک انسان نے جو بھی ترقی کی منزلیں طے کی ہیں ان میں محنت اور لگن کو سب سے زیادہ دخل حاصل ہیں ۔اسی کی بدولت انسان نے اپنے مسائل حل کئے ۔محنت سے ہی انسان نے اپنی معاشرتی گھتیاں سلجھائیں اور اپنی ضروریاتِ ذندگی کے سامان پیدا کئے۔انسان کی جدوجہدسے ہی آرائش و آسائش کے سامان پیدا ہوئے ۔محنت اور کمزوری کو اپنی طاقت بنا کر ہی انسان نے پہاڑوں کی چوٹیوں کو سر کیا ۔ 
آج کے دور میں جہاں ہمارے معاشرے میں نا شکری بڑھتی جا رہی ہے۔ انسان کسی حال میں خوش نہیں،اللہ کی ہزار نعمتوں کے باوجود بھی ناشکرا ہے ،وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو معذوری کے باوجود بھی خوش ہیں اور عزت سے زندگی بسر کر رہے ہیں، حلانکہ ہمارے ہاں لوگ کسی بھی معذور کو بے چارہ نہیں بلکہ ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں ۔اگر کوئی کسی حادثے یا بیماری کا شکار ہو کر معذور جائے تو معا شرے کے افراد یہ نہیں سوچتے کہ اس معذور کا دل ،اس کا ذہن سب سے پہلے کی طرح کام کررہے ہوتے ہیں،اس کا کوئی ایک عضو معذور ہوتا ہے اس کے جذبات و احسا سات معذور نہیں ہوتے،اس کی سو چیں ناکارہ نہیں ہوتیں،اس کی خواہشات،اس کی تمنائیں اس کے ارمان مبتلائے عذر نہیں ہو تے۔ ایسا ہی ایک با ہمت شخص جس کا تعلق صوبہِ سندھ کے شہر حیدرآباد کے علا قے شاہی بازار سے ہے۔ جس کا نام عرفان قریشی ہے جس نے اپنی معذری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہ سمجھا اور اس معذوری کو طاقت بنا کر آج عزت سے روزگار کما رہا ہے، ایک روز میں سودا سلف لینے کی غرض سے شاہی بازار گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک معذور شخص جس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں وہ ایک ٹھیلے پر کھڑا بیر بیچنے میں مصروف ہے تو مجھے اسٹیو جابزکا وہ قول یاد آگیا کہ ’’ممکن کام تو ہر کوئی کر سکتا ہے نا ممکن کو ممکن بنانا ہے‘‘ ۔ جب میں اس ٹھیلے کے پاس گیا تو آواز سنتا ہوں موصوف ’60 روپے کلو بیر لے لو ‘کی صدا دے رہے ہیں میں نے عرفان قریشی صاحب سے بات کرنے کا سوچااور پھر بات شروع کی تو قریشی صاحب نے بتایا کہ وہ گزشتہ 18 برس سے شاہی بازار میں ٹھیلا لگا رہا ہے موسم گرما میں کھیرے اور ککڑی بیچتا ہے ، قریشی صاحب کے بیر بیچنے کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ بیر 60 روپے فی کلو ہی بیچتے ہیں چاہے سستے ہو جائیں یا مہنگے، انھوں نے اسی ریٹ میں فروخت کرنے ہیں، میں نے جب ان سے انکی معذوری کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا 22 برس قبل وہ کتر مشین پر کام کرتے تھے ایک روز بے دھیانی کی وجہ سے ان کی ہاتھ کی انگلیاں کتر مشین میں آگئیں تھیں اور وہ معذوری کا شکار ہو گئے وہ گھر میں سب سے بڑی اولاد تھے ۳ چھوٹی بہنوں کے ا کلوتے بھائی تھے ،والد کے ساتھ گھر کا بوجھ بھی اُٹھانا تھا،والد صاحب مزدوری کرتے تھے تو بچپن میں غربت کے باعٖث تعلیم حاصل نہیں کرسکے پر اس انسان کی ہمت کی داد دینی پڑے گی جس نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں سمجھا، بھیک نہیں مانگی نہ ہی گھر بیٹھ گیا بلکہ ہمت کا مظاہرہ کیا محنت مزدوری کی ا و ر آج ٹھیلا لگا کر ایک با عزت روزگار کما رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے مستفید کر رہا ہے اور گھر کی کفالت بھی کر رہا ہے ۔ قریشی صاحب سے لوگوں کی رائے اُن کے بارے میں جاننا چاہیے تو اُنہوں نے بتا یا اور میں نے خود بھی یہ اندازہ لگایا کہ کچھ لوگ اُن پر ترس کھا کر اُن سے بیر خریدتے ہیں اور کچھ لوگ اُن کی حوصلہ افزائی کرتے ہو ئے اُن سے بیرخریدتے ہیں۔ 
دنیا میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے اپنی معذوری کو معذوری نہیں سمجھا خود کومعذور دیکھ کر مایوس نہیں ہوئے،چپ چاپ گھر نہیں بیٹھ گئے بلکہ اپنی معذوری کو طاقت بنایا اور محنت اور لگن سے دنیا میں اعلی مقام حاصل کیا اور دنیا بھی اُن کی معذوری کو پسِ پشت ڈال کر اُن کے کارناموں اور کامیابیوں کو سراہتی ہے۔اُن اعلی شخصیات میں سے ایک شخصیت ہیلن کیلرہیں۔ہیلن کیلر کی کہانی ایک بہری اور نابینا بچی کی کہانی ہے۔جس نے اپنے اندھے پن اور بہرے پن کے باوجود نہ صرف اعلی تعلیم حاصل کی بلکہ مایوس لوگوں کے دلوں میں اپنے جوش اور ولولے سے ہمت پیداکی اور دنیا کو دکھایاکہ معذور ہونے کے باوجودبھی ہوسکتے ہیں۔
عرفان قریشی صاحب کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ’ انسان کو اپنی معذوری کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہئے بلکہ اس معذوری کو طاقت بنا کر زندگی گذارنی چاہئے‘۔

Its 400 words while 600 words are required.
No story, no theme, no primary data. Compare and contrast with some other personalities
Referred back

کا شان سکندر((2k17/MC/51


(BS-PIII)
پروفائل
بیر بیچنے والامعذور عرفان قریشی
آج کے دور میں جہاں ہمارے معاشرے میں نا شکری بڑھتی جا رہی ہے۔ انسان کسی حال میں خوش نہیں،اللہ کی ہزار نعمتوں کے باوجود بھی ناشکرا ہے ،وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو معذوری کے باوجود بھی خوش ہیں اور عزت سے زندگی بسر کر رہے ہیں، ایسا ہی ایک با ہمت شخص جس کا نام عرفان قریشی ہے جس نے اپنی معذری کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہ سمجھا اور اس معذوری کو طاقت بنا کر آج عزت سے روزگار کما رہا ہے، میں سودا سلف لینے کی غرض سے شاہی بازار گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک معذور شخص جس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کٹی ہوئی ہیں وہ ایک ٹھیلے پر کھڑا بیر بیچنے میں مصروف ہے تو مجھے اسٹیو جابزکا وہ قول یاد آگیا کہ ’’ممکن کام تو ہر کوئی کر سکتا ہے نا ممکن کو ممکن بنانا ہے‘‘ ۔ جب میں اس ٹھیلے کے پاس گیا تو آواز سنتا ہوں موصوف ’60 روپے کلو بیر لے لو ‘کی صدا دے رہا ہے میں نے عرفان قریشی صاحب سے بات کرنے کا سوچااور پھر بات شروع کی تو قریشی صاحب نے بتایا کہ وہ گزشتہ 12 برس سے شاہی بازار میں ٹھیلا لگا رہا ہے موسم گرما میں کھیرے اور ککڑی بیچتا ہے ،قریشی صاحب کے بیر بیچنے کی منفرد بات یہ ہے کہ وہ بیر 60 روپے فی کلو ہی بیچتے ہیں چاہے سستے ہو جائیں یا مہنگے، انھوں نے اسی ریٹ میں فروخت کرنے ہیں، میں نے جب ان سے انکی معذوری کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ 15 برس قبل وہ کتر مشین پر کام کرتے تھے ایک روز بے دھیانی کی وجہ سے ان کی ہاتھ کی انگلیاں کتر مشین میں آگئیں تھیں اور وہ معذوری کا شکار ہو گئے پر اس انسان کی ہمت کی داد دینی پڑتی ہے جس نے اپنی معذوری کو کمزوری نہیں سمجھا، بھیک نہیں مانگی نہ ہی گھر بیٹھ گیا بلکہ ہمت کا مظاہرہ کیا اور ٹھیلا لگا کر ایک با عزت روزگار کما رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے مستفید کر رہا ہے اور گھر کی کفالت بھی کر رہا ہے ۔ 
عرفان قریشی صاحب کی زندگی سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ’ انسان کو اپنی معذوری کو کبھی اپنی کمزوری نہیں بنانا چاہئے بلکہ اس معذوری کو طاقت بنا کر زندگی گذارنی چاہئے‘۔

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised