Sobia Awan Profile
Primary data is missing, some quotes from her and some related people would make it more interesting. Compare and contrast with such type of other personalities
Foto is also required.
Plz observe proper subject line and file name
قد چھوٹا سہی حوصلے تو بلند ہیں
نام: صوبیہ اعوان
بی ایس پارٹ : ۳
رول نمبر: 2k17/MC/96
ایک لڑکی جس کی لمبائی سے اس کے حوصلے بہت زیادہ بلند ہیں۔
یہ کہانی ایک ایسی لڑکی کی ہے جس کے بلند حوصلوں اور ہمت نے معاشرے اور وقت کا بہترین انداز میں مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔
کوٹری کے ایک چھوٹے سے علاقے کی رہنے والی ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی نسرین جس نے ۱۴ سال کی عمر میں والد کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا کیا لیکن ہمت نہ ہاری۔ اس نے بلند حوصلہ کے ساتھ خود کو بھی سمبھالا اور اپنے گھر کو بھی، چھوٹی سی عمر میں گھر کی ذمہ داری اٹھائی ۔ نسرین نے اپنی شروعات ۲۰۰۶ سے ایک پرائیویٹ اسکول میں بطور استاد چھوٹے بچوں کو پڑھا کر کی۔ جس کی ماہانہ تنخواہ صرف ۵۰۰ روپے تھی جس سے ۳۰۰ روپے سے اپنی پڑھائی کا خرچہ اور کالج آنے جانے کا کرایہ دیتی اور ۲۰۰ روپے گھر کے لئے خرچ کرتی ۔
اس صورتحال میں خاندان والوں اور لوگوں نے تنقید توبہت کی مگر مدد کسی نے نہ کی، لیکن نسرین نے ہمت نہ ہاری ، وہ کہتی ہیں کہ انسان کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے دینے والا اللہ ہے محنت کرو اللہ سب دے گا۔ نسرین کا لہ بلند حوصلہ ہے جس نے اس کے قدم کبھی نہ رکنے دئے اور آگے بڑھنے میں مدد کی۔ اس نے اتنی محنت کی کہ اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک چھوٹے سے علاقے میں چھوٹا سا اسکول کھولا جس کی وہ سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیچر بھی تھی۔ لیکن اس وقت لوگوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا کہ یہ چھوٹے قد کی لڑکی کیا کرے گی، یہ کیسے اسکول چلائے گی۔ لیکن نسرین نے اپنی محنت اور لگن سے لوگوں کو یہ دکھایا کہ وہ ان تمام اونچے قد کے لوگوں سے بہت بہتر ہے، کیونکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہے بغیر کسی بھی شخص کے سہارے کے۔
نسرین نے ہمت کو کبھی ختم نہ ہونے دیا اور ۲۰۱۶ میں ایک بڑا پرائیویٹ اسکول دا بشیر انگلش گرامر نام سے اسکول کھولا ، نسرین نے اپنے مرحوم والد کے نام سے اسکول کھولا۔ لوگوں نے پھر بھی نسرین کو پریشان کرنا نہ چھوڑا اسے طرح طرح سے تنگ کیا۔ اسکول کے باہر روزانہ کچرا ہ پھینک دیتے ، اسکول سے سامان چوری کرکے لے جاتے۔ بجلی کی تار کے کنڈے لگا کر اس کے اسکول میں پھینک دیتے تاکہ نسرین پر بجلی چوری کا کیس ہوجائے، ان سب حالات پر بھی نسرین کا حوصلہ نہ ڈگمگایہ اور ہمت کے ساتھ ہر مشکل کا سامنا کیا۔
جس طرح ایک چیونٹی دیوار پر چڑھتی ہے پھر گرجاتی ہے لیکن ہمت نہیں ہارتی ہے اور اوپر چڑھ جاتی ہے، اسی طرح نسرین کے قدم بھی کبھی نہیں رکے اور بار بار گرنے کے بعد بھی وہ پوری ہمت کے ساتھ آگے بڑھتی رہی اور لوگوں کا اور اپنے مشکل وقت کا سامنا کرتی رہی اور آج ایک کامیاب شخصیت بن گئی ہے۔ اور ایک بہتر انداز میں اسکول کا نظام سنبھال رہی ہے۔ اسکول کے اساتذہ کی تنخواہ اسکول کے باقی اخراجات ٹیکس سب کچھ ایک اچھے طریقے سے سنبھال رہی ہے۔
نسرین ہر ایک لڑکی کے لئے ایک آئیڈل ہے کیونکہ اگر باہمت نسرین کی جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو وہ معاشرے سے ڈر کر بیٹھ جاتی یا خود کو نقصان پہنچا دیتی ۔ نسرین نے لوگوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ان کا مقابلہ کرنا بہتر سمجھا اسی لئے آج وہ اس مقام پر ہے، جہاں کئی لوگ ہمت ہار جاتے ہیں۔
تبھی تو کہتے ہیں ہمت مرداں مدد خدا۔۔۔
Comments
Post a Comment