hifza rajput article بچوں سے جبری مشقت

 REVISED MAGZINE 
 نام: حفضہ راجپوت
رول نمبر:42
کلاس:BS Part-III
آرٹیکل
’’ بچوں پر جبری مشقت کے منفی اثرات ‘‘
بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں ان کی بہترین تربیت پر جس قدر توجہ دی جائے تو قوموں کی ترقی کے روشن امکانات ہوتے ہیں مگر اس وقت دنیا میں بچوں سے جبری مشقت کے حوالے سے جو صورتحال اور نتائج سامنے آئے ہیں وہ نہایت قابلِ افسوس و قابلِ فکر ہیں۔ دنیا کے تمام قوانین کے تحت بچوں سے جبری مشقت جرم ہے خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے خطے کا اہم سماجی و معاشی مسئلہ ہے ۔ جبری مشقت کی بنیادی وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی ، مہنگائی ، والدین کا تعلیم یافتہ نہ ہونا اور بچوں کے حقوق و قوانین کے حوالے سے شعور کی کمی ہے ۔ جبری مشقت سے بچوں کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور ان کی جسمانی و ذہنی نشو ونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بچوں سے مشقت کرانے کے سبب وہ اخلاقی طور پر احساسی کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں وہ معاشرے میں خود و کمتر اور غیر متوازن محسوس کرتے ہیں اِن کی سوچ محدود ہو جاتی ہے جب کہ خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے ۔ کچھ بچوں میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے جب کہ کچھ بچے غیر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں وہ مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں ،غربت ، مفلسی ، مشقت و مہنگائی کے سبب تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں جنہوں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ 
بچوں سے جبری مشقت ، خوشحالی و ترقی کے دعوے دار معاشرے کے چہرے پر بد نما داغ اور قوم کی اخلاقی اقدار کے زوال کی علامت ہوتا ہے ، بد قسمتی سے دنیا کے غریب ممالک کی طرح وطنِ عزیز میں بھی معاشی بحران ،غریب طبقے کا استحصال ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے باعث ہمارے یہاں جبری مشقت کو معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال 12جون کو محنت کش بچوں کا عالمی دن تو منایا جاتا ہے مگر دن منانے کے ساتھ ساتھ ان پھول جیسے بچوں سے مشکت کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے محکمہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو حکام کا کہنا ہے کہ والدین خود کمسن بچوں کو سڑکوں ، بازاروں ، فیکٹریوں ، کارخانوں میں کام کیلئے بھیجتے ہیں۔
گندے پانی کی فکلات کی وجہ سے مزدوری کرنے والے70%فیصد سے زاہد بچے ہیپا ٹائٹس ABCجیسے وائرس اور دیگر بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں پاکستان میں موجود معاشی بد حالی سہولیات سے محرومی بیروزگاری غربت اور وسائل کے غیر منصافانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس علمیئے کو جنم دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتا جارہا ہے امیر کے امیر تر اوغریب کے غریب تر ہونے نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ نہیں پاتے کہ وہ بچوں کو ابتدا سے ہی کام پر لگادیں تاکہ ان کے گھروں کا چولا چلتا رہے اور ضریاتِ زندگی پوری ہوتی رہیں چاہے ایسا کرنے سے پوری زندگیاں داؤ پر لگی رہیں ۔ پہلے پاکستان تیسرے نمبر پر تھا جبری مشقت میں لیکن اب دوسرے نمبر آگیا ہے قانون سازی کے بادجود موجودہ حکومت عمل درآمد کروانے میں ناکام دکھائی دیتی ہے ابھی کچھ دن پہلے ہی ایک واقعہ ہوا جس میں خواتین نے اپنے گھر میں کام کرنے والی لڑکی کومار ڈالا جس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے چائے میں پتی زیادہ دال دی تھی یہ تو حال ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کااور پھر 17-01-2019کی ایک رپورٹ کے مطابق محنت کش بچے علم کی روشنی سے محروم ہونے لگے کیونکہ چائلڈ لیبر ڈپارٹمنٹ نے پڑھائی کے اخراجات بند کر دیئے لودھراں میں درجنوں بچوں کا محکمہ کے خلاف احتجاج اور حکومت سے منصوبہ بحال کرنے کا مطالبہ ۔ پاکستان میں جہاں غربت مہنگائی اور بیروزگاری نے غریب بچوں کو اسکولوں سے دور کردیا ہے ان کے لیئے تعلیم ایک ادھورا خواب بن کر رہ گئی ہے وہیں پرائیویٹ سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے بھی تعلیم اس کو قدرمہنگا کردیا ہے کے اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولاد کو معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں ایسے حالات میں غربت مفلوگ الحال خاندان اپنے پیٹ کی آگ بجھائے یا تعلیم کے بھاری برکم اخراجات کو برداشت کرے یہی وجہ ہے کہ غریب کے بچے ہر طرح کی قابلیت کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے والدین وسائل کی کمی کے باعث ان کو تعلیم نہیں دلواپاتے محنت کش بچے کوئی پیدائشی محنت کش نہیں ہوتے ان کی شکلیں بھی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے بڑے تعلیمی ادارے میں پڑھنے والے طلبہ کی ہوتی ہے لیکن صرف وسائل نہ ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے میں چھوٹے بن کر رہ جاتے ہیں ۔پاکستان کا آئن کے آرٹیکل اس با ت کی ضمانت دیتا ہے کہ بچوں کو کارخانوں ، دکانوں ، اور دیگر جگہ پر ملازمت پر نہیں رکھا جا سکتا لیکن علمیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر سخت سزانہیں سنائی گئی اور عملً صورتحال سب کے سامنے ہے۔
پاکستان میں ایک سروے کے نتائج کے مطابق ملک بھر میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ سے زائد بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت پانچ سے سات سال کی عمر کے تقریباً ۳۱ کروڑ ۷ لاکھ بچے مشقت اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں ، انسانی حقوق کے مطابق چائلڈ لیبر ککی سب سے زیادہ شرائط صوبہ پنجاب میں موجود ہیں جہاں ۱۹ لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ صوبہ خیر پختونخواہ ، سندھ اور بلوچستان میں ۱۰ لاکھ بچے ، تین لاکھ اور بیس ہزار بچوں کی تعداد بالترتیب ریکارڈ کی گئی ہے ۔ پاکستان میں جبری مشقت کے خلاف قوانین تو موجود ہیں تا ہم یہ ناکافی اور غیر موثر ہیں ۔ 
ملک میں چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی ۱۶ سال سے کم عمر ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اُسے ۲۰ ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے ۔پاکستان میں چائلڈ لیبر کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے ، چائلڈ لیبر سے نہ صرف ان کا معصوم بچپن چھینا جارہا ہے بلکہ بچوں کی ذہنی ، جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے ۔ اس میں صرف بچوں کے ماں باپ کا قصور نہیں بلکہ ہم بھی ملوث ہیں کیوں کہ بچے ہمارے گھروں میں بھی کام کر رہے ہیں ، کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ جب بھی کام کرنے والا رکھیں تو بچوں کو گھروں میں کام کرنے رکھنے سے گریز کریں ، جب پڑھے لکھے لوگ ان سے مشقت لیتے ہیں جب کہ ہمیں حقوق کا پتہ بھی ہواتا ہے تو ہم اُن کے والدین سے کیا اُمید رکھیں ،جو کہ غریب کی چکی میں پس کر مجبور ہو کر بچوں سے مشقت کرواتے ہیں۔ 
پاکستان کے شہر حیدرآباد جو چوڑیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے اس میں مزدور بچوں کی عمریں ۶ تا ۷ سال تک کی ہیں اور وہ چوڑیوں کی صنعت میں مزدوروں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں ۔ افسوس ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی اب تک غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں اور معصوم بچوں سے جبری مشقت لی جا رہی ہے ۔ 
ہماری حکومت اور تنظیمیں مل کر کام کر رہی ہیں یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی بھی ہے کہ ہم بھی اپنا کردار ادا کریں اور اپنے مستقبل کے معماروں کا مستقبل روشن کریں ، ہم خود عمل کریں بچوں سے مشقت نہ لیں اور کوشش کریں کہ ان کی مدد کریں، کیوں کہ ظلم کا ساتھ دنیا اور ظلم کو دیکھ کر نظر انداز کر نا بھی ظلم کے برابر ہے، اپنے قرب و جوار میں بچوں کو جہاں تک ممکن ہو تعلیم دیں فری ٹیوشن دیں یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں آپ کا کردار بھی ہے ۔ حکومت ہم اور تنظیمیں مل کر کوشش کرتی رہیں تو ایک دن ہمارے ملک سے چائلڈ لیبر ختم ہو جائے گا ۔

1300 words need for magazine
Filed late
Add why child labour is in Pakistan? why it has not been stopped? 
what is situation in other Asian or some other underdeveloped countries?
What UN conventions etc say? 
نام: حفضہ راجپوت
رول نمبر:42
 آرٹیکل  کلاس:BS Part-III 
’’ بچوں پر جبری مشقت کے منفی اثرات ‘‘
بچے کسی بھی قوم کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں ان کی بہترین تربیت پر جس قدر توجہ دی جائے تو قوموں کی ترقی کے روشن امکانات ہوتے ہیں مگر اس وقت دنیا میں بچوں سے جبری مشقت کے حوالے سے جو صورتحال اور نتائج سامنے آئے ہیں وہ نہایت قابلِ افسوس و قابلِ فکر ہیں۔ دنیا کے تمام قوانین کے تحت بچوں سے جبری مشقت جرم ہے خاص طور پر جنوبی ایشیاء کے خطے کا اہم سماجی و معاشی مسئلہ ہے ۔ جبری مشقت کی بنیادی وجوہات میں بڑھتی ہوئی آبادی ، مہنگائی ، والدین کا تعلیم یافتہ نہ ہونا اور بچوں کے حقوق و قوانین کے حوالے سے شعور کی کمی ہے ۔ جبری مشقت سے بچوں کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں اور ان کی جسمانی و ذہنی نشو ونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بچوں سے مشقت کرانے کے سبب وہ اخلاقی طور پر احساسی کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں وہ معاشرے میں خود و کمتر اور غیر متوازن محسوس کرتے ہیں اِن کی سوچ محدود ہو جاتی ہے جب کہ خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے ۔ کچھ بچوں میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو جاتی ہے جب کہ کچھ بچے غیر منفی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں وہ مایوسی کا شکار نظر آتے ہیں ،غربت ، مفلسی ، مشقت و مہنگائی کے سبب تعلیم سے دور ہو جاتے ہیں جنہوں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔ 
بچوں سے جبری مشقت ، خوشحالی و ترقی کے دعوے دار معاشرے کے چہرے پر بد نما داغ اور قوم کی اخلاقی اقدار کے زوال کی علامت ہوتا ہے ، بد قسمتی سے دنیا کے غریب ممالک کی طرح وطنِ عزیز میں بھی معاشی بحران ،غریب طبقے کا استحصال ، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے باعث ہمارے یہاں جبری مشقت کو معیوب نہیں سمجھا جاتا ۔ 
پاکستان میں ایک سروے کے نتائج کے مطابق ملک بھر میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ سے زائد بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت پانچ سے سات سال کی عمر کے تقریباً ۳۱ کروڑ ۷ لاکھ بچے مشقت اور روزگار کمانے پر مجبور ہیں ، انسانی حقوق کے مطابق چائلڈ لیبر ککی سب سے زیادہ شرائط صوبہ پنجاب میں موجود ہیں جہاں ۱۹ لاکھ بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں جب کہ صوبہ خیر پختونخواہ ، سندھ اور بلوچستان میں ۱۰ لاکھ بچے ، تین لاکھ اور بیس ہزار بچوں کی تعداد بالترتیب ریکارڈ کی گئی ہے ۔ پاکستان میں جبری مشقت کے خلاف قوانین تو موجود ہیں تا ہم یہ ناکافی اور غیر موثر ہیں ۔ 
ملک میں چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی ۱۶ سال سے کم عمر ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اُسے ۲۰ ہزار روپے تک کا جرمانہ ہے ۔پاکستان میں چائلڈ لیبر کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آتا ہے ، چائلڈ لیبر سے نہ صرف ان کا معصوم بچپن چھینا جارہا ہے بلکہ بچوں کی ذہنی ، جسمانی صحت بھی متاثر ہورہی ہے ۔ اس میں صرف بچوں کے ماں باپ کا قصور نہیں بلکہ ہم بھی ملوث ہیں کیوں کہ بچے ہمارے گھروں میں بھی کام کر رہے ہیں ، کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ جب بھی کام کرنے والا رکھیں تو بچوں کو گھروں میں کام کرنے رکھنے سے گریز کریں ، جب پڑھے لکھے لوگ ان سے مشقت لیتے ہیں جب کہ ہمیں حقوق کا پتہ بھی ہواتا ہے تو ہم اُن کے والدین سے کیا اُمید رکھیں ،جو کہ غریب کی چکی میں پس کر مجبور ہو کر بچوں سے مشقت کرواتے ہیں۔ 
پاکستان کے شہر حیدرآباد جو چوڑیوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے اس میں مزدور بچوں کی عمریں ۶ تا ۷ سال تک کی ہیں اور وہ چوڑیوں کی صنعت میں مزدوروں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں ۔ افسوس ہم ایک آزاد ملک میں رہ کر بھی اب تک غلامی کی زندگی گذار رہے ہیں اور معصوم بچوں سے جبری مشقت لی جا رہی ہے ۔ 
ہماری حکومت اور تنظیمیں مل کر کام کر رہی ہیں یہ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہم سب کی بھی ہے کہ ہم بھی اپنا کردار ادا کریں اور اپنے مستقبل کے معماروں کا مستقبل روشن کریں ، ہم خود عمل کریں بچوں سے مشقت نہ لیں اور کوشش کریں کہ ان کی مدد کریں، کیوں کہ ظلم کا ساتھ دنیا اور ظلم کو دیکھ کر نظر انداز کر نا بھی ظلم کے برابر ہے، اپنے قرب و جوار میں بچوں کو جہاں تک ممکن ہو تعلیم دیں فری ٹیوشن دیں یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی میں آپ کا کردار بھی ہے ۔ حکومت ہم اور تنظیمیں مل کر کوشش کرتی رہیں تو ایک دن ہمارے ملک سے چائلڈ لیبر ختم ہو جائے گا ۔ 

Comments

Popular posts from this blog

Naseem-u-rahman Profile محمد قاسم ماڪا

حیدرآباد میں صفائی کی ناقص صورتحال

Fazal Hussain پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمدخان Revised