Hifza Rajput profile مہوش عباسی
Filed late
No proper paragraphing
حفضہ راجپوت
رول نمبر:42
کلاس :BS Part-III
پروفائل
مہوش عباسی
مہوش عباسی اتنی کم عمر میں اتنا نام اور شہرت حاصل کرنے والی شخصیت جو 17جون 1992 ء میں شہید بے نظیر آباد کے گاؤں باندھی میں پیدا ہوئیں اپنی پرائمری تعلیم باندھی سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کے لئے سکھر چلی گئیں ۔ ان کی زندگی کا سفر کالج سے ہی شروع ہو گیا تھا انہیں لکھنے کا بہت شوق تھا پہلے چھوٹے رسائل میں لکھنا شروع کیا اور پھر اخبارات میں لکھنا شروع کیا ، مہوش عباسی کے گھر کا ماحول بہت سخت تھا کیوں کہ ان کا ددھیال نوابشاہ کے بہت بڑے عالم گھرانے سے تھا اُن کے گھر کی بچیاں نہ باہر نکلتی تھیں اور نہ ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں مہوش اپنے گھر کی پہلی لڑکی تھی جو یونیورسٹی گئی اور اپنی تعلیم مکمل کی ، لیکن اس کامیابی کے پیچھے جن کا ہاتھ ہے وہ اس کے ابو ہیں جنہوں نے ہر مقام پر مہوش کا ساتھ دیا خاندان کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر ۔ ان کے گھر والے اگر مہوش کی تصویر کسی شخصیت کے ساتھ دیکھ لیتے تھے تو انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہوتا تھا لیکن مہوش کے ابو نے اسے پوری تعلیم حاصل کروائی کیوں کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ لڑکی کے لئے بھی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی لڑکے کے لئے ہے ۔ اور شروع سے وہ اپنی بیٹی کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے زندگی یک ہر قدم پر مہوش کا ساتھ دیا بہت ہی مشکل ہوتا ہے ایسے معاشرے میں جہاں سب آپ کے خلاف ہوں ، لیکن مہوش بہت ہی صبر وشکر والی انسان ہیں انہوں نے زندگی کے ہر امتحان کا سامنا صبر تحمل سے کیا مہوش عباسی گوری رنگت خوبصورت چہرہ خوش مزاج عزم و ہمت کی جیتی جاگتی تصویر بلند حوصلے کی زندہ مثال ہے مہوش عباسی کا ہمیشہ سے ایک خواب تھا وہ یہ تھا کہ لڑکیوں کے لئے باندھی میں ایک الگ اسکول کھولا جائے کیوں کہ تعلیم کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود باندھی سے حیدرآباد شفٹ ہو گئے تھے اُس دن سے مہوش کا یہ خواب تھا کہ باندھی میں ایک گورنمنٹ اسکول کھولا جائے جہاں صرف لڑکیاں پڑھیں کیوں کہ انہیں لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ مہوش نے بہت سوچا اس بارے میں اور پھر گورنمنٹ ، آرگنائزیشن اور گاؤں کے وڈیروں کے ساتھ مل کر اسکول کھولا جس کو کھلنے میں 8سے10مہینے لگے اور وہ اب تک ہے ، مہوش نے بہت محنت اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے اور اپنے ابو کا نام روشن کرنے کے لئے ، پھر مہوش عباسی زندگی کے نئے سفر میں داخل ہوئی جہاں وہ گریجویشن کر رہی تھی ، گریجویشن کے ساتھ ساتھ انہوں نے جنرنلسٹ کا کام بھی شروع کیا جہاں انہوں نے کالمز ، آرٹیکلزاور کہانیاں لکھنا شروع کیں بہت مشکل تھا ان کے لیے آدمیوں کے بیچ کام کرنا جہاں صرف کچھ خواتین رپورٹر تھیں انہوں نے ہر مشکل کا سامنا بہت بہادری سے کیا مہوش عباسی کو 6ایورڈ ملے ، نوجوان رائیٹر ، جرنلسٹ اور سوشل سر گرمیوں میں کام کرنے کی وجہ سے ۔ انہوں نے 2ہزار سے زیادہ آرٹیکلز اور اسٹوریزلکھی ہیں 2014میں مہوش عباسی کو پاکستانی رائٹر ہونے کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے پروگرام کے لئے سلیکٹ کیا جس میں صرف مہوش اکیلی پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھی کچھ دن پہلے انہیں دختر پاکستان کا ایوارڈ ملا جو ان کی سب سے خاص کامیابی پے جس پر وہ بہت فخر کرتی ہیں آج کل وہ استنبول میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں ، مہوش عباسی نے کیمسٹری میں M.Philاچھے نمبروں سے پاس کیا اور اب استنول چلی گئی اسکالر شپ پر آگے کی تعلیم حاصل کرنے ۔ مہوش عباسی کی جدوجہد اور کامیابی سندھ کی لڑکیوں کے لئے روشن مثال ہے مہوش عباسی ہمیشہ لڑکیوں کو ہمیشہ ایک بات کہتی ہے کہ تعلیم حاصل کرو بھلے کسی بھی شعبے میں محنت کرو آگے بڑھنے کی کوشش کرو تم لوگوں سے ہی سندھ کی ترقی ممکن ہے اور لڑکیوں کے ماں باپ سے بھی گذارش کرتی ہے کہ وہ انہیں تعلیم حاصل کروائیں ان کے پسند کے شعبے میں اور آگے کام کرنے میں ساتھ دیں ان ہی سے سندھ کی ترقی ممکن ہے۔
No proper paragraphing
حفضہ راجپوت
رول نمبر:42
کلاس :BS Part-III
پروفائل
مہوش عباسی
مہوش عباسی اتنی کم عمر میں اتنا نام اور شہرت حاصل کرنے والی شخصیت جو 17جون 1992 ء میں شہید بے نظیر آباد کے گاؤں باندھی میں پیدا ہوئیں اپنی پرائمری تعلیم باندھی سے حاصل کی اور مزید تعلیم کے حصول کے لئے سکھر چلی گئیں ۔ ان کی زندگی کا سفر کالج سے ہی شروع ہو گیا تھا انہیں لکھنے کا بہت شوق تھا پہلے چھوٹے رسائل میں لکھنا شروع کیا اور پھر اخبارات میں لکھنا شروع کیا ، مہوش عباسی کے گھر کا ماحول بہت سخت تھا کیوں کہ ان کا ددھیال نوابشاہ کے بہت بڑے عالم گھرانے سے تھا اُن کے گھر کی بچیاں نہ باہر نکلتی تھیں اور نہ ہی تعلیم حاصل کرتی تھیں مہوش اپنے گھر کی پہلی لڑکی تھی جو یونیورسٹی گئی اور اپنی تعلیم مکمل کی ، لیکن اس کامیابی کے پیچھے جن کا ہاتھ ہے وہ اس کے ابو ہیں جنہوں نے ہر مقام پر مہوش کا ساتھ دیا خاندان کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر ۔ ان کے گھر والے اگر مہوش کی تصویر کسی شخصیت کے ساتھ دیکھ لیتے تھے تو انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہوتا تھا لیکن مہوش کے ابو نے اسے پوری تعلیم حاصل کروائی کیوں کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ لڑکی کے لئے بھی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی لڑکے کے لئے ہے ۔ اور شروع سے وہ اپنی بیٹی کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتے تھے اس لیے انہوں نے زندگی یک ہر قدم پر مہوش کا ساتھ دیا بہت ہی مشکل ہوتا ہے ایسے معاشرے میں جہاں سب آپ کے خلاف ہوں ، لیکن مہوش بہت ہی صبر وشکر والی انسان ہیں انہوں نے زندگی کے ہر امتحان کا سامنا صبر تحمل سے کیا مہوش عباسی گوری رنگت خوبصورت چہرہ خوش مزاج عزم و ہمت کی جیتی جاگتی تصویر بلند حوصلے کی زندہ مثال ہے مہوش عباسی کا ہمیشہ سے ایک خواب تھا وہ یہ تھا کہ لڑکیوں کے لئے باندھی میں ایک الگ اسکول کھولا جائے کیوں کہ تعلیم کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ خود باندھی سے حیدرآباد شفٹ ہو گئے تھے اُس دن سے مہوش کا یہ خواب تھا کہ باندھی میں ایک گورنمنٹ اسکول کھولا جائے جہاں صرف لڑکیاں پڑھیں کیوں کہ انہیں لڑکوں کے ساتھ پڑھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ۔ مہوش نے بہت سوچا اس بارے میں اور پھر گورنمنٹ ، آرگنائزیشن اور گاؤں کے وڈیروں کے ساتھ مل کر اسکول کھولا جس کو کھلنے میں 8سے10مہینے لگے اور وہ اب تک ہے ، مہوش نے بہت محنت اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لئے اور اپنے ابو کا نام روشن کرنے کے لئے ، پھر مہوش عباسی زندگی کے نئے سفر میں داخل ہوئی جہاں وہ گریجویشن کر رہی تھی ، گریجویشن کے ساتھ ساتھ انہوں نے جنرنلسٹ کا کام بھی شروع کیا جہاں انہوں نے کالمز ، آرٹیکلزاور کہانیاں لکھنا شروع کیں بہت مشکل تھا ان کے لیے آدمیوں کے بیچ کام کرنا جہاں صرف کچھ خواتین رپورٹر تھیں انہوں نے ہر مشکل کا سامنا بہت بہادری سے کیا مہوش عباسی کو 6ایورڈ ملے ، نوجوان رائیٹر ، جرنلسٹ اور سوشل سر گرمیوں میں کام کرنے کی وجہ سے ۔ انہوں نے 2ہزار سے زیادہ آرٹیکلز اور اسٹوریزلکھی ہیں 2014میں مہوش عباسی کو پاکستانی رائٹر ہونے کی وجہ سے امریکہ اور یورپ کے پروگرام کے لئے سلیکٹ کیا جس میں صرف مہوش اکیلی پاکستان کی نمائندگی کر رہی تھی کچھ دن پہلے انہیں دختر پاکستان کا ایوارڈ ملا جو ان کی سب سے خاص کامیابی پے جس پر وہ بہت فخر کرتی ہیں آج کل وہ استنبول میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں ، مہوش عباسی نے کیمسٹری میں M.Philاچھے نمبروں سے پاس کیا اور اب استنول چلی گئی اسکالر شپ پر آگے کی تعلیم حاصل کرنے ۔ مہوش عباسی کی جدوجہد اور کامیابی سندھ کی لڑکیوں کے لئے روشن مثال ہے مہوش عباسی ہمیشہ لڑکیوں کو ہمیشہ ایک بات کہتی ہے کہ تعلیم حاصل کرو بھلے کسی بھی شعبے میں محنت کرو آگے بڑھنے کی کوشش کرو تم لوگوں سے ہی سندھ کی ترقی ممکن ہے اور لڑکیوں کے ماں باپ سے بھی گذارش کرتی ہے کہ وہ انہیں تعلیم حاصل کروائیں ان کے پسند کے شعبے میں اور آگے کام کرنے میں ساتھ دیں ان ہی سے سندھ کی ترقی ممکن ہے۔
Comments
Post a Comment