syed hamza hussain article والدین کی کونسلنگ
موجودہ دور اور والدین کی کونسلنگ
سید حمزہ حسین 2K17/MC/98
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بہت چھوٹی عمر سے یہ سکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ تربیت اور کونسلنگ کی ضرورت صرف بچوں اور نو جوانوں کو ہوتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ ماں باپ کا کہا ہر صورت ماننا چاہئے ۔ ہمیں اس بات پر مطمئن کیا جاتا ہے کہ والدین کا کہا لفظ حرف آخر ہے اور ان کے آگے سوال اٹھانا بد تمیزی میں شمار ہوتا ہے ان کے دیئے ہوئے حکم کو پورا کرنے والا ہی ایک اچھی اولاد کہلانے کے قابل ہوتا ہے۔ پر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی آج کل کے دور کے والدین کا رویہ اپنی اولاد کے لئے خوشگوار ہے؟ کیا آج کے والدین نئے دور کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنی اولاد سے بات کرنے کو تیار ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہیں ۔
آج کل کے جدید دور جہاں دنیا روز بروز ترقی کر رہی ہے اور یہ ترقی صرف سائنس کے میدان میں نہیں ہو رہی بلکہ سماجی رویوں اور طور طریقے بھی روز بروز نئی شکل اختیار کر رہے ہیں ۔ ایسے دور میں رشتوں کے بیچ کا فیصلہ بڑھ رہا ہے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے سب سے بڑے شکار والدین اور اولاد کا خوبصورت رشتہ ہے۔
آج کل کے دور میں والدین اور اولاد کے بیچ کا مواصلاتی فرق بہت بڑھ رہا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کے بدلتے رویوں کو سمجھنے اور ان سے بات کرنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں کہنے کو تو سارا الزام بچوں پر ڈال دینا بہت آسان ہے لیکن اس معاملے میں بچوں سے کئی زیادہ ذمہ داری ماں باپ پرعائد ہوتی ہے۔کیا ہمارے معاشرے کا ایک باپ اپنے بیٹے کو وہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ سے زندگی کی رہنمائی کیلئے پوچھ سکے ؟ کیا آج کے والدین اپنے بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے ساتھ وہ باتیں سمجھاتے اور بتاتے ہیں جن کا جاننا ان کے لئے بہت ضروری ہے؟ نہیں ! افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو بچے پیدا کرنے تو آتے ہیں مگر بچے پالنا نہیں آتے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو لالچ اور ڈر کے ذریعے چیزوں پر آمادہ کرنا بہت عام بات ہے بچوں کو جن ، بھوتوں کے ناموں سے ڈرانا یا پھر کسی چیز کا لالچ دے کر کوئی کام کروانا عام بات ہے۔ اور آج کے اس دور میں بچوں کو اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا اختیار اُس وقت دیا جاتا ہے جب وہ خود صاحب اولاد ہوچکے ہوتے ہیں ایک سنجیدہ اور قابل غور بات یہ ہے کہ تعلیمی دباؤ کے نتیجے میں ہونے والی خود کشیوں کی وجہ بھی والدین کا رویہ ہے کیونکہ والدین اپنے بچے کے پیدا ہوتے ہی یہ اُمید کرلیتے ہیں کہ ہمارل بچہ ڈاکٹر ،انجینئربنے گا جو سرا سر غلط ہے۔حال ہی میں لمس کے ایک طالبِ علم ’عاطف آرائیں ‘ نے خودکشی کی جس کی وجہ یہ سامنے آئ کے وہ ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا تھا اور اُس کے و الدین بہ ضد تھے کہ ہمارا بچہ ڈاکٹر بنے گا۔
ہمارے معاشرے کے والدین اپنے بچوں کو کبھی انفرادی شخصیت تشکیل دینے کا موقع نہیں دیتے بلکہ اگر کسی کی اولاد کی سوچ اپنے والدین سے الگ ہوتو اس بچے کو بد تمیز ، بد اخلاق اور کئی ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے جبکہ والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان اپنی سوچ اور شخصیت میں ایک انفرادیت رکھتا ہے اور آپ کی اولاد کا آپ کی طرح سے زندگی گزارنا ہر گز ضروری نہیں ۔ ان سب باتوں کو سمجھنے اور اپنے بچوں سے خوشگوار رشتہ قائم کرنے کیلئے والدین کو بھی کونسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق 63% فیصد پاکستانی بچے اپنی تعلیمی فیلڈ اپنے والدین کے کہنے پر منتخب کرتے ہیں 54% فیصدشاگرد اپنی تعلیمی فیلڈسے مطمئن نہیں اور صرف 48% پڑھے لکھے والدین اپنے بچوں کو اپنی پسند کی تعلیمی فیلڈ منتخب کرنے کا موقعہ دیتے ہیں۔
اس کیلئے جدید دور میں والدین کیلئے "والدین کونسلنگ کورسز" کروائے جاتے ہیں۔ والدین کی کونسلنگ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہی ہے ۔ والدین کونسلنگ سینٹر میں والدین کو ایک بچے کی پر ورش کرنے کیلئے کچھ اہم چیزیں سکھائی اور بتائی جاتی ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے بچے کو ایک اچھا شہری اور ایک اچھا انسان بنانے میں مدد حاصل کر سکیں ۔ ان سینٹرز میں والدین کو بچوں کے سامنے کیسا رویہ رکھنا ہے ، بچے سے گفتگو کرنے کا طریقہ ، بچے کی عادات کو مانیٹر کرنے کا طریقہ، بچے کو نئی چیزوں سے آشنا کرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔ لاکھوں والدین اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے بچوں کی پر ورش میں نمائندگی حاصل کرتے ہیں ۔ ہماری حکومت کو بھی چاہئے کہ پورے ملک میں فوری بنیادوں پر ایسے Parents Counciling Centersقائم کئے جائیں جہاں ہمارے والدین کو ان سب چیزوں سے آگاہ کیا جا سکے تاکہ آنے والی نسلوں کی انفرادیت اپنے ہی والدین کے پیروں تلے نہ روند دی جائے۔
سید حمزہ حسین 2K17/MC/98
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں بہت چھوٹی عمر سے یہ سکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ تربیت اور کونسلنگ کی ضرورت صرف بچوں اور نو جوانوں کو ہوتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ ماں باپ کا کہا ہر صورت ماننا چاہئے ۔ ہمیں اس بات پر مطمئن کیا جاتا ہے کہ والدین کا کہا لفظ حرف آخر ہے اور ان کے آگے سوال اٹھانا بد تمیزی میں شمار ہوتا ہے ان کے دیئے ہوئے حکم کو پورا کرنے والا ہی ایک اچھی اولاد کہلانے کے قابل ہوتا ہے۔ پر کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی آج کل کے دور کے والدین کا رویہ اپنی اولاد کے لئے خوشگوار ہے؟ کیا آج کے والدین نئے دور کے تقاضوں کو سمجھ کر اپنی اولاد سے بات کرنے کو تیار ہیں؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نہیں ۔
آج کل کے جدید دور جہاں دنیا روز بروز ترقی کر رہی ہے اور یہ ترقی صرف سائنس کے میدان میں نہیں ہو رہی بلکہ سماجی رویوں اور طور طریقے بھی روز بروز نئی شکل اختیار کر رہے ہیں ۔ ایسے دور میں رشتوں کے بیچ کا فیصلہ بڑھ رہا ہے لوگوں کو ایک دوسرے کو سمجھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے سب سے بڑے شکار والدین اور اولاد کا خوبصورت رشتہ ہے۔
آج کل کے دور میں والدین اور اولاد کے بیچ کا مواصلاتی فرق بہت بڑھ رہا ہے ۔ والدین اپنے بچوں کے بدلتے رویوں کو سمجھنے اور ان سے بات کرنے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں کہنے کو تو سارا الزام بچوں پر ڈال دینا بہت آسان ہے لیکن اس معاملے میں بچوں سے کئی زیادہ ذمہ داری ماں باپ پرعائد ہوتی ہے۔کیا ہمارے معاشرے کا ایک باپ اپنے بیٹے کو وہ آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ سے زندگی کی رہنمائی کیلئے پوچھ سکے ؟ کیا آج کے والدین اپنے بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے ساتھ وہ باتیں سمجھاتے اور بتاتے ہیں جن کا جاننا ان کے لئے بہت ضروری ہے؟ نہیں ! افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے لوگوں کو بچے پیدا کرنے تو آتے ہیں مگر بچے پالنا نہیں آتے۔
ہمارے معاشرے میں بچوں کو لالچ اور ڈر کے ذریعے چیزوں پر آمادہ کرنا بہت عام بات ہے بچوں کو جن ، بھوتوں کے ناموں سے ڈرانا یا پھر کسی چیز کا لالچ دے کر کوئی کام کروانا عام بات ہے۔ اور آج کے اس دور میں بچوں کو اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا اختیار اُس وقت دیا جاتا ہے جب وہ خود صاحب اولاد ہوچکے ہوتے ہیں ایک سنجیدہ اور قابل غور بات یہ ہے کہ تعلیمی دباؤ کے نتیجے میں ہونے والی خود کشیوں کی وجہ بھی والدین کا رویہ ہے کیونکہ والدین اپنے بچے کے پیدا ہوتے ہی یہ اُمید کرلیتے ہیں کہ ہمارل بچہ ڈاکٹر ،انجینئربنے گا جو سرا سر غلط ہے۔حال ہی میں لمس کے ایک طالبِ علم ’عاطف آرائیں ‘ نے خودکشی کی جس کی وجہ یہ سامنے آئ کے وہ ڈاکٹر نہیں بننا چاہتا تھا اور اُس کے و الدین بہ ضد تھے کہ ہمارا بچہ ڈاکٹر بنے گا۔
ہمارے معاشرے کے والدین اپنے بچوں کو کبھی انفرادی شخصیت تشکیل دینے کا موقع نہیں دیتے بلکہ اگر کسی کی اولاد کی سوچ اپنے والدین سے الگ ہوتو اس بچے کو بد تمیز ، بد اخلاق اور کئی ایسے القابات سے نوازا جاتا ہے جبکہ والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر انسان اپنی سوچ اور شخصیت میں ایک انفرادیت رکھتا ہے اور آپ کی اولاد کا آپ کی طرح سے زندگی گزارنا ہر گز ضروری نہیں ۔ ان سب باتوں کو سمجھنے اور اپنے بچوں سے خوشگوار رشتہ قائم کرنے کیلئے والدین کو بھی کونسلنگ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق 63% فیصد پاکستانی بچے اپنی تعلیمی فیلڈ اپنے والدین کے کہنے پر منتخب کرتے ہیں 54% فیصدشاگرد اپنی تعلیمی فیلڈسے مطمئن نہیں اور صرف 48% پڑھے لکھے والدین اپنے بچوں کو اپنی پسند کی تعلیمی فیلڈ منتخب کرنے کا موقعہ دیتے ہیں۔
اس کیلئے جدید دور میں والدین کیلئے "والدین کونسلنگ کورسز" کروائے جاتے ہیں۔ والدین کی کونسلنگ دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں تیزی سے پذیرائی حاصل کر رہی ہے ۔ والدین کونسلنگ سینٹر میں والدین کو ایک بچے کی پر ورش کرنے کیلئے کچھ اہم چیزیں سکھائی اور بتائی جاتی ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے بچے کو ایک اچھا شہری اور ایک اچھا انسان بنانے میں مدد حاصل کر سکیں ۔ ان سینٹرز میں والدین کو بچوں کے سامنے کیسا رویہ رکھنا ہے ، بچے سے گفتگو کرنے کا طریقہ ، بچے کی عادات کو مانیٹر کرنے کا طریقہ، بچے کو نئی چیزوں سے آشنا کرنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔ لاکھوں والدین اس سے فائدہ اٹھا کر اپنے بچوں کی پر ورش میں نمائندگی حاصل کرتے ہیں ۔ ہماری حکومت کو بھی چاہئے کہ پورے ملک میں فوری بنیادوں پر ایسے Parents Counciling Centersقائم کئے جائیں جہاں ہمارے والدین کو ان سب چیزوں سے آگاہ کیا جا سکے تاکہ آنے والی نسلوں کی انفرادیت اپنے ہی والدین کے پیروں تلے نہ روند دی جائے۔
Comments
Post a Comment