Waleed Bin Khalid article تعلیم نسواں

This is essay, not article. An article should be current, relevant, in time and geography, where where 5 Ws + 1 H also apply on article
What has changed in women education since last two decades or so,
What has changed in Pakistan for women education? etc
Some specific dimension, aspect, angle, Information
Some figures facts, 
تعلیم نسواں 

ولید بن خالد2k17-MC-105 
علم کی پرواز کی کوئی قید نہیں ہے یہ معاشرے کے ہر طبقہ میں موجود لوگوں کے دل و دماغ کو روشن کرنے اور انہیں راہ راست پر گامزن کرنے کا ہنر اور صلاحیت رکھتا ہے اور اس بات سے ہم بخوبی واقف ہیں کہ علم وہ شمع نہیں جو صرف مردوں کو فیضیاب کرے بلکہ یہ تو وہ مشعال ہے جو ہر دل و دماغ میں چھپے اندھیرے کو خواہ وہ کسی مرد کے اندر ہو یہ پھر عورت کے اندر اس میں مکمل اجالہ کر کہ رکھ دیتی ہے چنانچہ تعلیم حاصل کرنا ہر مرداورعورت پر لازم ہے۔ ترقی صرف وہ ہی قوم کر سکتی ہے جو تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں۔ علم کے بغیر انسان خدا کو بھی پہنچاننے سے قاصر ہے۔ کسی بھی عمل کے لئے علم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیوں اس تعلیم کے بغیر انسان جاہل ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے بھی حصول علم لازم ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے علم حاصل کرنے کی تاکید کی ہے خواہ اس کے لئے دور دراز کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ علم ایک ایسا سمندرہے جس سے جو جتنا چاہے سیراب ہو سکتا ہے۔انسان کی زندگی میں نکھارصرف علم سے ہی آ سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت و مرد دونوں کی اہمیت یکساں ہے۔ ترقی کی راہوں پر آگے بڑھنے کے لئے تعلیم عورتوں کے لئے بھی اتنی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لئے۔ عورت اور مرد ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ساتھ چلنا بہت ضروری ہے اگر ایک پہیا خراب ہو جائے تو گاڑی نہیں چل سکتی۔ اس لئے زندگی کی گاڑی کو متوازن انداز میں چلانے کے لئے تعلیمِ نسواں نہایت ضروری ہے۔



بچے کی ابتدائی درسگاہ دراصل ماں کی گود ہوتی ہے۔ اگر ماں تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کی پرورش اچھے حالات میں ہوتی ہے۔ بچے اپنی ماں سے طور طریقے اور آداب حاصل کرتے ہیں۔ ایک ماں ہی اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جب ماں کی بنیادیں مستحکم ہوں گی تو بچے بھی معاشرے کے اہم فرد کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں لیکن اگر ماں ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوگی تو معاشرے کا مستقبل نہایت خطرے میں آ جائیگا۔باہرممالک میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالع کرتی ہے اُن کا ماننا ہے کہ اس عمل سے بچہ کے دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہوتے اور اٗس کی تعلیم کا سلسلہ ماں کی گودھ ہی سے شروع ہو جاتا ہے اس طرح جب وہ بچہ دنیا سے مترادف ہوتا ہے تب اسے زیادہ مشکلوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ہمارے ملک میں آبادی کا تقریباً نصف سے زائد خواتین پر مشتمل ہے جن کی متوازن شرکت کے بغیر مطلوبہ ترقی نہیں ہو سکتی جو کہ صرف تعلیم نسواں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔


دن بہ دن بدلتے وقت اور بدلتے حالات کہ ساتھ اس بات کا انداذہ لگانا زیادہ مشکل ثابت نہ ہوگا کہ علم کی فقت اہمیت میں ہی اضافہ ہوتا ہے وضح میں نہیں ۔ایک وہ زمانہ تھا جب لوگ اپنے دقیانوسی خیالات کی سرپرستی میں بیٹوں کی پیدائش با عثِ فخر اور بیٹیوں کی پیدائش باعثِ ذلت سمجھتے تھے اور نچلے طبقوں میں تو بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دینا واحد حل سمجھا جاتا تھا۔مگر آج کل کے زمانے میں جہاں بیٹیاں اپنی کارکردگی سے مورے ملک کا سرمایا بن جاتی ہیں اور اپنے ماں باپ اور خاندان کا نام پوری دنیا میں روشن کرتی ہیں وہاں بیٹیوں کی پیدائش کو باعس رحمت و برکت سمجھا جاتا ہے اور معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے اور اس پر قائم رہنے میں ان کے ساتھ کھڑا رہا جاتا ہے۔معاشرے میں عورت کی اس پروان کی حقیقت درِحقیقت تعلیمِ نسواں ہی ہے جس نے عورت کو اس قابل بنایا کہ وہ سہی کو سہی اور غلط کو غلط کہنے اور صابت قدم رہنے کے قابل بنایا ہے تا کہ وہ مردوں کے ساتھ مل اپنے ملک کی کامیابی اور ترقی میں اپنا حصہ ادا کر سکے۔


تعلیم جیسے لڑکوں کے لیے ضروری ہے ایسے ہی آجکل کے جدید دور میں لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم بہت ضروری ہے۔ہمارے ملک میں غربت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے اور مشاہدے سے معلوم ہوتاہے کہ اس دور میں جہاں مہنگائی اپنے عروج پر ہے وہان ایک آمدنی سے گھر کے اخراجات مکمل نہیں ہوتے ایسے حالات میں تعلیمِ نسواں ہی ہے جومرد کی کفالت کرتی ہے او رعورتوں کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ مرد کے شانہ بہ شانہ گھر کو سمبھال سکتی ہے۔مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجہ نہیں دی جاتی اس جدید دور میں بھی ہمارے ملک میں نصف سے زائد خاندان تعلیمِ نسواں کے خلاف دکھائی دیتے ہیں اور اپنی بہن بیٹیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے یا زیادہ سے زیادہ بارہویں جماعت تک پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں جو آج کے دور میں بے معنیٰ ہے۔اور صرف بارہ جماعتیں پڑھ لینے سے کوئی بھی لڑکی ملک کی خدمت اور ترقی میں حصہ نہیں لے سکتی ۔نہ ہی اپنے گھر کی کفالت کر سکتی ہے۔


حال ہی کی بات ہے کہ ایک پڑوسی نے اپنی بیٹی کی بارہویں کے امتحانات سے پہلے ہی شادی کردی اور یہ بات واضح ہے کہ وہ اب اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی۔یہ محض ایک ہی مثال ہے مگر ایسی بہت سی مثالیں ہمیں اپنے ارد گرد دیکھنے اور سننے کو ملتی ہیں جن کی کو ئی روک تھام نہیں ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کم ہی سہی مگر ایسے لوگ بھی موجود ہیں جونہ صرف اپنی بہن بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دیتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تعلیمِ نسواں کی ترغیب دیتے ہیں۔اور آنے والے وقتوں میں اس کے مثبت اثرات سے آگاہ بھی کرتے ہیں کہ تعلیمِ نسواں نہ صرف ایک عورت کی تعلیم بلکہ ایک مکمل خاندان کی تعلیم کے برابر ہوتی ہے۔


یہاں ایک بات واضح ہے کہ تعلیمِ نسواں کے فروغ کے لئے مردوں کا تعلیم یافتا اور با شعور ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ جب تک گھر کا مرد ہی بے شعور ہوگا اور تنگ نظریے کا مالک ہوگا تب تک وہ اپنی بہن بیٹی کو گھر میں قید کر کے رکھے گا اور معاشرے میں پروان چڑھنے نہیں دے گا اس کے بر عکس اگر مرد تعلیم یافتا ،با شعور اور کشادہ نظریہ رکھتا ہوگا تو وہ اس بات سے واقف ہوگا کہ عورتوں کی تعلیم آج کے اس ترقی یافتا دور میں کتنی ضروری ہے نہ صرف عورت کے لئے بلکے اسکے گھر ،خاندان اور ملک کے لئے بھی۔کیونکہ اب وہ دور گیا جب خاندان گھریلو اور کم تعلیم یافتہ لڑکیوں سے شادی کی خواہش رکھتے تھے مگر اس برقی رفتار سے ترقی کرتے دور میں ہر خاندان اپنے وقار اور عزت میں چار چاند لگانے کے لئے تعلیم یافتا لڑکیوں کو فوقیت دیتے ہیں اور کچھ خاندان تو ایسے بھی ہیں جو اپنی بہو ،بیٹی اور بہن کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اسے معاشرے سے متعارف ہونے کا موقع دیتے ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ انکے گھر کی رونق معاشرے اور ملک کی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تا کہ وہ اپنے والدین اور خاندان کا نام روشن کر سکے۔


تعلیمِ نسواں نہ صرف عورت کہ علم کی راہ سے اراستہ کرتی ہے بلکہ معاشرے میں موجود ہر مرد اور عورت کی غلط سوچ کو جڑ سو پاک کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں عورت اور مرد دونوں کی محنت پر چلنے والاایک خوشحال اور کامیاب معاشرہ پروان چڑھتا ہے اس سلسلہ میں حکومتِ پاکستان کو بھی چاہیئے کہ تعلیمِ نسواں کے حوالے سے لوگوں میں شعور پیدا کریں تا کہ نہ صرف لڑکے بلکہ لڑکیاں بھی اس ملک کی ترقی میں برابر کی شرکت کر سکیں اور ملک کا نام روشن کر سکیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Mudasir chandio profile بيدار بخشل چانڊيو revised

Musabbiha Imtiyaz-حیدرآباد میں فوڈ سٹریٹ کا رحجان

Amjad Khoso MC 16 Article-Revised