مستقبل کے صحافیوں اور اساتذہ کے بارے میں دلچسپ تاثرات
مستقبل کے صحافیوں کے اساتذہ اور ایڈیٹوریل بورڈ کے بارے میں دلچسپ تاثرات
فضل حسین 2k17 MC 34
ارحم خان نے نیوز پیپر اور رسالہ کے الوداعی تبصرہ میں یہ بتایا کہ ابتدائی دو سالوں میں پوری کلاس کو ایک پلیٹ فارم کے تحت کا م کرنے کا موقع نہیں ملا جو اب ہمیں فیلڈ ورک کے دوران روشنی اخبار میں کا م کرکے حاصل ہوا۔اس پریکٹیکل ورک سے معلوم ہوا کہ فیلڈ میں کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ آرٹیکل لکھنا ہو یا فیچر یا پھر کسی شعبہ سے خبر لینی ہو سر سہیل سانگی کا ایک جملہ میرے خیال میں رہتا تھا کہ
ِِِِِِِ ََِِِِِ ٌٌٌ "یونیکنیس"۔ایڈیٹوریل بورڈ کے بارے میں ارحم کا کہنا تھا کہ ان کا برتاؤ ہمیشہ کودوستانہ اور مددگا ر رہا کیونکہ رپورٹر اور ایڈیٹر ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہیں۔
فیصل رحمن نے نیوز پیپر اور رسالہ کے الوداعی تبصرہ میں یہ بتایا کہ سرسانگی کی سر پرستی میں کا م کرنا ایک اعزاز کی بات تھی کیونکہ سر کئی سالوں سے عملی صحافت میں نمایاں رہے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔انکا انداز بلکل پیشہ ورانہ ادارے کے مالک کی طرح کا تھاجو کام کا وقت پر مکمل نہ ہونے پر ڈاٹنا،کام کو دیے گئے وقت کے بعد وصول نہ کرنا عملی صحافت میں وقت کو اہمیت دینا۔ایڈیٹوریل بورڈ کی جانب سے تمام ساتھیوں کو لیکر چلنااور ملکر کام کرنا ہی انکی خاصیت تھا۔
مہک علی نے نیوز پیپر اور رسالہ کے الوداعی تبصرہ میں یہ بتایا کہ شروع کی دو تین کلاس تک اُنہیں لگا کہ سب کچھ بہت آسان ہے نیوز پیپر اور رسالہ بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن اُن کی اُمیدوں پر اُس وقت پانی پڑ گیا جب وہ پہلی دفعہ اپنے فیچر کا موضوع منظور کرانے گئیں اور اُسی وقت اُن کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔اُن کا مزید یہ کہنا تھا کہ مختلف موضوع پر لکھنے اور سر سہیل سانگی کی بتائی ہوئی غلطیوں سے اُن کے لکھنے میں خاطر خواہ تبدیلیاں اور نکھار آگیا ہے۔ مہک علی کا ایڈیٹرز کے بارے میں یہ کہنا تھا کہ کرسی کا اثر سب پر ہوتا ہے کرسی آتے ہی اچھے اچھے لوگ اپنے انداز اور رنگ بدل لیتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی کسی کو موقع ہی نہیں دیا کہ کوئی ایڈیٹر انہیں کچھ کہے اِس لیے پو را سال اُنہیں کسی ایڈیٹر سے کوئی شکایت نہیں رہی۔
ٰٰٓٓایک اورساتھی شہریار کا کہنا تھا کہ میں سہیل سانگی صاحب کا شکر گزار ہوں کے ان کی نگرانی میں میں نے اتنا کام سیکھا۔
شعبہ کی طالبہ ردا فاطمہ کا کہنا تھا کہ سر کا ہمیں پڑھانا اور ان سے بہت کچھ سیکھنا میرے لئے باعث فخر ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ایڈیٹرز کا برتاؤ بھی منفرد تھا اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔
صوبیہ جو خود پہلے سیمیسٹر میں رپورٹر تھی اور دوسرے میں ایڈیٹر بھی رہی ان کا کہنا تھاا پنے تجربے کے بارے میں کہ میرے استاد سہیل سانگی صاحب جو ایک بہت تجربہ کار صحافی ہیں ِ،ان کی رہنمائی میں مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔وقت کا احساس ہوا کہ کس طرح وقت کی پابندی کو دیکھتے ہوئے کام مکمل کیا جائے۔اس کے علاوہ کام کوو تفریح کے بجائے سنجیدگی سے لینا سیکھا۔اور گروپ میں کام کرنے کا بھی بہترین تجربہ ہوا۔ کیونکہ مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ کام کرنا مشکل ہوتا ہے مگر میں سہیل سانگی صاحب کی شکر گزار ہوں کہ ان کی رہنمائی میں نے ٹیم میں کام کرنے کا موقع ملا۔اس کے علاوہ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ صحافت میں سیاست کیسے ہوتی ہے۔پروفیشنل کیسے بنا جاتا ہے ہر دوستی کو سائیڈ کرکے۔میں نے اس کام کے دوران دوستیاں بھی ٹوٹتی دیکھی۔دوستی کے آگے کام کو اہمیت دینا بھی میں نے سیکھا۔
ایڈیٹر سیدحمزہ حسین کا کہنا تھا کہ شعبہ میں نیوزپیپر اور میگزین کی پروڈکشن میرے لئے بہت فائدہ مند رہی۔اس میں ایڈیٹوریل بورڈ،سہیل سانگی صاحب اور میڈم انجم نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ان کا کہنا تھا کہ پروڈکش میں میں نے رپورٹر اور ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کیا اور بہت کچھ سیکھا۔
ایک ساتھی طالبہ سعدیہ شمیم کا کہنا تھا کہ میں نے پہلی دفعہ اخبار دیکھا تو میں نے گمان کیا کہ اخبار نویسی کا کام تو بہت مشکل ہے یہ کام میں کس طرح کرونگی؟مجھ سے نہیں ہوگا۔ میں ڈر تی تھی کہیں مجھ سے سر خفا نہ ہوجائیں۔کیونکہ اپنے سنئیرز سے پتہ چلا تھا کہ سر بہت زیادہ سخت ہیں۔لیکن جب تیسرے سال میں ہم داخل ہوئے۔ سر کی پہلی کلاس میں ہی مجھے اندازہ ہوا۔ کہ سر پریکٹیکل ورک میں کام تو بہت لینگے اور مشکل بھی بہت ہوگا۔کیونکہ شرعاتی کلاسیس میں سر نے گروپ بنالیا تھا۔سر کی جانب سے گروپ میں کلاس اور اخبار بینی کے حوالے سے معلومات بھیجی جانے لگی۔لیکن جب سر نے مجھے بھی ایڈیٹر کے لیے منتخب کیا ۔یہی وجہ ہے کہ مجھ میں تھوڑا حوصلہ پیدا ہوا۔اس طرح سر کی شاگردی میں کام کرنے کا موقع ملا۔اسی طرح پریکٹیکل ورک سے ہمیں سر کی رہنمائی میں رہ کر وہ چیزیں سیکھنے کو ملی جو ہمیں صحافت میں کام آسکیں گی۔اس پریکٹیکل ورک ہیں اپنے دوستوں کو جاننے کا موقع ملا۔اسی طرح میم انجم کا کردار بھی بہت اچھا رہا ۔جو کہ ہمیں اگے بھی یادر ہیگا۔
Comments
Post a Comment